ٹیوشن والا بھائی


اسکول کی موجودگی کے باوجود ٹیوشن کا رواج ہمارے معاشرے میں نمایاں ہے بچے،پہلے دن کا حصہ اسکول میں گزارتے ہیں اور گھر آنے کے بعد ٹیوٹر گھر آکر پڑھاتا ہے۔ ٹیوشن کے بڑھتے ہوئے رجحان سے کئی بے روزگار نوجوانوں کا سلسلہ آمدن چلا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں جو کوئی کام نہیں کر سکتا وہ ٹیوشن ضرور پڑھا سکتا ہے۔ ٹیوشن پڑھانے کے لیے تعلیم کی کوئی خاص ضرورت نہیں کیونکہ کوئی بھی آپ کی تعلیمی اسناد نہیں دیکھتا ضرورت ہے تو ایک عدد موٹر سائیکل کی جس کی بدولت آپ زیادہ سے زیادہ ٹیوشن پڑھا سکیں۔ جام صاحب کے ایک دوست بھی ٹیوشن پڑھاتے تھے اسی وجہ سے وہ ٹیو شن والے بھائی کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ وہ صاحب، جب ہر محکمہ سے ٹھکرا دیئے گئے اور کسی نے ان کو نائب قاصد بھرتی کرنا بھی محکمہ کی توہین سمجھا  تو انہوں نے ٹیوشن پڑھانے کا آغاز کیا آج وہ کامیاب ٹیوشن والے بھائی ہیں۔ ان کی طلب اور رسد دور، دور تک ہے۔ جن محکموں کے سربراہان نے ان کو نوکری دینے سے انکار کیا تھا۔ اب وہ ان کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور وہ بھی منہ مانگی فیس پر۔ ان کا خیال ہے کہ ان بچوں کا مستقبل روشن ہے کیونکہ وہ ٹیوشن پڑھتے ہیں۔ ٹیوشن والے بھائی بہت مصروف آدمی ہیں ان سے جام صاحب کو ہمیشہ گلہ رہتا ہے آپ ملتے نہیں ہیں اوپر سے وہ جواب دیتے ہیں کہ نئی نسل کو سنوارنے میں وہ دن رات مصروف رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اتوار والے دن بھی بچوں کو اپنے گھر بلا کر ان کا مستقبل روشن اور اپنی جیب گرم کرتے رہتے تھے۔

وہ فرماتے ہیں کہ ان کا وقت قیمتی ہے اس لیے وہ اس کا ضیاع نہیں کرتے ہمہ وقت ٹیوشن، ٹیوشن اور ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ جام صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دن ان کو ملے تو بہت خوش نظر آرہے تھے۔ جام صاحب نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے یار ایک موٹی ٹیوشن ہاتھ لگی ہے اور فیس بہت معقول ہے اتنی کہ ایک کلرک کی پوری تنخواہ کے برابر ہے۔ یار نصیب، نصیب کی بات ہے وہ بھی دن تھے  جب ہم کلرک کیا نائب قاصد بھرتی ہونے کے لیے مرا کرتے  اور آج ماشاء اللہ گریڈ بیس کے افسر سے زیادہ کماتا ہوں اللہ کا شکر ہے کہ مجھے نوکری نہیں ملی ورنہ اس قوم کا مستقبل تاریک ہو جانا تھا۔
ایک دن میں 12سے15ٹیوشن پڑھاتے تھے اور کسی گھر میں بھی30 منٹ سے زیادہ نہیں دیتے تھے حد 45منٹ لیکن اتنی زیادہ ٹیوشنز ہونے کی وجہ سے اکثر ایک یا دو ٹیوشنز پر نہیں پہنچ پاتے تھے۔ ان کے ایک ٹیوشن والے بڑے نخریلے تھے شہر کی مشہور کاروباری شخصیت تھے۔ وہ ایک دن آپ سے ناراض ہو گئے۔ فرمانے لگے تم نے پڑھانے والے مقدس کام کو بھی کاروبار سمجھ لیا ہے تو آپ نے جواب دیا ٹیوشن پڑھانے والے کا کیا پیٹ نہیں ہوتا؟ لیکن اس نے کہا تم بہت چھٹیاں کرتے ہو تو آپ نے جواب دیا ٹھیک ہے آپ کسی اور کا بندوبست کرلیں میرے پاس ٹیوشن کی لائن لگی ہوئی ہے۔ وہ جو شکایت لے کر آئے تھے، خاموشی کے ساتھ واپس ہو گئے اور آپ کی چھٹیوں پر آئندہ شکایت نہ کی۔

ٹیوشن والے بھائی فرماتے تھے کہ ہم نتائج دیتے ہیں یہ امیروں کی لاڈلی اور نکمی اولادوں کو پڑھانا کسی جہاد سے کم نہیں ۔ ان کے نخرے نہیں ختم ہوتے اور ہم ان کے نتائج بہتر کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے تھے جس گھر میں بھی ٹیوٹر آتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ نکما نہیں بلکہ والدین نکمے ہیں۔ اگر والدین نکمے نہ ہوتے تو وہ ٹیوٹر کو اتنی زیادہ فیس ٹیوشن میں کیوں دیتے۔ دوسرا ان کا فرمان تھا، ٹیوشن والے بچے کبھی پوزیشن نہیں لیتے بلکہ پاس ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے جب نکمے والدین اپنی اولاد کو فلاسفر دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ نکمے کے بچے نکمے ہی ہوتے ہیں لیکن اگر یہ فارمولا ٹوٹ جائے تو اس کو برائے مہربانی مثال نہ بنائیں۔
جام صاحب کہتے ہیں ہم کو تو لگتا ہے ان کا تن، من صرف ٹیوشن پڑھانے اور موٹر سائیکل چلانے کے لیے بنا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ ٹیوشن پڑھاتے رہیں اور بچوں کو کامیاب بناتے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments