فلسطینی اور باقی دنیا


غزہ پر اسرائیلی بمباری کو چھیاسی دن ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کی حکومت، فوج اور ان کے سیاستدانوں کے بیانات میڈیا پر نسل کشی کے ارادوں کو کھلم کھلا بیان کر رہے ہیں۔ جتنے ٹن بم امریکہ نے افغانستان کے ملک پر ڈیڑھ سال کے عرصے میں گرائے تھے اس سے زیادہ بم اسرائیل تین مہینے میں غزہ کے چھوٹے سے علاقے پر گرا چکا ہے۔

ہر نیا دن ایک نئے ظلم کی داستان سناتا ہے۔ جب امریکہ نے صدام حسین سے جنگ چھیڑی تھی تو ایک جنگی کام یہ کیا تھا کہ بہت بڑے ارتھ موورز اور بلڈوزرز سے خندقوں میں صدام کے فوجیوں کو زندہ دفن کر دیا تھا۔ اس دہشتناک عمل کو اسرائیلی فوج نے کمال ادوان اسپتال میں دہرا دیا۔ ایک ہفتے سے فوج نے اسپتال کا محاصرہ کیا ہوا تھا جس میں سینکڑوں بے گھر لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔ باہر نکلنے کا کوئی سوال نہیں تھا اگر سنائپرز کو اسپتال میں کوئی نظر آتا تھا تو وہ اسی گولی کا نشانہ بنا دیتے تھے۔ لیکن ڈاکٹروں، نرسوں، بیماروں، زخمیوں اور پناہ گزینوں کی امداد کو کوئی نہ آیا اور اسرائیلی فوج نے بلڈوزر سے بیس لوگوں کو زندہ دفن کر دیا!

کرس ہیجیز (Chris Hedges) ایک امریکی پلٹزر انعام یافتہ نامہ نگار ہیں۔ انھوں نے بوسنیا سربیا جنگ کی رپورٹنگ بھی کی تھی اور اب پچھلے سات سال سے غزہ سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اس عرصے میں وہ زیادہ تر نیو یارک ٹائمز کے لیے لکھتے تھے اور ان کی رپورٹ کو اخبار کی پالیسی کے مطابق ڈھال دیا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی چھٹی کے دوران ایک کتاب غزہ کی ڈائری کے نام سے شائع کر دی اور اس میں جو سچ تھا اس کی بنا پر ان سے کہا گیا کہ اب آپ کبھی نیویارک ٹائمز کے لیے مڈل ایسٹ سے رپورٹنگ نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتی ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی نامہ نگار دم بخود رہ جاتے ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ خود نہتے فلسطینیوں کے قتل کے عینی شاہد ہوں یا ان کے پاس اس کا تصویری ثبوت ہو۔ اسرائیلی فوری طور پر جھوٹا بیان داغ دیتے ہیں۔ جھوٹ چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ اسے ان کے فوجی ترجمان، سیاستدان اور ان کا میڈیا فوراً دہرانا شروع کر دیتا ہے۔ اور بین الاقوامی کارپوریٹ میڈیا خوشامدانہ انداز میں اس جھوٹ کو حقیقت کی طرح دہرانا شروع کر دیتا ہے۔

کرس ہیجز کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کا پلان 13 اکتوبر 2013 میں بنایا جا چکا تھا۔ غزہ صرف بیس میل لمبے اور پانچ میل چوڑے علاقے پر مشتمل ہے۔ اس پر اسرائیل پہلے دو ہفتے کی بمباری میں 22000 بم گرا چکا تھا اور رہائشی علاقوں، فراہمی اور نکاسی آب کے ذرائع، اسپتالوں، اسکولوں، اقوام متحدہ کے آفس اور بیکریوں کو حماس کا نام لے لے کر تباہ کر رہا تھا۔ اس وقت شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ غزہ کے جنوبی علاقے میں چلے جائیں اور اب ان ہی علاقوں پر ان رفیوجی کیمپوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ اس دوران میں امریکہ دو مرتبہ ایمرجنسی کے تحت کانگرس سے پوچھے بغیر اسلحہ اور بم اسرائیل بھجوا چکا ہے۔

اس جنگ میں اب تک پچاس جرنلسٹ اور سو اقوام متحدہ کے کارکنان ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے ریزولوشن پیش کیے گئے ہیں لیکن ایک مستقل ممبر کی حیثیت سے امریکہ کسی بھی ریزولوشن کو ویٹو کر سکتا ہے۔ غزہ پر اس جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا ہے۔ اور اب باقی مغربی ممالک کی حکومتیں بھی جنگ بندی کرانا چاہتی ہیں۔ امریکہ میں اب الیکشن کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ صبح شام میرے فون پر چندے کے لیے ٹیکسٹ آتے میں سب کا ایک جواب دیتی ہوں۔ پہلے غزہ میں بمباری بند کر اؤ۔ ممکن ہے اور لوگ بھی ایسا ہی کر رہے ہوں لیکن اب بائیڈن نے بلنکن سے کہلوانا شروع کر دیا ہے کہ جنگ میں شہریوں کی جانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ اسرائیل نے اس گزارش کو بھی بائیڈن کے منہ پر دے مارا ہے۔

اسرائیل نے پہلے دن سے ہی کھانا، پانی، پٹرول، دواؤں اور زندگی کی تمام ضروریات کا غزہ میں داخلہ بند کر دیا تھا۔ دو مہینے کے بعد اب ان بے خانماں لوگوں کے پاس پینے کو پانی اور کھانا نہیں ہے۔ روزانہ سینکڑوں جاں بحق ہو رہے ہیں اور ہزاروں زخمی ہو رہے ہیں۔ ان زخمیوں کے لیے آپریشن کی سہولیات نہیں ہیں بلکہ اسپتال نہیں ہیں اور اب ان بے گھر مظلوموں میں سردی اور بارش سہنے کے بعد بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بیس ہزار سے زیادہ لوگ بمباری میں مرے ہیں لیکن اندیشہ ہے کہ اب بیماریوں میں اس سے زیادہ جانیں ضائع ہو جائیں گی۔

ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اسے مغربی مفادات نے تشکیل کیا ہے۔ پہلے یورپی ممالک نے ایشیائی اور افریقی علاقوں پر قبضہ کیا، پھر امریکہ، آسٹریلیا اور بہت سے آباد جزیروں کو ”دریافت“ کیا۔ اور اپنی عسکری طاقت سے وہ علاقے وہاں کے باشندوں سے چھین کر ان پر اپنے پرچم لہرائے۔ ان کی معدنیات اور ذرائع کو اپنے ممالک کی دولت اور کامیابی کا ذریعہ بنایا اور اصل باشندوں کو محتاج بنا کر جب چھوڑا تو بھی ان کی سیاسی زندگی میں دخل اندازی کر کے انھیں پنپنے نہ دیا۔

ایک زمانے تھا کہ ملکہ وکٹوریہ کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اور اسرائیل اسی نظام کا پروردہ ہے۔ کہ چند امیر گورے مردوں نے مل کر طے کر لیا کہ فلسطین کی زمین پر یورپ کے یہودیوں کو آباد کر دیں گے۔ اس وقت دنیا کی وہ سب قومیں جنہوں نے خود یہ مظالم سہے تھے فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم کا احساس رکھتی ہیں۔ جن میں آواز اٹھانے والوں میں جنوبی افریقہ اور آئر لینڈ سر فہرست ہیں۔ جنوبی افریقہ نے نسلی امتیاز کا عذاب سہا تھا اور آئر لینڈ نے گوری قوم ہونے کے باوجود انگلستان کا جبر سہا تھا۔

اگر اسرائیل اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوجاتا ہے جن میں فلسطینیوں سے ان کی شناخت چھیننا ہی نہیں بلکہ فلسطین کا تصور ہی دنیا سے مٹا دینا ہے۔ اور پوری دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ اب کرہ ارض پر صرف امریکہ کی مرضی چلتی ہے، اس کے دوست ہو تو روس کی یوکرین پر بمباری جنگی جرم قرار دی جائے گی اور اسرائیل کی فلسطینیوں پر اس سے دس گنا بدتر بمباری اسرائیل کی بقا کے لیے ضروری قرار دی جائے گی اور دنیا کے احتجاج کے باوجود اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کچھ نہ کر پائیں گی۔

مسلمانوں کے لیے یہ اس لیے اور بھی اہم ہے کہ فلسطینیوں کے نکالے جانے کے بعد اسرائیل مسجد اقصی کو ڈھا دے گا اور یہ بابری مسجد نہیں ہے، مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments