ادبی میلوں کا مینا بازار


میلہ لوٹ لو میلہ، لاہور کا میلہ، کراچی کا میلہ، ملتان کا میلہ، فیصل آ باد کا میلہ۔ ( یہاں ہم اسلام آ باد کی بات اس لئے نہیں کر سکتے کہ وہ وفاق ہے۔ )

کتنا کڑوا جملہ ہے ناں مینا بازاز کے معانی کے ساتھ۔ بالکل ایسی ہی کڑواہٹ پھیلتی ہے۔ جب کسی شہر میں ادب کا میلہ ہو اور وہاں کا ادیب اس میلے میں دکھائی نہ دے۔ اگر دکھائی دے تو کسی پیچھے کی کرسی پہ بیٹھا سوچ رہا ہو۔ میرا شہر کتنا عجیب ہے۔ یہاں آ کر ہر فن کار بات کر سکتا ہے۔ ایک نہیں کر سکتا تو اپنے شہر کا ادیب نہیں کر سکتا۔

کچھ برسوں سے جو ادبی میلوں کا رواج ہے۔ یہ پہلے بھی تھا۔ مگر اب زیادہ زور شور سے ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی وجہ سے بات دور دور تک نکل جاتی ہے۔ جو بات نہیں ہو نی ہوتی، وہ بھی ہو جاتی ہے۔ ہم عشروں سے یہ سب دیکھتے آ رہے ہیں۔ ہمارے لئے کچھ شاید نیا نہیں ہے۔ لیکن وقت نے کروٹ لے لی ہے۔

جو ادیب ایک میلہ ایک شہر میں لوٹ رہا ہے۔ وہی ادیب دوسرے شہر میں بھی موجود ہوتا ہے۔ گنتی کے لوگ ہیں۔ جنہوں نے بلا شبہ ادب کی خدمت کی ہے۔ اپنے اپنے حصے کا اعلی ترین کام کیا ہے۔ لیکن کبھی کسی نے نجانے کیوں محسوس نہیں کیا کہ میرے ساتھ والی کرسی پہ میرے ساتھ، اس شہر کا بونا ہی سہی، مگر اس شہر کا ادیب موجود ہو نا چاہیے۔

پی ٹی وی کے دور کی بات ہے۔ جب ڈرامہ چار صوبوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ مصنف اپنے علاقے کی زبان اور تہذیب کا ترجمان ہو تا تھا۔ اور ایوارڈ بھی چار صوبوں کے کام کے اعتبار الگ الگ شعبے میں دیے جاتے تھے۔ یوں سب کا حصہ بھی شامل ہو تا تھا اور انسیت بھی فروغ پاتی ہے۔ اب جب کہ سوشل میڈیا نے الیکٹرک میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انسیت نے عالمگیریت کا لباس پہن لیا ہے۔ وہاں یہ تخصیص سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ سوال کوئی کرے یا نہ کرے۔ اس کی ہمت پہ ہے۔

ابھی بات مکمل نہیں ہوئی لیکن آپ کے ذہین میں جو سوال آ رہا ہو گا۔ اس کو نکال دیجئے۔ کیونکہ انکار ہم ابلیس سے سیکھ کر دنیا میں آئے تھے۔ ہم جس شہر میں ہیں۔ وہ شہر ادب ہیں۔ یہ یہاں کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔

اب بات مکمل کرتے ہیں۔

یہ تخصیص ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ آخر کیوں؟ اس کے ساتھ جڑا ہوا ایک کیوں اور بھی ہے۔ جہاں ہم نے گھوم گھوما کر تین چار بڑے صنعتی شہروں میں ادبی میلوں کو رواج دے دیا ہے۔ وہاں بھی ہمیں ان شہروں کے ادیب کیوں کھائی نہیں دیتے؟ ان شہروں نے ادب کی آب یاری کی ہے۔ اسے انکار ممکن نہیں۔ کیا ان کیا دبی کام کو ہر سال ہونے والے چند بڑی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں مقالہ جات میں بند کر دینا کافی ہے؟

سر کاری ادبی میلہ ہوتو، سرکار وفاق کی ہو یا صوبے کی، ان میلوں کو بجٹ سے حصہ دیتی ہے۔ اور ان میلوں میں ہمیں دو ان صوبوں سے آئے ادبی دوست مل جاتے ہیں۔ جہاں میلے نہیں ہوتے۔

جی بات ہے پشاور اور کوئٹہ کی۔ صرف اردو ہی کی بات کی جائے تو ان علاقوں کے ادیب تاریخ میں مسکراتے مل جاتے ہیں۔ اب دونوں صوبوں میں اردو اور انگریزی ادب کے طالب علموں کی بھی کثیر تعداد ہے۔ جو مقالہ جات بھی کرتے ہیں۔ اور وہ کس جنون سے بڑے شہروں تک آتے ہیں اور جا جا کر اپنے دوستوں احباب کو یہاں کے ادبی میلوں کا حلا سناتے ہیں۔ کیا کسی کو خبر ہے؟

کیا ان کا حق نہیں کہ وہ بھی اس طرح کے ادبی میلوں سے اپنے ذوق کی تسکین اپنے علاقے میں کر سکیں۔ بلکہ جو طالب علم یہاں نہیں آ سکتے وہ بھی اس میں شامل ہو سکیں گے۔

اسلام آ باد وفاق کا نمائندہ ہے۔ مگر باقی شہر؟

آکسفورڈ ادبی میلہ بھی جس شہر میں ہوا۔ وہی لوگ ملتے ہیں۔ جو سرکاری ادبی میلوں میں ملتے ہیں۔ لابی یا گروہ بندی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہر جگہ، ہر جا موجود رہی ہے، رہے گی۔ مگر اتنا خیال تو رکھا جا سکتا ہے کہ جس شہر میں کوئی ادبی میلہ منعقد ہو رہا ہے۔ اس شہر کے نمائندہ ادیبوں کو کم از کم نہ بھولا جائے۔ دوسرے شہروں سے بھی ادیب بلائیں۔ دوسرے ملکوں سے بھی جیسا کہ آ رہے ہیں۔ مگر اس شہر کی حق تلفیوں نہیں کرنی چاہیے جو کو میلے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ ادب محبت کا ترجمان ہے۔ اسے محبت کا پیامبر بنانے کی کوشش کریں۔

کسی شہر کا نام اور وہاں کے ادیبوں کا اس میلے میں موجود نہ ہونا۔ سوالیہ نشان ہے۔ اس کو حل کرنا منتظمین کا ہی کام ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں ادبی میلوں کا انعقاد وہاں کے منتظمین اور حکومتی نمائندوں کا کام ہے۔

ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments