کیا آپ بھی سیاسی ایندھن ہیں؟


آپ کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو یا کسی بھی لیڈر کو فالو کرتے ہوں یہ عقیدت آپ کا حق ہے اور ایک خوبصورت احساس سے نوازتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ آپ جس کو بھی فالو کرتے ہیں یقیناً اچھا سمجھ کر ہی کرتے ہیں اور اگر واقعی اچھا سمجھتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ اس کو سپورٹ کریں۔ ہر شخص کا ورلڈ ویو اس کے تجربات اور ترجیحات کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور کسی ایک شخص سے کئی لوگوں کی وابستگی کی الگ الگ وجوہات ہو سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر خان صاحب سے منسلک احباب میں بہت لوگ ان کے ہینڈسم ہونے کو وابستگی کا میرٹ بناتے ہیں تو کچھ ان کی کرکٹ کے وقت سے وابستہ رومانیت کو بنیاد بناتے ہیں۔ کسی کو ان کا جرات مندانہ نیشنلزم اپیل کرتا ہے تو کوئی ان کی اسلام پسندی کی وجہ سے ان کا حامی ہے۔ کسی کی ہمنوائی کا باعث ان کی غیر روایتی اینٹی کرپشن بیانیہ ہے تو کوئی ان کی دنیا پھر میں پذیرائی کو ان سے منسوب محبت کرتا ہے۔ ایسے ہی دیگر قائدین سے ان کے اسیران کی وابستگی بھی کثیر جہتی، الگ الگ یا بیک وقت کئی وجوہات کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔

اس کے برعکس اگر مخالفت کو دیکھیں یہ یہی اصول اختلاف پر لاگو ہوتا ہے۔ ہم سب مختلف لوگوں سے الگ الگ وجوہات کی بنا پر اختلاف کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک نقطہ جو یہاں اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم کئی بار ان وجوہات سے شعوری طور پر آگاہ ہوتے ہیں اور زیادہ تر یہ وجوہات غیر شعوری ہوتی ہیں جو ممکن ہے کبھی شعوری سطح سے شروع ہو کر قبولیت حاصل کرتی ہیں اور پھر لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔

شعوری وجوہات بہت اہم ہوتی ہیں جو انسان کو اور اس کے لیڈر کو ریشنل رکھتی ہیں اور باہمی ارتقاء پر منتج ہوتی ہیں۔ اس کی مثال یوں لیجیے کہ اگر آپ کسی دکاندار سے کوئی مال خریدتے ہیں تو آپ کو علم ہوتا ہے کہ یہ شخص اچھا مال کم قیمت پر فروخت کرتا ہے۔ اب اگر کسی روز آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھٹیا یا مہنگا مال آپ کو دے رہا ہے تو آپ یا تو گلہ کرتے ہیں یا دکاندار بدل لیتے ہیں جس سے وہ محتاط ہو جاتا ہے اور آپ سے مفاہمت یا معذرت یا آئندہ کے لئے معاملات ٹھیک کر لیتا ہے۔ اس تعلق کو دو طرفہ ہونے کی وجہ سے مسلسل شعوری تائید حاصل رہتی ہے۔

اس کے برعکس وہ تعلق جو عقیدت کا ہو، لاشعور یا تسلیم کا ہو اس میں ہر سودا بک جاتا ہے۔ لیڈر کچھ بھی بیچ دیتا ہے، اصلی، جعلی، متعلقہ غیر متعلقہ اور آپ اس کو لاشعوری طور پر قبول کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ تعلق مبنی بر اخلاص نہ ہو تو بے حد خطرناک ہوتا ہے۔ آپ کا لیڈر، آپ کا استاد، آپ کا ٹرینر آپ کو خود کش جیکٹ پہنا دیتا ہے، بمبار بنا دیتا ہے مگر آپ بالکل بھی اس پر سوال نہیں اٹھاتے کہ یہ سب لاشعوری طور پر تسلیم کرنے کا عمل ہے۔

سیاسی رہنماؤں کے بارے اور خصوصاً پاور پالیٹکس میں اس عقیدت کے بہت خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ اس کی خصوصی وجوہات میں سے ایک یہ کہ سیاسی رہنماؤں نے سب کچھ بشمول طاقت، اپنے کارکنوں سے اخذ کرنا ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں کئی بار قانون شکنی کی ضرورت پڑتی ہے، تشدد کی ضرورت پڑتی ہے، لاشیں تک درکار ہوتی ہیں اور یہ سب کارکنان سے کشید کیا جانا ہوتا ہے۔

بعض اوقات مخالفین کی کردار کشی مقصود ہو تو بھی کارکنان کام آتے ہیں۔ نواز شریف کے کیس میں سپریم کورٹ پر حملہ، عمران خان کے کیس میں پی ٹی وی پر حملہ، مذہبی جماعتوں کے کیس میں پولیس کے کارکنان پر حملہ، پتھراؤ وغیرہ میں کارکنان کو ایندھن بنایا گیا۔ یہ سب ہماری لاشعوری اور غیر مشروط اطاعت سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہیں ہمیں اگر معلوم ہو کہ ہم کن وجوہات کی بنا پر لیڈر سے وابستہ ہیں تو ہمیں کسی بھی طرح کا ایندھن نہیں بنایا جا سکتا۔ اور ہم بروقت اپنا لیڈر بدلنے یا اس کی اصلاح کرنے یا اس کو شعوری احساس دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے لیڈر کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ان حدود سے باہر جانا ممکن نہیں ہے۔

یہ سب صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے ہے جب ہم اپنے لیڈر یا پارٹی کے انتخاب میں اس کے منشور کو بنیاد بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنا ایک منشور طے کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ اور کارکنان اس منشور کو دیکھ کر، پڑھ کر اور پرکھ کر اپنی شعوری وابستگی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور پارٹی یا اس کے لیڈران بھی اس منشور کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے سے مملکت پاکستان میں یہ شعوری وابستگی کا عمل موجود نہیں ہے۔ اور ہم پارٹی یا ان کے لیڈران سے لاشعوری اور غیر مشروط وابستگی کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے لیڈران ان ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح کبھی ایک چراگاہ میں لے جاتے ہیں اور کبھی دوسری میں۔ بعض اوقات جمہوری لیڈر ہر غیر جمہوری طریقے کو بے خوف اپنا لیتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے فالوورز اس سے سوال نہیں کریں گے۔ وہ ایک پارٹی سے ووٹ لے کر دوسری پارٹی سے وابستگی کا اعلان کرتا ہے۔ وہ جمہوری قوتوں سے ووٹ کی طاقت کشید کر کے غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ وہ آئین کی اطاعت کی بجائے اس کے مخالف کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایسا لیڈر کبھی بھی اپنے فالوورز سے مشاورت یا رجوع میں یقین نہیں رکھتا۔ اس اندھی وابستگی کی مثالیں ایک آدھ کے علاوہ تمام جماعتوں میں موجود ہیں۔

آج سے اگر آپ بھی سمجھتے ہیں کہ آپ کی وابستگی شعوری ہے تو ان نکات کا ایک بار اعادہ کر لیں جو آپ کی وابستگی کی بنیاد ہیں۔ اگر آپ کو ان نکات کے لکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے یا نہیں لکھ پا رہے تو یقین رکھیے آپ کسی سیاسی یا غیر سیاسی لیڈر کے ذاتی مفادات کے لئے بہترین سیاسی ایندھن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments