ہم ابھی رستے میں ہیں از حامد یزدانی: ایک جائزہ


اس طرح کم ہی ہوتا ہے کہ شاعری کی کتاب کو پڑھنے کے دوران ایسا محسوس ہو کہ جیسے اندر کی ذات کے دریچوں پر کوئی ہولے سے دستکیں دے رہا ہو۔ کچھ اس طرح کا احساس محترم حامد یزدانی کی کتاب ”ہم ابھی رستے میں ہیں“ کو پڑھتے ہوئے ہوا۔ حامد یزدانی کی نظمیں دھیرے سے وجود کو چھو جاتی ہیں۔ اپنے دھیمے پن کے ساتھ یہ نظمیں پڑھنے والے کو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ ان نظموں میں یادیں بھی ہیں، رنگ بھی، بچھڑنے کا دکھ بھی، اور ایک نئی منزل کی سمت سفر کا شوق بھی۔ یہ نظمیں ہجرت کا کرب بھی بیان کرتی ہیں اور ایک نئی جگہ زندگی کا آغاز بھی۔

شاعری میں لفظوں کا انتخاب بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ایک ہی لفظ مختلف مواقع پر مختلف احساسات اور مضامین کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک خوب صورت اور مناسب لفظ شاعری کو اجاگر کرتا ہے اور پڑھنے والے کو محسوس کرنے میں مدد دیتا ہے۔ حامد یزدانی کا لفظوں سے ایک اٹوٹ رشتہ ہے چاہے ان کی غزلیں ہوں یا نظمیں۔ معمولی الفاظ مثلاً موسم، رنگ، پانی، برف، ساحل، پرندے ان کی شاعری میں آ کر پڑھنے والے کو ایک سرشاری اور انوکھے احساس سے روشناس کراتے ہیں۔

حامد یزدانی کی شاعری میں لفظوں کا ایک کردار یہ بھی ہے کہ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو چھوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ایک خوبصورت لفظ کا خوبصورت استعمال پڑھنے والے کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ان کی نظمیں ”الھڑ برس کا سنہری پل“ ، ”ایک نئی مگر پرانی نظم“ ، ”گراؤنڈ زیرو“ ، ”شب بخیر۔ نیویارک“ ، ”الماری میں کون چھپا ہے؟“ نہ صرف حامد یزدانی کے اندر چھپے شاعر کو اجاگر کرتے ہیں، بلکہ ان کے قاری کا رشتہ ان کے ساتھ اور مضبوط کر دیتے ہیں۔

جب ایک شاعر کھل کر اور اپنے احساسات کو بے باکی سے بیان کرتا ہے، تو وہ اپنے پڑھنے والوں کے دلوں میں محبت اور اعتبار کا رشتہ استوار کرتا ہے، اس رویے سے نہ صرف پڑھنے والا ایک حقیقی سچائی کو محسوس کرتا ہے بلکہ یہ ایمان داری ایک مضبوط تعلق میں ڈھل جاتی ہے۔ نظم ”گلی نمبر 40“ میں جس خوف کا ذکر ہے اس کا ادراک ہی پڑھنے والے کے لئے اپنی جگہ اہم ہے۔

خوف انجانا مجھے ڈرانے لگتا ہے
”بس اب بند کرو اس کھیل کو۔ باہر نکلو“
میں روہانسا کہتا ہوں
خاموشی ہے

ہجرت ہمیشہ سے اردو شاعری کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ حامد یزدانی کی شاعری میں بھی اس کا اثر واضح ہے۔ انھوں نے ہجرت کے تجربے سے وابستہ احساسات اور خیالات کو تبدیلی کے طور پر لیا ہے اور اسی تبدیلی کے مثبت اظہار نے ان کی نظموں کو انوکھا رنگ دیا ہے۔ مثلاً

ہوا سے برسر پیکار
ان رنگین پروں پر ثبت دل کی داستاں
اک زرد پتہ، سرنوشت جاں
کہ رقص غم زداں!
نادان بگولے کا تمسخر جھیلنا باقی ہے
اے امین باب حیرت
ہم ابھی رستے میں ہیں۔

ہجرت کے تجربے نے ان کی شاعری کو ایک نیا رنگ بخشا ہے، ایک نئی جہت دی ہے۔ کتاب میں ان کی غزلیں بھی پڑھنے کو ملیں مگر نظموں کا پلڑا بھاری رہا۔

بہت سے نت نئے موضوعات سے مزین یہ کتاب اردو اور کینیڈا میں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ کینیڈا میں رہ کر بھی حامد یزدانی نے اپنے آپ کو اردو سے وابستہ رکھا ہوا ہے۔ یقین ہے کہ ان کا یہ مجموعہ بھی بھرپور طریقے سے سراہا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments