اللّٰہ تعالیٰ کے بےحساب انعامات


سارے جہانوں کے خالق اور مالک نے اپنے بندے سید ابوالاعلیٰ مودودی کو نیک فطرت، ذہن رسا، قلم کی بے مثال طاقت، استدلال کی لاجواب قوت، اپنی آخری کتاب اور اپنے دین حق کی قابل رشک تفہیم اور کلمۃ الحق بلند کرنے اور اس کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگانے کا عزم اور صلاحیتیں عطا کیں۔ وہ اورنگزیب عالمگیر کے آباد کیے ہوئے شہر اورنگ آباد میں 1903 ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد سے زیر دستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا سبق سیکھا اور اپنے عہد کے قرآن و حدیث، عربی زبان، فلسفے اور منطق کے مستند اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ 1935 ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن جاری کیا جس کے مضامین سے حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبالؔ بہت متاثر ہوئے۔

1937 ء میں انڈین کانگریس نے ہندوستان کے سات صوبوں میں وزارتیں قائم کیں جن کے ذریعے مسلمانوں کا مذہب، اسلامی ثقافت اور اسلامی حمیت ختم کرنے کے بدترین حربے استعمال کیے۔ ان سازشوں کو بے نقاب کرنے، مسلم قومیت کا شعور بیدار کرنے اور تحریک پاکستان کو فکری بنیادیں فراہم کرنے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے زبردست کردار ادا کیا۔ اس کی گواہی قائداعظم کے پرسنل سیکرٹری اور بعد ازاں پاکستان کے وزیرخارجہ جناب شریف الدین پیرزادہ نے اپنی تصنیفEvaluation of Pakistan (پاکستان کا ارتقا) میں دی۔ انہوں نے لکھا کہ مولانا مودودی ترجمان القرآن میں ایک سلسلۂ مضامین میں انڈین کانگریس کی فسطائیت کا پول کھولتے اور اس نکتے پر زور دیتے رہے کہ ہندوستان کے مسئلے کا حل اس کی تقسیم اور مسلمانوں کے جداگانہ وطن کے قیام میں ہے۔

اسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کے نیشنل گارڈ کے سالار اور قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں کے معتمد خاص نواب صدیق علی خاں نے اپنی کتاب ”بے تیغ سپاہی“ میں تحریر کیا ہے کہ مولانا مودودی اپنے ماہنامہ ترجمان القرآن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پرزور تائید کرتے رہے۔ ہم ان کا یہ احسان کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ 3 جون 1947 ء کو تقسیم ہند کا اعلان ہو گیا جس میں یہ بھی طے پایا کہ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کرایا جائے گا کہ وہاں کے عوام پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ اس نازک موقع پر صوبہ سرحد کے ایک باشندے نے مولانا سے خط کے ذریعے رہنمائی چاہی۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ اگر میں صوبہ سرحد میں رہ رہا ہوتا، تو میرا ووٹ پاکستان کے حق میں جاتا۔ مولانا کا وہ خط سہ روزہ ”کوثر“ کے 5 جون کے شمارے میں شائع ہوا۔

مولانا مودودی 30 ؍اگست 1947 ء کو دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے پاکستان آئے اور پورے پچاس برس چند اعلیٰ مقاصد کے لیے شب و روز جدوجہد کرتے رہے۔ ان سب میں الحمدللٰہ بڑی کامیابی ہوئی۔ انہوں نے کفر اور الحاد کے پرفتن ماحول میں ایک ایسا لٹریچر تخلیق کیا جس کے مطالعے سے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اسلام کا شیدائی ہوتا اور اسلامی انقلاب کا داعی بنتا گیا۔ مولانا کی تحریر میں ایسی دلکشی اور ذہن کو مسخر کرنے والی ایک ایسی تاثیر تھی کہ امریکہ میں ان کے ایک کتابچے کے مطالعے سے ہزاروں امریکی فوجی مسلمان ہو گئے۔

ان کے لٹریچر اور ان کی مجاہدانہ عظمت نے علما کے طبقے میں حدت فکر پیدا کی۔ ان کی تفہیم القرآن اور ان کا تیارکردہ اسلامی لٹریچر مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر امریکہ، یورپ، روس اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں ذہنی انقلاب برپا کر رہا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اسلام کی حقانیت پر ایمان لا رہے ہیں۔ شاہ فیصل کے عہد میں اسلام کی غیرمعمولی خدمات بجا لانے والوں کے لیے نوبل پرائز کی طرز پر ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس مقصد کے لیے فیصل فاؤنڈیشن قائم ہوئی۔ اس نے پہلا ایوارڈ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمت میں جنوری 1969 ء میں پیش کیا۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی بے لوث جدوجہد کا دوسرا مقصد اسلام کے احیا کے ساتھ ساتھ اسے ایک مکمل نظام حیات کے طور پر پیش کرنا تھا، چنانچہ انہوں نے قرآن و حدیث، فقہا اور مفکرین کے بیش قیمت ذخیرے سے اسلام کے نظام زندگی کی ایک مکمل اور ذہنوں میں اتر جانے والی تصویر تیار کی۔ اسلام کے اخلاقی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور بین الاقوامی تعلیمات کے موضوع سے وہ ریڈیو پاکستان سے پانچ تقریروں میں نشر ہوئی اور سیمیناروں اور عالمی سطح پر غور و فکر کا عنوان بنی رہی۔

ان علمی کاوشوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ پاکستان میں بڑے سے بڑا منصب دار اپنی تقریر کا آغاز اس جملے سے کرتا کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ عوام کے اندر اسلامی دستور کا شعور اس قدر گہرا ہوتا گیا کہ ہر دستور قرارداد مقاصد کی روشنی میں تیار ہوا۔ جناب حسین شہید سہروردی جیسے سیکولر سیاست دان اور مسٹر بھٹو جیسے سوشلسٹ لیڈر اسلامی دستور کے سامنے سرنگوں ہوتے گئے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ژرف نگاہی نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ جہاد کے نام پر مذہبی انتہاپسندی پروان چڑھ سکتی ہے، اس لیے انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں طاقت کے استعمال پر کڑی پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان کا موقف تھا کہ جہاد کا اعلان کرنے کا حق صرف ریاست کو پہنچتا ہے۔ انہیں اپنے اس موقف پر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، لیکن آج ان کے موقف کی تائید اہل سیاست بھی کرتے ہیں اور عسکری قیادت بھی اور بالغ نظر علمائے کرام بھی۔

مولانا بدامنی، ہلڑ بازی اور طاقت آزمائی کے شدید مخالف اور امن و سلامتی کے علم بردار تھے۔ اسی لیے انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی آمریتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تبدیلی کے لیے جمہوری طریقوں پر اعتماد کیا۔ وہ اس امر پر بھی یقین رکھتے تھے کہ معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اسلامی سزاؤں کا نفاذ لازمی ہے۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب اے۔ آر کارنیلیس مولانا کے اس نقطۂ نظر سے کامل اتفاق کرتے تھے۔

ان کا تعلق عیسائیت سے تھا، مگر وہ اسلامی سزاؤں اور اسلامی آئین کی افادیت کے بہت قائل تھے۔ انہوں نے ہماری عدلیہ میں شاندار قابل فخر روایات قائم کیں۔ وہ آسٹریلیا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے گئے، تو انہوں نے چوٹی کے قانون دانوں کے سامنے اسلامی سزاؤں کی اہمیت پر نہایت فکر انگیز مقالہ پڑھا جس پر نہایت سنجیدگی سے غور و خوص کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مولانا کی عظمت دنیا پر اجاگر ہوتی جا رہی ہے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments