پرندے وقت سے پہلے انڈے دے رہے ہیں!


پرندے وقت سے پہلے انڈے دے رہے ہیں۔ اور یہ بھی ہمارے موسموں میں انسانی سرگرمیوں کے باعث آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

پرندوں کے انڈے اکٹھا کرنے کا مشغلہ سب سے پہلے سنہ 1880 ء کی دہائی میں شروع ہوا۔ یہ کام شروع کرنے والے اس وقت یہ تو سمجھتے تھے کہ اس شوق سے انہیں پرندوں کے بارے میں کچھ دلچسپ معلومات ملیں گی لیکن یہ انہوں نے کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ان کی یہ تحقیق سو سال بعد کے سائنسدانوں کو بدلتے ہوئے ماحول سے پرندوں کے انڈے دینے کے قدرتی عمل کے بدلنے کے بارے میں معلومات دے گی۔ لیکن کچھ ایسا ہی ہوا کہ جب ماہرین نے وکٹورین عہد اور موجودہ دور کے ان ہی پرندوں کے لیے گئے انڈوں کا تقابلہ کیا۔ محققین پر انکشاف ہوا کہ شکاگو اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے کئی انواع سے تعلق رکھنے والے پرندے سو سال پہلے کے مقابلے میں اب گھونسلہ بنانے اور انڈے دینے کا عمل کوئی ایک مہینہ پہلے ہی شروع کر رہے ہیں۔ یہ تحقیق جریدے ”جرنل آف اینیمل ایکولوجی“ میں شائع ہوئی ہے۔

محققین نے اس غیر معمولی تبدیلی کی وجہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موسموں کے عمل کے بگڑ جانے کو قرار دیا ہے۔

اس تحقیق میں پرندوں کی بہتر ( 72 ) نسلوں کے انڈوں کا تقابلہ کیا گیا۔ جس میں ماہرین پر انکشاف ہوا کہ ان میں سے ایک تہائی پرندے سو سال پہلے کے مقابلے میں وقت سے پہلے گھونسلہ بنانے اور انڈے دینے کے عمل کا آغاز کر رہے ہیں۔ جن پرندوں نے وقت سے پہلے انڈے دینا شروع کیے ہیں، وہ سو سال پہلے کے مقابلے میں اب اوسطا پچیس دن پہلے انڈے دینے لگے ہیں۔ ساٰئنسدانوں نے اس تقابل کے عمل کے لیے شکاگو کے ”فیلڈ میوزیم“ ، ”شکاگو اکیڈمی آف سائنسز“ اور ”ویسٹرن فاؤنڈیشن آف ورٹابیریٹ ذولوجی“ کے پاس موجود انڈوں ہر تحقیق کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی موسموں کے بدلتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ ہو رہی ہے۔

جن پرندوں کے حوالے سے یہ جائزہ لیا گیا ہے، وہ کیڑے کھاتے ہیں اور یہ کیڑے پودوں کے پتے وغیرہ کھاتے ہیں، یعنی دوسرے الفاظ میں ایک بہت بڑا ماحولیاتی عمل اس چکر سے جڑا ہوا ہے۔ یہ کہنا ہے ”جان بیٹس“ کا جو کہ فیلڈ میوزیم میں پرندوں کے شعبے کے منتظم اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف ہیں۔ اس تحقیق سے حاصل کیے گئے نتائج پودوں اور کیڑوں پر کی گئی اسی قسم کی دیگر تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج سے ہم آہنگ ہیں۔

”فی الحال ایسے تو کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں کہ تبدیلی کے اس عمل کی وجہ سے پرندوں کی کوئی نسلیں معدومی کا شکار ہو رہی ہوں۔ لیکن یہ تحقیقات یہ ضرور ظاہر کرتی ہیں کہ یہ معصوم پرندے کس طرح کے حالات میں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔“ بیٹس نے اپنی تحقیق کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔ ”اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں درجۂ حرارت بڑھنے سے پرندوں اور ان کے ساتھ منسلک نفیس حیاتیاتی نظاموں پر بڑے پیمانے پر اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اور اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی یہ تبدیلیاں مستقبل میں لازمی طور پر انسانوں پر بھی اپنا اثر ضرور ڈالیں گی۔“

اس تحقیق میں شامل قدیم انڈے سنہ 1880 ء سے سنہ 1920 ءکے دوران اکٹھے کیے گئے تھے جبکہ تقابلے کے لیے استعمال کیے گئے انڈے سنہ 1990 ء سے سنۂ 2015 ء کے دوران اکٹھے کیے گئے تھے۔ محققین نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ سنہ 1920 سے سنہ 1990 ء کے دوران ماہرین کی جانب سے پرندوں کے انڈے اکٹھے کرنے کے عمل میں دلچسپی بہت کم رہ گئی تھی جس کی وجہ سے اس عرصے کے دوران پرندوں کے انڈے دینے کے عمل پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں معلومات کا فقدان ہے۔

میسن فیڈینو جو اس مقالے کے شریک مصنف اور شکاگو کے لنکن پارک چڑیا گھر کے کوانٹیٹیو ایکولوجسٹ ہیں، نے اس گمشدہ عرصے کے دوران پرندوں کے گھونسلے اور انڈے دینے کے عمل میں آنے والی تبدیلیوں کو جانچنے کے لیے ایک کمپیوٹر ماڈل بنایا ہے۔ ”ہمیں اس سارے عمل کو گہرائی سے جانچنے کی ضرورت ہے۔“ انہوں نے کہا ”تاکہ پتا چل سکے کہ کون کون سے عوامل پرندوں کے اس قدرتی عمل میں تبدیلیاں لانے کے موجب بن رہے ہیں۔“

کچھ ہی عرصہ پہلے ایک اور تحقیق سے یہ روح فرساء انکشاف سامنے آیا ہے کہ جنوبی امریکا کے خطے میں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کے جسم ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سکڑ رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک دوسری تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ وہ پرندے کہ جن کے دماغ کا حجم، ان کے جسم کے حوالے سے بڑا ہے، کے جسم ایسے پرندوں کے مقابلے میں کم سکڑ رہے ہیں جو کہ چھوٹا دماغ رکھتے ہیں۔

مصنف: دانش علی انجم ماخذ: سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments