بُو


جس دن سے اس کے ذہن میں یہ منصوبہ آیا، اس میں زندگی کی رمق دوڑ گئی۔ شوہر سے جان چھڑانے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس شخص سے جس نے اس کا سکون پچھلے ایک سال سے برباد کیا ہوا تھا۔

شادی سے پہلے اس نے اسے صرف ایک بار دیکھا تھا۔ اسے وہ کوئی خاص نہیں لگا تھا اس لیے اس نے شادی کی حامی بھر لی۔ خاص چیزوں میں اسے بالکل دلچسپی نہیں تھی۔

لیکن شادی کے بعد اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے شوہر کو نہانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں نہیں نہاتا تھا۔ لیکن جب بھی وہ اس سے شکایت کرنے کی کوشش کرتی وہ بات شروع کرنے سے پہلے ہی اس سے کہتا، تمہارے پاس سے بو آ رہی ہے۔ اور وہ مزید کچھ نہیں کہے پاتی۔ اسے شوہر کو ناراض کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ اگر اس نے غصے میں چیخ و پکار کی تو گھر کا امن و سکون برباد ہو سکتا تھا اور اسے گھر کا سکون بہت عزیز تھا۔ خود سے بھی زیادہ۔

وقت گزرتا گیا۔ گھر میں اب صرف سکون اور بو کا راج تھا۔ وہ جب اس کے نزدیک آتا بو پہلے آتی۔ وہ اس سے کلام کرتا بو پہلے آتی۔ بو نے اس کی ناک میں ڈیرے ڈال لیے وہ اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی، اس کے دماغ پر کھرونچے ڈالنے لگی۔ اور اسی اذیت سے جھونجتے اس کے ذہن میں ایک پر امن منصوبہ آیا۔

اس نے شوہر کو بیچنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ او ایل ایکس پر شوہر کا اشتہار لگاتے ہی ایک خریدار نے اس سے رابطہ کر لیا۔ دیکھنے میں وہ کافی موٹی آسامی لگتا تھا اور اسے اپنی اسٹیٹ کے لیے ایک خوش شکل آدمی کی ضرورت تھی۔ وہ خوشی خوشی مطلوبہ قیمت ادا کر کے اسے اپنے ساتھ لے گیا۔

مگر ایک ہفتے بعد ہی اسے موٹی آسامی کا فون دوبارہ موصول ہوا۔ ”تم نے مجھے کھوٹا مال بیچا ہے۔ اسے فوراً واپس لے جاؤ۔ چاہو تو پیسے نہ لوٹانا۔ لیکن اگر تم نے اسے واپس نہیں لیا تو میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہوں۔“

وہ الفاظ کی سنگینی بھانپ گئی اور تھوڑی سی تحقیق سے اسے معلوم ہوا کہ وہ موٹی آسامی ایک مافیا کا باس ہے۔

وہ سہم گئی۔ اور شوہر کو واپس لے آئی۔

مگر شوہر کے بغیر گزارے ہوئے سات دن اس کی زندگی کے بہترین دن تھے۔ ان حسین دنوں کی یاد نے اس کے ارادے مزید پختہ کر دیے۔ شوہر سے جان چھڑانے کے طریقے سوچ سوچ کر اس کا ذہن پلپلا ہو گیا۔ نیند کی کمی، چڑچڑاہٹ اور طیش نے اسے پاگل کر دیا۔

اس نے موٹی آسامی کی مدد سے ایک پیشہ ور قاتل کی خدمات حاصل کر لی۔ مگر عین جس دن قتل ہونا تھا قاتل کی ماں مر گئی اور اس نے پیغام بھجوا دیا کہ اب وہ ماں کے احترام میں چالیس دن کوئی جرم نہیں کرے گا۔ لہذا اسے بیوہ ہونے کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔

مگر اب اس کے لیے انتظار کرنا ممکن نہیں۔

اس نے خود اس کام کو انجام دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ پنساری سے زہر خرید لائی اور اسے کھانے میں ملا کر شوہر کو دے دیا۔ مگر زہر جعلی نکلا اور اس کا شوہر معمولی الٹی دست کے بعد بھلا چنگا ہو گیا۔

خون دیکھ کر اس کو چکر آتے تھے اس لیے خنجر کا استعمال ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ایک دن وہ اسے پل پر لے گئی اور اسے وہاں سے دھکا دینے کی کوشش کی مگر اونچی ایڑھی کی سینڈل کی وجہ سے خود بھی دریا میں جا گری۔ لائف گارڈ نے بمشکل دونوں کی جان بچائی۔

صحت یاب ہونے تک وہ شوہر کے ساتھ کئی دن گھر میں محصور ہو گئی۔ اب اس کے دل میں جینے کی تمنا باقی نہیں رہی تھی۔ ساتویں دن اس نے فلک شگاف چیخ مار کر کہا شوہر سے کہا، ”میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔“

پہلے تو وہ اس کی چیخ سن کر سہم گیا اور پھر بات سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کئی منٹ آنسو بہانے کے بعد اس نے اپنا سامان ایک سوٹ کیس میں رکھا اور اس کا ماتھا چوم کر گھر سے نکل گیا۔

اس نے اٹھ کر خوشی سے رقص کرنا چاہا مگر اس کے پیروں نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ ایک نامعلوم سے خالی پن نے اس کو منوں وزنی کر دیا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments