موجودہ تعلیمی نصاب اور ہمارے نوجوانوں کے فکری مغالطے و مطالبات


کیا آپ سٹیفن پی کوہن کے بارے میں جانتے ہیں؟
انٹرویو نگار نے احمد سے سوال کیا۔

جی نہیں، میں نے ان کا نام آج پہلی بار سنا ہے، احمد کے چہرے پر پھیلے حیرانی کے سایوں نے انٹرویو نگار کو اکسایا کہ وہ مزید اس قسم کے سوال پوچھے، لہذا اس نے اگلا سوال کچھ اس طرح داغا

کیا آپ جانتے ہیں پاکستان میں پہلا مارشل لاء کب لگا تھا؟
جی وہ میں، جی۔ مجھے یاد نہیں۔
ٹھیک ہے، آپ جا سکتے ہیں۔ باری آنے پر آپ کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

اس قسم کے اکثر سوالات ہمارے نوجوانوں کے راستے کی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور یوں اچھا بھلا ذہن نوکری یا کسی اور مقابلے میں ناکامی کی صورت میں دباؤ کا شکار ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ

کیا جو نصاب میں نے پڑھا، وہ بدلتی دنیا کے تقاضوں کے مطابق تھا؟
اگر ہاں تو اس کی بنیاد پر مجھے نوکری کیوں نہیں ملی؟

اگر نہیں تو ریاست جس کی بنیادی ذمہ داری ہمیں تعلیم دینا ہے، وہ اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کر پا رہی؟

پاکستان جس کے قیام کی بنیادی وجوہات پیدا کرنے میں انگریزوں کے دہرے نظام تعلیم نے اہم کردار ادا کیا، اس میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کو صوبائی معاملہ قرار دیا جاتا ہے مگر کیا ہر صوبہ تعلیمی پالیسی بنانے میں آزاد ہے، اس حوالے سے جب پاکستان کے تمام صوبوں کے ثانوی اور اعلی ثانوی تعلیمی نصاب کا جائزہ لیا گیا تو اس بارے میں شدید ابہام پائے گئے کہ

نصاب میں کیا شامل کیا جائے اور کیا نہیں؟

اردو، انگریزی، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان نامی مضامین ہر صوبے میں مشترک ہیں جن کا نصاب اور ان میں اسباق شامل کرنے کی منظوری ”نیشنل بیورو آف کریکیولم“ کے ذریعے دی جاتی ہے، جس کے بعد ہر تعلیمی بورڈ کا ملحقہ ادارہ ”ٹیکسٹ بک بورڈ“ کو اس کتاب کے چھاپنے کا کہتا ہے اور ٹیکسٹ بک بورڈ اپنے مصنفین کے پول یا متعلقہ ماہرین کو اسباق کے لکھنے کا کہتا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ مطالعہ پاکستان پر سرکاری مطالعہ پاکستان کی پھبتی کسی جاتی ہے، اردو کو گل و بلبل کے مضامین سے آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا اور اسلامیات میں محض عقائد کی بنیاد پر نشانات ملتے رہتے ہیں اور انگریزی تو ہے ہی عالم اغیار کی زبان، ال ہذا اس کے نصاب میں وہی ناول یا ڈرامہ اب تک شامل ہے جو آج سے پہلے ہمارے اساتذہ اور ان کے بھی اساتذہ پڑھتے آرہے ہیں تو کیا اس سطح کے نصاب کے ساتھ ہم مارکیٹ کی مانگ کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس نصاب میں ایسا کیا ہے جو تنقیدی سوچ، آزادی فکر اور رواداری جیسے پہلووں سے ہمیں نا آشنا کرتا ہے؟

نصاب سازی کے عمل میں حکومتی اجارہ داری نے تاریخ کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ روایتی تصورات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ مطالعہ پاکستان جیسا مضمون جسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے تھا، اس میں اب تک پاکستان کا عالمی دنیا میں مقام بچوں کو پڑھایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت سے سب واقف ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر ہر ملک ہمیں قصور وار سمجھتا ہے، کوئی ملک ہماری کسی عالمی فورم پر مدد کرنے کے لیے تیار نہیں جبکہ حد تو یہ ہے کہ چند اسلامی ممالک بھی ہمارے مخالفین کے کیمپ میں بیٹھے اور ان سے کاروبار کرتے نظر آتے ہیں تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم طلباء کو یہ بتائیں کہ پاکستانیوں کو دنیا کی نظروں میں اپنا مقام بنانے کے لیے کتنی محنت کرنے کی ضرورت ہے؟

عالمی ممالک کی منڈیوں میں ہمارے مال کی ساکھ کیسے بحال ہو گی؟ ہماری خارجہ پالیسی میں بدلتے وقت کے ساتھ کن کن تغیرات کی ضرورت ہے؟ لیکن ہم شاید اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب دنیا کا جغرافیہ بدلے اور ہمیں ازخود مطالعہ پاکستان میں تبدیلیوں کے لیے مجبور ہونا پڑے کیونکہ ہمارے کسی مضمون کا نصاب عالمی تو کیا، علاقائی تقاضوں سے بھی میل نہیں کھاتا،

مطالعہ پاکستان میں شامل اسباق کو دیکھا جائے تو مزید کئی دل چسپ حقائق کا انکشاف ہوتا ہے، نویں تا چودہویں جماعت کے طلباء کو پڑھایا جانے والا یہ مضمون بنیادی طور پر اس لیے تشکیل دیا گیا ہے کہ طلباء قیام پاکستان کی تاریخ، اغراض و مقاصد اور پاکستان کے سیاسی، سماجی و معاشی پس منظر سے آگاہ ہو سکیں، کیا ہم میں سے کوئی ایک پڑھنے والا بھی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اس نے مطالعہ پاکستان پڑھتے وقت اپنے اساتذہ سے یہ پوچھا ہو کہ ہمیں پاکستان کے معدنی وسائل کے بجائے دنیا میں موجود نئے تصورات یعنی انسانی وسائل اور ان کی تاریخ پڑھائی جائے؟

کیا ایک ایسا ہاتھ بھی ہے جو کسی کمرہ جماعت میں اس بات پر بلند ہوا ہو کہ مسلم لیگ ڈھاکا میں بنی تو مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا؟ ہمیں انگریزی زبان قبول ہے، مگر بنگلہ زبان کیوں قبول نہیں تھی؟ ہم ڈالر ملنے پر دنیا بھر کے لوگ اپنے ملک میں بلانے کو تیار ہیں مگر اپنے بنگالی بھائیوں کو شہریت دینے میں ہمیں کیا مسائل ہیں؟ دراصل مطالعہ پاکستان کا ہر تصور ہر جماعت میں دہرایا جاتا ہے لہذا ہمارے طلباء کی بیزاری چہرے سے اور دل چسپی جوابات سے عیاں ہوتی ہے اور اسی لیے وہ بنیادی طور پر جغرافیے اور تاریخ کا فرق نہیں جانتے، کسی سیاسی مفکر کا نام انہوں نے نہیں سنا ہوتا، حالات حاضرہ سے ان کی واقفیت صرف اس قدر ہوتی ہے کہ وہ کسی سرکاری چھٹی کا انتظار کر سکیں، مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قصور کس کا ہے؟

آزادانہ سطح پر یہ تمام لازمی مضامین اور ان کا نصاب نجی شعبے کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا، اسی لیے جو ہمارے نوجوان ٹھنڈے کمروں میں پڑھتے ہیں، وہ مارکیٹ کی گرم بازاری کا مقابلہ کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے اور یوں ایک سے دوسرے شعبے میں جانے یا مایوسی کے مواقع بڑھنے لگتے ہیں جس کا نتیجہ خودکشی یا منشیات کے استعمال کی راہ پر چلنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ سرکاری سطح پر نصاب کا جائزہ ہر دس سال بعد لیا جاتا ہے، مگر اس میں نئے تصورات شامل کرنے کا یہ عالم ہے کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت اگست (دو ہزار انیس) میں ختم کی تھی اور ہم آج بھی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھ کر طلباء کو بھی یہی پڑھا رہے ہیں۔

ریاستی اور علاقائی سطح پر پاکستان کی قدرو منزلت کا ڈھول بجاتے ہمارے ہاتھ نہیں تھکتے جبکہ نوشتہ دیوار یہ ہے کہ برادر ملک افغانستان نے ہمارے پارلیمانی وفد کو لے جانے والے قومی ائر لائن کے طیارے کو اپنے کسی ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت تک نہ دی اور یوں عالمی سطح پر ہماری سبکی کا ایک اور موقع دنیا کو مل گیا اور ہم آج بھی جنیوا معاہدے میں پاکستان کے کردار کا سبق شامل نصاب کیے بیٹھے ہیں۔

ہمارے نوجوان جو ہماری آبادی کا کثیر حصہ ہیں، اس بات سے تو واقف ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں فی کس آمدنی، روزگار و تعلیم کے مواقع کس قدر محدود ہیں مگر انہیں یہ سب مشکلات تو بتا دی جاتی ہیں، ان سے لڑنے کا طریقہ نہیں بتایا جاتا۔ تعلیم اور نصاب جدید دنیا کے دو ایسے ہتھیار ہیں جن کے ذریعے صحرا میں پھول اگائے جا سکتے ہیں مگر ہم اسی نصاب کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جسے پڑھاتے ہوئے ہمارے اساتذہ کو وہ ازبر ہو گیا ہے۔

اس نصاب کو کیسا ہو نا چاہیے، اگر اس پہلو پر بحث کی گئی تو دفتر کے دفتر سیاہ کیے جا سکیں گے مگر طلباء کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس نصاب کو جدید تر تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ یعنی ہم پاکستان کے معدنی وسائل پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانے کے قابل ہو سکیں کہ اس وقت ملک میں دستیاب سرکاری اور نجی ملازمتوں کی طلب اور رسد کا کیا پیمانہ ہے، کیا کاروبار کے آسان ذرائع ہر پاکستانی کو دستیاب ہیں؟ کیا بیرون ملک ملازمت یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارا نصاب اس کی مدد کر سکے گا؟

مطالعہ پاکستان کے علاوہ ہر مضمون کا نصاب ایسی ہی انقلابی اور فکری تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ کیمیا ہو یا طبعیات، ریاضی ہو یا انگریزی اور اردو ادب، ہمارا ہر مضمون فطرت میں ہومیو پیتھک نظر آتا ہے اور اسی لیے طلباء کے فکری مغالطوں کا یہ عالم ہے کہ وہ پاکستانی مورخین میں سے بھی ایک دو نصابی کتب لکھنے والوں کے علاوہ کسی ایک کا نام تک نہیں جانتے، انہوں نے خورشید کمال عزیز کا شاہکار کام نہیں دیکھا ہوتا، وہ عزیز احمد سے ناواقف ہوتے ہیں۔

اشتیاق حسن قریشی ہوں یا سبط حسن، ہمارے لیے سب اجنبی ہوتے ہیں اور اسی لیے ہمارا ہر نوجوان، اپنے علاوہ سب کو غلط سمجھ کر تشدد پسند بھی ہوجاتا ہے اور مغرب یا مشرق کی تنقیدی فکر یا علمی روایت اس پر کوئی اثر نہیں ڈال پاتی، گویا کشتی کے مسافر نے سمندر میں اتر کر نہیں دیکھا جیسا معاملہ درپیش ہے اور اس کا حل صرف نصاب کی نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی میں پوشیدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments