مشتعل ہجوم، جلتی لاش اور انسانی نفسیات


ننکانہ صاحب واقعے میں جب لوگوں کو توہین کی اطلاع موصول ہوئی تو وہ سب اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھے۔ کوئی دودھ میں پانی ملا رہا تھا، تو کوئی گدھے کا گوشت حلال طریقے سے ذبح کر رہا تھا۔ حاجی صاحب مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ملانے میں مصروف تھے، تو بشیرا اپنی ہتھیلی پر تمباکو اور چرس کو مسلنے میں مشغول تھا۔ لیکن جونہی ان کو توہین کی خبر ملی تو دوسروں کے ساتھ یہ بھی غم و غصے سے نڈھال ہو گئے۔ ان کی رگوں میں خون کھولنے لگا اور آنکھوں میں انگارے دoکنے لگے۔

گلی محلوں میں آوازیں بلند ہوئیں، اعلانات نشر ہوئے کہ جلدی باہر نکلو اسلام خطرے میں پڑ گیا ہے۔ خطرے میں ڈالنے والا بندہ ابھی زندہ و سلامت پولیس کی حراست میں ہے۔ اطلاع ملنے کی دیر تھی اور منٹوں میں ایک پرتشدد ہجوم اس طرح تیار ہو گیا، جیسے صدیوں سے توہین کا منتظر تھا۔

لوگ لبیک یارسول اللہ کے نعرے مارتے ہوئے تھانے کی طرف بڑھنے لگے۔ وہاں پہنچ کر سیڑھی کی مدد سے مرکزی دروازہ کھولا اور تھانے پر دھاوا بول دیا۔ پولیس والوں نے بڑی مشکل سے بھاگ کر جان بچائی۔ ایک مولانا ان کو راستے میں روک کر بار بار یہ سوال کرتے رہے کہ تم یہ کیسے مسلمان ہو؟

گویا ہم نے بندے کو زندہ جلانا ہے اور تم اس کار خیر میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بن رہے ہو، تم یہ کیسے مسلمان ہو؟

مشتعل ہجوم نے زیر حراست ملزم کو باہر نکالا، اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اینٹوں، ڈنڈوں اور سریوں سے مار مار کر اس کی جان لے لی۔ ہجوم میں شامل ہر شخص اپنے حصے کا ثواب حاصل کرنے کی جستجو میں تھا۔ مشتعل عشاق برہنہ سربریدہ لاش کو رسیوں سے جکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنے لگے۔ ان سب کا جوش و جذبہ دیدنی تھا، کیونکہ ان کی نظروں میں اسلام کو لاحق ایک بڑا خطرہ ٹل گیا تھا۔ اس اطمینان کے بعد ان پر مقدس نشے کی کیفیت طاری ہونے لگی، لیکن لاش کو آگ لگا کر اس کے دھوئیں سے مزہ دوبالا کرنا باقی تھا۔ چنانچہ یہ مرحلہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جوشیلے جوانوں نے لاش کو آگ لگائی، ایندھن کم پڑنے لگا تو اپنے کپڑے تک لاش پر ڈالتے رہے کہ آگ بجھ نہ جائے۔ فخریہ طور پر اس کارہائے نمایاں کی وڈیو بنائی کہ فیس بک پر بھی داد حاصل کرنا مطلوب تھی۔

مملکت خدا داد میں ہجوم کی پیدائش اور اس کی نفسیات کا تجزیہ کرنے سے قبل یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا توہین کی اطلاع ملتے ہی اس قسم کے خودکار اور وحشیانہ ردعمل کی توجیہہ، محض کسی اتفاقی رد عمل سے جڑی ہے یا یہ کسی آفاقی فرمان کی بجا آوری کے طور پر کیا جاتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ماضی میں یہ ہجوم اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے الزام یافتہ شخص کی جان لینے پر مطمئن و مسرور ہوجاتا تھا، لیکن آج لاش کو آگ لگا کر لطف کشید کرتا ہے اور فخریہ سیلفیاں بنا کر سوشل میڈیا پر رکھتا ہے۔

نفرت کے اظہار کے طور پر لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتے رہنا یا آگ میں جلا کر راکھ کر دینا، یقیناً ایک فطری عمل نہیں ہے۔ انسانی نفسیات میں اس قدر سفاکانہ طرز عمل کا پیدا ہوجانا، کبھی فطرت میں شامل نہیں ہو سکتا ۔ انسانی نفسیات میں اس قسم کی مداخلت اور تبدیلی محض ایک دن کی بات نہیں، بلکہ برسوں کی محنت اور اذہان سازی کا ثمر ہے اور اس ذہنیت کی بنیاد قیام پاکستان سے قبل ہی علامہ اقبال کی ترکھانوں کے منڈے کے بازی لے جانے اور اپنے پیچھے رہ جانے جیسے بیانیے سے ڈال دی گئی تھی۔ بعد میں اس کو نظریاتی شکل دے کر فروغ دیا گیا۔ ریاستی قوانین کی تبدیلی کے ذریعے مضبوط بنا کر اپنے مفادات حاصل کیے گئے اور اب نتیجہ یہ ہے کہ ہجوم نے ریاست کا اختیار چھین کر اپنے پاس رکھ لیا ہے اور ریاست کے نمائندے جان بچانے کی خاطر دوڑیں لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مشعال خان کا واقعہ ہو یا سانحہ سیالکوٹ، خانیوال کو یاد کیا جائے، یا ننکانہ صاحب کا منظر ملاحظہ کیا جائے، ملکی تاریخ میں ہر جگہ ایک مشتعل ہجوم اسی فکر اور نظریے کی ترویج و تکمیل کرتا ہوا نظر آتا ہے جو اسے مقدس بیانیے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہجوم ہمیشہ توہین کا طلبگار رہتا ہے، تصدیق کیے بغیر ریاست کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور انسانی تذلیل کی بدترین مثالوں کو خود سے جوڑتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔

ہمیشہ کی طرح حکومت نے اس واقعے پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے اور سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ کسی مظلوم سے اظہار ہمدردی یا محض رٹے رٹائے مذمتی بیانات سے اس بربریت کو روکنا اب ممکن نہیں۔ ان واقعات کی توجیہات پیش کرنے والے بھی اس جرم میں اتنے ہی حصے دار ہیں جتنے لاش کو آگ لگانے والے۔ ذرائع ابلاغ کے اس دور میں تسلسل کے ساتھ ہوئے ان وحشیانہ واقعات کو پوری دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ معاشی طور پر تباہی کے کنارے کھڑے اس ملک کے لئے بین الاقوامی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ ریاست کو ہر قیمت اپنا اختیار واپس لینے کی ضرورت ہے، پھر چاہے قیامت آئے یا پورے ہجوم کو سولی پر لٹکایا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments