ایک افغان بچی کے ریزہ ریزہ خواب


سورج پہاڑوں کی اوٹ میں اوجھل ہو رہا تھا۔ شفق کی زردی مائل رنگت لئے ہوئے علیشنگ کے پہاڑی سالوں سے اس علاقے کا درد اپنے سینے میں دبائے اب بھی غرور سے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ مگر یہ پہاڑوں بھی بارود کی تڑتڑاہٹ کے باعث اندر سے ریزہ ریزہ ہیں۔

انسانوں کی طرح یہ خوبصورت پہاڑ اپنے سینے مین لیے برسوں کا درد کسی سے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن پھر بھی علیشنگ وادی کے یہ پہاڑ علیشنگ کے باسیوں کی طرح خوشیوں بھرے صبح کے منتظر ہیں۔ ان پہاڑوں کے درد زدہ سینے کو چھیڑ کر علیشنگ کے میدانوں کو ہریالی بخشنے والی نیلگوں پانیوں کے کنارے پنگٹ (گودر) پر نوجوان دوشیزاؤں کے قہقہوں اور پائلوں کے شور سے پیدا ہونے والی موسیقی اور اس موسیقی کی دھن پر رقصاں ان کہساروں کے دامن میں ایستادہ چنار کے بلند قامت درختوں کے تنوں پر گھونسلے بنائے ہوئے پرندے یہاں چند لمحوں کے خوشی کے گزرے ہوئے لمحات کے گواہ رہے ہیں۔ لیکن یہ خوشیاں ایک خواب جیسی تھیں جو آنکھ کھلتے ہی آنکھوں کے پردوں سے محو ہو گئی ہیں۔

چودہ سالہ مکیز صافی پہاڑوں میں غروب ہوتے ہوئے سورج کو اور مغرب کی جانب سے تھکے جوق در جوق قطاروں میں میں آشیانوں کو لوٹنے والے پرندوں کو دیکھ رہی تھی۔

اس کی معصوم آنکھوں میں نا امیدی کا رنگ نمایاں تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ ان کی امیدیں بھی سورج کی مانند غروب ہو چکی ہیں۔ ان کے خواب کے مسافر پرندے بھی ان سے کہیں دور بسیراب کرچکے ہیں۔ وہ یاد کر رہی تھی کہ کبھی وہ اپنے گھر سے دور کابل میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں جب کتابوں کے سفید ورق پر لکھے لفظوں سے اکتا کر قدرت کے رنگوں کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کے لئے بالکنی کا رخ کر لیتی تھی۔ تب وہ ایک کامیاب زندگی کی خواب دیکھ رہی ہوتی تھی۔ اب وہ خواب ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں۔

مکیز کابل میں افغان ترک سکول میں ہشتم جماعت کی طالبہ ہے۔ لیکن اب وہ نہیں سمجھتی کہ وہ دوبارہ سکول جا پائے گی۔ لیکن پھر بھی وہ نا امید نہیں ہے۔ مکیز کی تمنا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمت کرے خاص کر ان بچیوں کا جن کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ وہ بچیوں کی تقدیر بدل دے اور افغان معاشرے میں بچیوں کے بارے میں جو مجموعی طور پر رجعت پسندانہ رویہ ہے ان کو تبدیل کردے۔

لیکن اب مکیز سمجھتی ہے کہ ایسا کرنا مشکل ہے وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ نظام میں تبدیلی آ چکی ہے۔ ملک پر طالبان کی حکمرانی ہے۔

طالبان کی گزشتہ دور کی تاریخ سے یہ سبق اخذ کیا جاسکتا ہے کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے حامی نہیں ہیں۔ اس کا واضح مثال طالبان کے گزشتہ دور حکومت میں پورے افغانستان میں پانچ سالوں میں ایک بھی لڑکی جامعہ میں پڑھنے کے لئے نہیں گئی۔ اب بھی گزشتہ دو مہینوں سے اکثر طالبات کے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ طالبان کا اس بابت موقف ہے کہ انھیں طالبات کے تعلیمی ادارے کھولنے کے لئے وقت دیا جائے۔

مکیز بچیوں کی تعلیم کی بابت عالمی دباؤ کو امید کی رمق سمجھتی ہے۔ دنیا کو وہ پیغام دیتی ہوئی کہتی ہے کہ ”افغان بچیوں کو تنہا مت چھوڑیں“ ۔

مکیز خود کو نا امید محسوس کرتی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ سمجھتی ہے کہ وہ ان تمام مشکلات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

مکیز اپنی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی، کہ اس کی سماعتوں سے ماں کی میٹھی سی آواز ٹکرائی جو تندور پر اپنی آخری روٹی لگا کر نیلے اور گہرے سرخ رنگوں سے مزین ازبکی دسترخوان میں روٹیاں سمیٹ رہی تھی۔ مکیز سے کہہ رہی تھی بیٹی زیادہ مت سوچا کر ہم افغانوں کی خوشیوں کے دن بہت مختصر ہوتے ہماری آنکھوں میں خواب مر کر آنکھوں ہی میں دفن ہو جاتے ہیں۔

ماں کی بات سن کر مکیز کی آنکھوں کی پلکوں پر پڑی دھول اشکوں سے دھل گئیں۔ مکیز کی دل سے نکلی ایک سرد آہ علیشنگ کی وادی میں شام کی دھندلکے میں پہاڑوں سے ٹکرا کر مکیز کے خوابوں کی مانند ریزہ ریزہ ہو گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments