مقامی حکومتوں کا نظام ۔حصہ دوئم


تحریک انصا ف کو یہ داد دینی ہوگی کہ ان کی جانب سے پیش کردہ مقامی حکومتوں کا نظام 2019 ماضی کے نظام سے کافی بہتر ہے او راس میں اختیارات کی تقسیم بھی کافی حد تک نظر بھی آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نظام میں چندایسی خامیاں ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی نظام مکمل طو رپر شفاف یا خود مختاری کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہر نظام اپنے اندر اصلاحات کی گنجائش رکھتا ہے او رایک اچھی حکومت ہمیشہ سے اصلاحات او رترمیم کی گنجائش رکھ کر نظام کو تواتر کے ساتھ موثر اور شفاف بناتی ہے۔ کیونکہ اگر مقصد مقامی نظام حکومت کی مدد سے مقامی طرز حکمرانی کو عوامی خواہشات کے تابع بنانا ہے تو ہمیں اپنے دروازے بند نہیں کرنے چاہیے۔

پنجاب کے نئے مقامی نظام 2019 میں کچھ بنیادی نکات ایسے ہیں جس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جن میں چند مندرجہ زیل نکات اہم ہیں۔ اول ابھی تک یہ منطق سمجھ میں نہیں آسکی کہ حکومت نے ضلع کونسلوں کو کیونکر ختم کیا ہے۔ اس تناظر میں جو منطق دی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے براہ راست بڑے یونٹ کے مقابلے میں چھوٹے یونٹ بنا کر نظام کو زیادہ موثر بنایا ہے۔ لیکن آئین کی شق 140۔ A میں یہ بات واضح ہے کہ ہمیں مقامی حکومت کے نظام کو سیاسی، انتظامی او رمالی خود مختاری دینی ہے اور جب دنیا میں تیسری حکومت وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومت کی بات کی جاتی ہے تو ضلع کا سربراہ بھی عوام کا منتخب نمائندہ ہونا چاہیے۔

صرف تحصیل کونسلو ں تک اختیارات کو محدود کرکے ضلع کی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ بلاواسطہ ضلع میں انتظامی افسران یعنی ڈی سی او زیادہ طاقت ور ہوگا۔ دوئم آدھا جماعتی اور آدھا غیر جماعتی انتخاب یعنی پنچائت اور نیبر ہڈ کونسل کے انتخاب غیر جماعتی اور دیگر سطح پر جماعتی انتخاب ہوگا۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ حکومتیں جو غیر جماعتی انتخاب کا طریقہ اختیا رکرتی ہیں عملا وہ بھی جماعتی ہی ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہیں، انتخابی مہم چلاتی ہیں، سیاسی نعرے لگائے جاتے ہیں، جیت کے دعوے کیے جاتے ہیں، سیاسی کارکن متحرک ہوتے ہیں تو پھر یہ کیسا غیر جماعتی انتخاب ہوگا۔ اس غیر جماعتی منطق کا سیاسی تجربہ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کے مقابلے میں برادری سسٹم کو مضبوط بناتاہے۔

سوئم تحریک انصاف کی ایک بڑی طاقت نوجوان او رعورتیں ہیں۔ اس نظام میں اول تو نوجوانوں کی پہلے سے موجود نشست کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ یہ عمل 18 برس سے 24 سال تک کے نوجوانوں کا حوصلہ شکنی کا سبب بنے گا۔ اگر نوجوانوں کی نشست کو ختم ہی کرنا مقصود ہے تو اس کا ایک حل انتخاب لڑنے والے کی عمر میں کمی کرکے اسے 21 یا 22 برس کی جاسکتی ہے۔ یہ عمل مقامی سطح پر نئی نوجوان قیادت کو سامنے آنے کا موقع فراہم کرے گا۔

چہارم جنرل مشرف کے دور میں مقامی نظام میں 33 فیصدعورتوں کی نشستیں رکھی گئی تھیں۔ سابقہ پنجاب حکومت اور موجود پنجاب حکومت نے ان نشستوں میں کمی کردی ہے۔ حالانکہ عورتوں کی نشستیں 33 فیصد ہونے سے ان کی سیاسی کردار بھی بڑھتا ہے اور مقامی سطح پر عورتیں براہ راست انتخاب کی مدد سے بطور سیاسی لیڈر کے طو رپر بھی سامنے آسکتی ہیں۔

اس نئے نظا م میں جو براہ راست انتخاب کی مدد سے چیرمین او رمیئر کے انتخاب کی مدد سے قیادت سامنے آئے گی اس کے پاس یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی کابینہ کا انتخاب کرسکے جو منتخب اور غیر منتخب افراد پر مشتمل ہوگی۔ اس میں اگر یہ ترمیم کردی جائے کہ کابینہ کی تقرری میں متحرک اور پروفیشنل عورتوں کو جو مختلف شعبہ جات میں مہارت رکھتی ہیں ان کی کوئی تعداد حتمی ہونی چاہیے، وگرنہ خطرہ یہ ہے کہ پوری ہی کابینہ مردوں پر مشتمل ہوگی جو عورتوں کی سیاسی حیثیت کو کمزور کرے گا۔

اسی طرح اقرا پروری کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنوکریٹ کی تقرری کے طریقہ کار کو شفاف بنائیں او راس میں ایسے لوگ حصہ نہ بن سکیں جس کی بنیاد محض سیاست ہو او روہ کسی بھی شعبہ میں دسترس نہ رکھتے ہوں۔ اسی طرح یہ واضح ہونا چاہیے کہ عوام کے منتخب نمائندوں اور بیوروکریسی کے درمیان اختیارات کا توازن بھی ہو او ریہ اس تاثر کی نفی ہو کہ عوامی منتخب نمائندوں کے اداروں پر بیورورکریسی مسلط ہوگئی ہے۔ ایک مسئلہ فوری طو رپر پہلے سے موجود نظام کو ختم کرنا او راس کی جگہ ایک برس کے لیے انتظامی ایڈمینسٹریٹر کی تقرری بھی سیاسی ایجنڈے کو ظاہر کرتی ہے۔ کیونکہ خیبر پختونخواہ میں پہلے سے موجود مقامی نظام ہی کام کرے گا، مگر پنجاب میں سیاسی بنیاد پر دوسری حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ پنجاب میں جو فیصلہ کیا گیا اس میں انتظامی یا قانون سے ایک قدم آگے بڑھ کر سیاسی نوعیت کا بھی ہے۔ یہ عمل خود آئین کی شق 140۔ Aکی نفی کرتا ہے۔

پچھلے دنوں میں میں او رمقامی حکومتوں پر کام کرنے والے ایک موثر گروپ ”سول سوسائٹی فورم برائے مقامی طرز حکمرانی“ نے پنجاب کے وزیر قانون و بلدیات راجہ بشارت سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں راقم کے علاوہ انور حسین، بشری خالق، ام الیلی اظہر، شہزادہ عرفان احمد، شہریار وڑائچ، نبیلہ شاہین، فیضان وڑائچ، سمعیہ یوسف، فیروزہ بتول شامل تھے۔ ہم نے ان کے سامنے جہاں ان کے اچھے اقدامات کی تعریف کی وہاں ان کے سامنے اپنے تحفظات بھی پیش کیے۔

راجہ بشارت ماضی میں مقامی حکومتوں سے متعلق وزیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں اور جنرل مشرف کے دور میں جو مقامی نظام آیا اس میں پیش پیش تھے۔ وزیر بلدیات راجہ بشارت نے اعتراف کیا کہ اس میں کچھ مسائل ہیں جو توجہ طلب ہیں او رجو بھی نئی تجاویز آرہی ہیں اس پر ضرور غور کیا جائے گا۔ البتہ انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ ہم نے حزب اختلاف کو بلڈوز کرکے قانون منظور کیا ہے۔ ان کے بقول 14 ایسی ترامیم ہیں جو ہم نے بطور حکومت حزب اختلاف کی قبول کی ہیں۔

راجہ بشارت نے کہا کہ ہم عید کے بعد اس نئے نظام کی آگاہی لوگوں میں عام کریں گے اور ثابت کریں گے کے موجودہ نظام لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ راجہ بشارت نے یہ بھی کہا کہ پہلی بار کسی وزیر اعظم کی سنجیدگی کا انداز اس نظام سے اس طرح بھی لگایاجاسکتا ہے کہ خود وزیر اعظم عمران خان نے 14 اجلاس اپنی نگرانی میں کیے جو ان کی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مقامی نظام کی مدد سے حکمرانی کے نظام کو بہتربنانا چاہتے ہیں۔

جنرل مشرف کے دور میں جب نظام آیا تو اس کو نافذ کرنے سے قبل پورے ملک میں ”پیپلز اسمبلیوں کی طرز پر“ لوگوں سمیت مختلف فریقین سے وسیع پیمانے پر مشاورت کی گئی او راس کے بعد اسے منظور کیا گیا تھا۔ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ حکومت جلد بازی چاہتی ہے اس پر جتنی زیادہ مشاور ت ہوگی اس نئے نظام کی ساکھ بھی بڑھے گی۔ لیکن اس نظام کی پائداری پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اول یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک ملک میں ایم این اے او رایم پی اے کی سطح پر ترقیاتی فنڈز کا کھیل ختم نہیں ہوگا اس وقت تک مقامی نظام کی مضبوطی خود ایک بڑا سوالیہ نشان رہے گی اور اس پر سیاسی سمجھوتہ درست حکمت عملی نہیں۔

اسی طرح اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ جو نیا نظام پنجاب میں تحریک انصاف لارہی ہے خود اس کا مستقبل کیا ہے او رکیوں مستقبل میں آنے والی نئی صوبائی حکومت اس نظام کو قائم رکھے گی، کیونکہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہر آنے والی حکومت مقامی نظام کو پہلے ختم کرتی ہے اور پھر اپنی مرضی کا ایک نیا متبادل نظام دیتی ہے۔ مقامی نظام میں تجربہ گاہ کا یہ رویہ کبھی بھی مقامی نظام کو مضبوط نہیں ہونے دے گا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پورے نظام میں وفاق کاکوئی کنٹرول نہیں۔

حالانکہ چند بنیادی اصولوں پر وفاق کا کردار بنتا ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کو پابند کرے کہ ان بنیادی اصولوں کو جو آئین میں شق 140۔ Aاور شق 32 کے تناظر میں دی گئی ہے کی بنیاد پر ایک ایسا نظام تشکیل دے جو مقامی نظام کو مضبوط بناسکے۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ اگر ہم نے ملک میں مقامی نظام حکومت کی مدد سے حکمرانی کے بحران کو حل کیا تو اس سے بہتر نتائج بھی ملیں گے، جمہوریت اور لوگوں کا جمہوری عمل سمیت سیاست اور سیاسی جماعتوں سمیت سیاسی قیادت پر بھی اعتماد بڑھے گا۔ اس وقت اصل مسئلہ ریاست، حکومت او رعوام کے درمیان موجود بداعتمادی اور خلیج کا ہے او راس کو مقامی نظام کو مضبوط بنا کر ہی بڑے بحران سے بچا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).