روسی معاملات


پچھلے ہفتے ایک روسی بغاوت کا ڈرامہ چلا جو زیادہ دیر تک تو نہ چل سکا مگر اس نے پوری دنیا کو متوجہ ضرور کیا۔ اتنی توجہ اور انہماک شاید جب سے روس نے یوکرائن پہ لشکر کشی کی ہے توجہ حاصل نہیں کرسکے جو ویگنائر گروپ کے سربراہ نے محض چند گھنٹوں پہ مشتمل ڈرامہ بازی سے حاصل کر لی۔ ویگنائر گروپ دراصل ایک نہایت خونخوار گروہ ہے جو روسی رضاکاروں پہ مشتمل ہے۔ دراصل روسی فوجی اہلکار اپنی مرضی کے بغیر جبری بھرتی کیے جاتے ہیں جو جنگ کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہیں۔

روس کا سب سے بہترین اسلحہ و گولہ و بارود استعمال میں لایا جانے کے باوجود کچھ خاص کامیابی نہیں ہو سکی اس کی اصل بنیاد یہی وہ ذہنی خلفشار اور نیم رضامندی ہے۔ اس کے برعکس ویگنار گروپ کے سربراہ ایک متحرک اور پرجوش نوجوان قائد یویگینی پریگوزین ہیں جو صدر ولادیمیر پوٹن کے باورچی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، یہ اوائل عمری میں چھوٹی موٹی چوریاں کرتا تھا اور کئی مرتبہ جیل گیا سزا مکمل کرنے بعد وہ باہر آ کر مزید بڑی کارروائیاں کرتا اور ڈکیتیاں بھی کرنا شروع ہو گیا مگر جب ایک جیل یاترا سے نجات ملی تو کاروبار کا سوچا اور ریسٹورنٹ کے کاروبار سے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر کام شروع کیا اور قسمت جاگ گئی پھر وہ اہم ترین مہمان نوازی کی خاطر بھی جانے جانے لگا اور وہ پوٹن کا کک بھی مشہور ہو گیا اور روسی فوج کے اندر بھی عمل دخل ہو گیا اسے پہلا موقع اس وقت ملا جب 2014ء میں کریمیا پہ روس نے لشکر کشی کی تو اس نے اپنے جنگجوؤں کے ہمراہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پوٹن کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

اب اس کے بعد تو گویا اس کے وارے نیارے ہو گئے جب لیبیا، سوڈان، مالی اور دیگر افریقی ممالک میں سونا اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تلاش کا کام اور بالخصوص اس کی سیکورٹی کا کام ملنا شروع ہو گیا۔ اس طرح یہ دن بدن زورآور ہوتا گیا پھر یوکرائن والا معاملہ شروع ہوا تو یوکرائن کی نصرت و تائید کے لیے ساری دنیا سے حمایت ملنا شروع ہوئی۔ ناٹو ممالک کی پشت پناہی امریکی کر رہے تھے انہوں نے اپنے ذخائر میں سے بہترین اور جدید ترین اسلحہ و بارود مہیا کیا لیکن وہ بات نہ بنی جیسا ان کے ارادے تھے اور خواہشات تھیں۔

صدر ولادیمیر پوٹن کو روس کے اندر کسی قابل ذکر مخاصمت کا سامنا بھی نہ تھا۔ اگرچہ یہ بغاوت ایک سراب ہی ثابت ہوئی مگر اس نے روسی سلطنت کی عظمت کے مینار جھکا دیے ہیں اور عمارت میں شگاف ڈال دیے ہیں۔ ایک سابقہ روسی وزیراعظم میکائیل اوزینواف کے مطابق ”یہ اختتام کا آغاز ہے“ ۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کے سربراہ رچڈ ڈیرلو کے مطابق روسی راج سنگھاسن ابھی چند ماہ کا مہمان رہ گیا ہے وہاں بغاوت آج نہ سہی کچھ ماہ بعد کامیاب ہو جائے گی اور روس کے کئی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔

حیران کن بات ہے کہ پچھلی ایک چوتھائی صدی سے ولادیمیر پوٹن راجدھانی ماسکو پہ کامیابی سے حکومت بچانے میں اور ایک طویل عہد مکمل کرنے میں نہایت کامیاب رہے ہیں اور یہی بات کھٹکتی ہے دل یزداں میں کانٹے کی مانند۔ روس کے بڑے حامی چین اور ترکی اس کے ساتھ آج بھی چٹان کی مانند کھڑے نظر آتے ہیں۔ ویگنائر گروپ کی طرف سے ماسکو کے خلاف بغاوت اس وقت برپا ہوئی جب یوکرائنی افواج جوابی کھنک دار جواب دینے کی تیاریوں میں مشغول ہیں اور اب ویگنار گروپ کے بکھرنے کے بعد اس پلان میں شدت متوقع ہے۔

روسی نقصانات جو محاذ جنگ میں اب تک ہو چکے ہیں اس کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب تک لگ بھگ 200000 لاکھ فوجی جوان اس جہنم زار کا شکار بن چکے ہیں اور اس تعداد میں مزید قابل قدر اضافہ متوقع ہے درحقیقت اس بغاوت کی اصل وجہ ہی یہی تھی۔ مذاکرات امن تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب کسی ایک فریق کو میدان عمل میں کوئی قابل ستائش کامیابی حاصل ہوئی ہو۔ روسی صدر کے اگلے انتخابات مارچ 2024 میں ہونے ہیں تب تک اگر میدان عمل میں کوئی مزید پیشرفت نہ ہوئی تو وہ الیکشن ہار بھی سکتے ہیں جس سے طاقت کے مراکز تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔

روسی چینی دوستی ممالک کے باہمی تعلقات سے زیادہ انفرادی اور ذاتی دوستی کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اگر کچھ برا ہوا تو ان تعلقات میں ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں روسی عمل دخل اور رسوخ پچھلے دس سال میں قابل توجہ حد تک بڑھ چکے ہیں۔ ان حالات میں جب روس کے پاس نیوکلیئر ہتھیاروں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے جو اندازہً بیس ہزار وار ہیڈ پہ مشتمل ہے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ویگنائر جیسے غیر سرکاری عسکری گروہوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا اس سے صرف روسی ریاست ہی نہیں کل عالم میں تباہی و بربادی کی ایک انمٹ داستان رقم کی جا سکتی ہے جس کا کوئی ازالہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

اسی لئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک صائب رائے دی کہ پوٹن عقل و شعور سے کام لے اور دنیا کو تباہی کے دہانے سے بچائے۔ غور کیجئے کہ خدانخواستہ کسی ملک کے ایٹمی ہتھیار کسی غیر سرکاری تنظیموں کے ہاتھ لگ جائیں تو تباہی و بربادی کی ایک انمٹ داستان رقم ہوگی۔ اللہ کرے کبھی ایسا نہ ہو ورنہ کوئی پانی پینے پلانے کے بھی قابل نہ رہے گا۔ اگرچہ یہ وقتی ابھال کی مانند یہ بغاوت دب گی ویگنائر گروپ کا سربراہ روس سے بیلاروس روانہ ہو گیا ہے جہاں اسے من پسند پناہ گاہ میسر آ گئی ہے اور اس کے سپاہیوں کو روسی افواج کے اندر جذب کیا جا رہا ہے مگر اس نے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے ہیں اور یہ محض آغاز ہے اختتام کب اور کیسے ہو گا اس کا درست اور حتمی تعین کرنا روسی منظرنامے میں خاصے جان جوکھوں کا کام ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہی اس کی جہتیں کھلیں گی تو معلوم ہو گا سود و زیاں کا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments