جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے


2007 دسمبر کی 27 تاریخ کو بے نظیر بھٹو سابق وزیر اعظم دہشت گردوں کا نشانہ بنیں۔ طالبان القاعدہ جنرل پرویز مشرف اور آصف زرداری پر الزام لگے اور انگلیاں اٹھیں۔ پیپلز پارٹی کے مشتعل کارکنوں نے غصے کا اظہار کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ جب حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو آئندہ کی بندوبستی سنبھالنے کی یقین دھانی پر زرداری نے پاکستان کھپے کا سندھی نعرہ لگا کر آگ پر پانی ڈالا۔ اور حالات کنٹرول میں لانے کے لئے ایک اور نعرے کا سہارا لیا۔ جسے مرحوم بے نظیر سے منسلک کیا۔ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔

مطلب یہی نکالا گیا کہ سیاست کے میدان میں مقابلہ کر کے مخالف، حریف یا دشمن سے بدلا لیا جائے گا۔ قتل کے نامزد افراد میں کچھ سیاسی مخالفین کے نام بھی تھے لیکن آئندہ دنوں میں وعدے کے مطابق ملنا والے بندوبست میں پیپلز پارٹی یا زرداری نے کوئی انتقام نہیں لیا۔ قاف لیگ اور نواز لیگ کے ساتھ باری باری اقتدار میں شراکت کی باریاں لگائیں۔

سیاست میں کسی کا ساتھ سوچ کے اختلاف کے ساتھ زیادہ دیر نہیں رہ پاتا۔ نواز لیگ کی برداشت نسبتاً کم ہے۔ کسی بھی انسان کی خودپسندی اس کی ذات کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ اسے دوسرے کا کچھ بھی اچھا نہیں لگتا وہ اپنے سے ہٹ کر سب میں کوئی عیب ڈھونڈتا ہے۔ یہیں اس میں نفرت اور بیزاری کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ سیاسی سطح پر سبھی جماعتوں میں کم وبیش ایسی سوچ موجود ہوتی ہے جس میں مخالف سے دوری کے ساتھ ایک مخاصمانہ رویہ پایا جاتا ہے۔ نظریہ کچھ بھی ہو اس جماعت، اس کی قیادت اور کارکنوں سے متعلق خیالات نہ صرف تنگ نظری پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ ناقابل برداشت کی حد تک عبور کرلی جاتی ہے۔

ایسے میں جمہوری سوچ اور اس کے مطابق کوئی عمل کرنا کسی بھی صورت آسان نہیں۔ مخالف دکھائی نہ دے اور شکست اس کا مقدر ٹھہرے یہی سیاسی ورکر اور اس کی قیادت کے دماغ میں ہر وقت چل رہا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی کامیابی ہضم کرنا بھی دقت طلب کام لگتا ہے۔ جمہوری کہلوانے اور اندر سے ہونے میں بہت فرق ہے۔ جمہوریت سب سے پہلے تحمل، برداشت اور لچک کا درس دیتی ہے یہ تھوڑا مشکل لیکن بنیادی کام ہے۔ یہ فرض نبھا لینے سے کئی مسئلے اور مراحل بھی طے پا جاتا ہیں۔ اس کا فقدان جارحانہ اور آمرانہ رویوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔

سیاست میں جب غیرسیاسی قوتیں قدم رکھ لیتی ہیں وہ ایک طریقے سے نان پلیئنگ ایکٹر ہوتے ہیں وہ سیاست کے کھیل سے ناآشنا قواعد و ضوابط سے لاعلم ہونے کے باعث بہت کچھ غلط کر جاتے ہیں اس سب کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر کر چلنا شروع کر دیتی ہے۔ ایسے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہوتا پھر چاہے عوام کی نمائندہ سرکار ہو یا غیر نمائندہ معاملات کبھی درست نہیں ہو پاتے۔ مخالف آواز ہر جگہ دبا دی جاتی ہے۔ اسے پھر جمہوری انتقام کہا جائے یا اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا وہ اپنی جائز حیثیت ثابت نہیں کر پاتی۔

جمہوریت میں عوام کی رائے مقدم رکھی جاتی ہے۔ اسے دبانے اور چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لینے سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ یہ حقیقت شاید بھول کر مخالف کی آواز خاموش کرانے کا عمل دراصل نظام کو عوامی سوچ سے دور لے جاتا ہے۔ ایسا انتقام کسی صورت جمہوری نہیں کہلائے گا جس میں اکثریت کی رائے نظر انداز کردی جائے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 141 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments