بلوچستان: امن کا خواب


بلوچستان جل رہا ہے۔ نوشکی اور پنجگور میں تشدد کی حالیہ کی لہر سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی بے شمار قربانیوں کے باوجود صوبے میں امن کی صورتحال تشویشناک ہے۔ بلوچستان کی تاریخ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچ مزاحمت کاروں کے لیے سیکورٹی پر مبنی پالیسی کامیاب نہیں رہی ہے۔ اگرچہ اس سے تشدد میں کمی آتی رہی ہے۔ لیکن ملک کے قیام سے لے کر اب تک متعدد آپریشنز بار بار شروع ہونے کے باوجود صوبے میں امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال برقرار ہے۔

صوبے کے مسائل اتنے پیچیدہ نہیں ہے جتنی کہ اس کو بے ڈھنگ طریقے سے نمٹایا جاتا رہا ہے۔ تین (معاشی، سیاسی اور انتظامی) اقدامات کو اگر حقیقی معنوں میں ایک جامع حکمت عملی کے ذریعے نافذ کیا جائے تو کئی دہائیوں پرانے تنازع کے حل کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دکھ درد کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا۔ سیاسی طور پر جعلی قیادت کی حوصلہ افزائی کر کے اور راتوں رات کنگز پارٹیاں بنا کر کے حقیقی قیادت کو دیوار سے لگایا جاتا ہے جس سے صوبے میں مزید سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کے عدم استحکام اور صوبے کی سیکیورٹی کی خراب صورت حال ہمیشہ ان سیاست دانوں کے لئے قابل قبول ہوتی ہے جو اس کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب تک سیاسی انتقام اور انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند نہیں ہوتا اور صوبے کی حقیقی قیادت کو سیاست کا پرامن ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، صوبے کی صورتحال اسی طرح ڈگمگاتی رہے گی۔

دوسرا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بلوچ عوام معاشی تباہی کے دہانے پر ہیں۔ زیادہ تر علاقہ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے لوگ پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہوں۔ متعدد وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک اہم وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کے باسیوں کی شکایات کا ادراک نہ کرنا ہے۔ بلوچوں کو قدرتی اور ساحلی وسائل جیسے سیندق، ریکوڈک اور سی پیک پر شدید تحفظات ہیں۔ انہیں صوبے کے باہر کے لوگوں کی صوبے میں منتقلی، اور آبادی کے توازن پر اس کے اثرات جیسے تحفظات ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ ان منصوبوں کی ملکیت میں معقول حصہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی صوبے کو بارہا مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سابق سیکرٹری خزانہ جناب محفوظ علی خان کا کہنا ہے کہ، سال 2019۔ 20 میں پاکستان کو PSDP کے لیے بیرونی فنانسنگ کے طور پر 333,977.877 ملین روپے ملے۔ اس میں سے بلوچستان کا حصہ 5,587.850 ملین روپے تھا۔ یہ صرف 1.6 فیصد کام ہے جبکہ پنجاب کو 43.6 فیصد ملا۔ یہاں تک کہ خود مختار اداروں کے لیے بھی بہت زیادہ حصہ مختص کیا گیا۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ یہ نہ تو آبادی کے مطابق ہے اور نہ ہی NFC کے مطابق ہے۔ ترقی کی اس رفتار سے یقیناً علاقائی تفریق بڑھتی رہے گی۔ صوبے کے ساتھ یہ نا انصافی کی صرف ایک مثال ہے۔

تیسرا۔ انتظامی طور پر صوبے کو وفاقی پالیسی سازی میں نمائندگی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے۔ اس کے لیے آئینی ترمیم قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے حوالے سے موزوں ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ صوبہ ملک کے 43 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ اس اضافے کے ساتھ، ترمیم ایوان بالا کے لیے براہ راست انتخاب کے طریقہ کار پر مشتمل ہونا چاہیے۔ جہاں کرپشن کے ذریعے بہت سے ایسے سینیٹرز منتخب کیے جاتے ہیں جو وفاق میں صوبے کے مفادات پر ہمیشہ سمجھوتہ کرتے رہے ہیں۔

اب کیا ہونا چاہیے؟ مذکورہ مسائل پر قابو پانے کا واحد اور قابل عمل حل بلوچ رہنماؤں کے ساتھ جامع مذاکرات کا آغاز ہے۔ سوال یہ ہے کہ مذاکرات کس بنیاد پر شروع کیے جائیں کیونکہ صوبے میں مذاکرات کا ماضی مایوس کن رہا ہے؟ کوئی بھی بات چیت شروع کرنے سے پہلے ریاست کو ماں جیسا سلوک کرنا چاہیے اور سب سے پہلے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پہلے قدم کے طور پر سیکورٹی فورسز کو واپس بلانا بڑی حکمت عملی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے بلوچ باغیوں کو آئینی ضمانت دی کر (مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے بعد ) انہیں میز پر لایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments