عورت ہے ہی کیوں؟

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی اور معاشرے کا وہی گھناؤنا چہرہ جسے ہم پہلے بھی بارہا دیکھ چکے ہیں ایک بار پھر کھل کے سامنے آگیا۔

خان صاحب نے جب مردوں اور روبوٹ کے بارے میں ایک لطیف نکتہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی اور کچھ بد گمان ان کے پیچھے پڑ گئے تھے، تب بھی پیش نگاہ ایسے بہت سے واقعات تھے۔

ہمارے یہاں کسی جرم کے بعد عام طور پر یہی سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ عورت کہاں تھی، وقت کیا تھا، پہنا ہوا کیا تھا، وغیرہ وغیرہ لیکن اصل مسئلہ ہے کہ عورت تھی ہی کیوں؟ عورت کی چھوڑیے، اسلام آباد ہی کے ایک اور واقعہ میں تو ایک لڑکے کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی تو اصل مسئلہ کہاں ہے؟

اصل مسئلہ ہے طاقت کے اظہار کا۔ ایک شخص جو اسلحے کے زور پہ بند دروازوں کے اندر گھس جاتا ہے اس کے دفاع کے لیے بھی کوئی تاویل ہے؟

یقیناً ہو گی۔ اگر معاشرہ جرم کو گناہ اور گناہ کو لذیذ گناہ بنا کے پیش کرتا رہے گا تو یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

مرد بے چارہ کیا کرے جب یہ عورتیں ہی اسے تڑپا کے بند دروازوں کے پیچھے چھپ جاتی ہیں؟ اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ وہ ہوں ہی نہ۔ نہ وہ ہوں گی نہ مردوں کی نیت خراب ہو گی۔

مسئلہ مزید گھمبیر تب ہوتا ہے جب مرد، مرد کے ساتھ زیادتی کر گزرتا ہے۔ اس کی کوئی تاویل؟ جی اس کی بھی تاویل ہے، جب عورتیں ہوں گی ہی نہیں تو مرد بے چارہ کیا کرے؟ مردوں پہ ہی نیت خراب ہو گی۔

یوں ہم ہر جرم کی تاویل گھڑتے جائیں گے۔ موٹر وے حادثے پہ سوال کریں گے کہ ایک عورت رات گئے ایسی گاڑی میں گھر سے نکلی ہی کیوں جس کا پیٹرول ختم ہو گیا؟ اسلام آباد کے واقعے پہ کہیں گے کہ ایک غیر مرد کے ساتھ فلیٹ میں تھی ہی کیوں؟

یہ کیوں ہماری زندگیوں میں ہمیشہ مار سیاہ کی طرح پھن کاڑھے کھڑا رہا۔ لڑکیوں کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کے انتخاب کے وقت ماں باپ بچی کے رجحان کی بجائے اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس شعبے میں دیر تک گھر سے باہر نہیں رہنا پڑے گا اور سفر بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

متوسط طبقے کے والدین کی اس تکلیف کو وہی سمجھ سکتے ہیں جنہیں اپنی بچیاں کسی مجبوری میں کام کرنے کو باہر بھیجنا پڑتی ہیں۔

گھر سے باہر ایک ایسی دنیا ہے جہاں عثمان مرزا کے قبیل کے لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔ آج بھی یہ گرفتار ہو کے اپنی سزا کاٹ کے یا کسی راضی نامے کے تحت باہر نکل آئے گا اور یہ واقعہ ایک حکایت لذیذ تر کے انداز میں سنائے گا ۔

مگر اس واقعے سے متاثر لڑکی شاید کبھی اس کے بد اثرات سے باہر نہ آ سکے۔ مجرم کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس سوچ کو بھی سزا دیجئے جو ایسے واقعات کا شکار ہونے والوں کو شرمندگی اور دکھ سے دوچار کرتی ہے۔

شرمندہ اور پشیمان مجرم کو ہونا چاہیے نہ کہ مظلوم کو؟ وہ تمام حضرات و خواتین جو ایسے جرائم کے لیے دانستہ یا نا دانستہ تاویلات تراشتے ہیں اور ’بے چارے مرد‘ کی وکالت کرتے ہیں، اگر صرف یہ ہی لوگ باز آ جائیں تو معاشرہ بہت حد تک بہتر ہو سکتا ہے۔

ہر بات چھوڑیے، صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ کیا ایسے مجرموں کو مجرم نہ سمجھنے کے پیچھے ہمارا کوئی خوف کارفرما ہے؟ کیا ہم خود بھی کبھی ایسے جرم کا ارتکاب کر چکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں؟

جواب مل جائے گا تو بہت سے مسائل کی نشاندہی بھی ہو جائے گی مگر یہ سوال کرنے کے لیے بہت ہمت چاہیے، اس سے کہیں زیادہ ہمت جو بندوق کے زور پہ کسی کمزور سے زیادتی کرنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).