جگجیت: میرا گیت امر کر دو


علیم بھائی نے ٹیپ ریکارڈر میں کیسٹ ڈالی اور پلے کا بٹن دبا دیا۔ ہم اشتیاق سے ٹیپ کی طرف دیکھنے لگے۔ علیم بھائی جو رشتے میں میرے کزن تھے ہر ہفتے اپنی جیب خرچ سے آڈیو کیسٹ خرید کر لے آتے تھے۔ آج یہ نئی سوغات آئی تھی۔ ٹیپ ریکارڈر میں کیسٹ گھوم رہی تھی۔ ایک غزل کے بول چلنے لگے :

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم
اک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم

یہ جگجیت سنگھ سے میرا پہلا تعارف تھا۔ اس سے پہلے علیم بھائی جنید جمشید، عدنان سمیع اور پنکج ادھاس کی کیسٹیں لا چکے تھے۔ مگر ان دنوں انہوں نے آگے پیچھے جگجیت کے البم خرید کر گھر میں ان کا ڈھیر لگا دیا۔ یوں جگجیت کی غزلیں رفتہ رفتہ ہمارے شب و روز میں شامل ہو گئیں۔

پھر کیا تھا کہ ہم چار کزن اکٹھے ہوئے۔ گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں۔ ہم بچپن کے اسٹیج پر کوئی کھیل رچائے بیٹھے ہیں اور پس منظر میں جگجیت کا کوئی گیت چل رہا ہے۔ صحن میں کرکٹ کھیلی جا رہی ہے اور کھڑکی میں ٹیپ ریکارڈر آن ہے : ”ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہو گا چاند۔“ چھپن چھپائی چل رہی ہے اور دور سے یہ بول سنائی دے رہے ہیں : ”وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔“ رات گئے شطرنج یا لڈو کھیل رہے ہیں اور جگجیت کی یہ غزل چل رہی ہے : ”سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ۔“

جب میں گھر میں اکیلا ہوتا تو جگجیت کے البم ہی میرے رفیق ہوتے۔ کبھی شیلف سے کوئی کتاب نکال کر بیٹھ جاتا۔ آنکھوں کے رستے الفاظ داخل ہوتے اور کانوں سے نغمے کے بول: ”کانٹوں سے دامن الجھانا میری عادت ہے۔“ یا واٹر کلر پینٹنگ مشکل مرحلے میں ہوتی اور پیچھے جگجیت کا گیت چل رہا ہوتا: ”تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی۔“

غزلوں کا سحر اسکول میں بھی مجھ پر قائم رہتا۔ بریک میں دوستوں کے ساتھ پکڑن پکڑائی کھیل رہا ہوں اور گنگنا رہا ہوں : ”اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے۔“ چھٹی سے پہلے اسکول کے صحن میں ہو کا عالم ہے اور میرے ذہن میں یہ غزل چل رہی ہے : ”آوارہ ہیں گلیوں میں میں اور میری تنہائی۔“ یا ٹیوشن سینٹر میں اپنے کسی دوست کو جگجیت کے اشعار سے متعارف کرا رہا ہوں : ”پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے۔“

چھٹی جماعت میں ابو میرے لیے کوئٹہ سے واک مین لے آئے۔ اب میں جگجیت کی غزلیں سننے کے لیے علیم بھائی کے ٹیپ ریکارڈر کا پابند نہیں رہا۔ ہاں کیسٹوں کے لیے میرا انحصار انہی پر تھا۔ روز میں جگجیت کا کوئی البم اپنے گھر لے جاتا اور رات گئے بار بار اسے سنتا: ”چاک جگر کے سی لیتے ہیں۔“ ”میرے قریب نہ آؤ کہ میں شرابی ہوں۔“

ایک اسکول میں تعلیم پوری کر کے دوسرے اسکول چلے گئے۔ نویں جماعت کے پریکٹیکل میں اچھی پرفارمنس نہ دے کر بوجھل قدموں سے گھر آیا تو غم غلط کرنے کے لیے جگجیت کا البم ”سلسلے“ لگا لیا: ”سچ یہ ہے بیکار ہمیں غم ہوتا ہے۔“ کالج کے دنوں میں ہمارے اپنے گھر کمپیوٹر آ گیا تو جگجیت کی غزلوں کی سی ڈی خرید لی۔ کیو کلب کھیل رہے ہیں اور بیک گراؤنڈ میں غزل چل رہی ہے : ”اس موڑ سے شروع کریں پھر یہ زندگی۔“ یا سرد موسم میں صبح صبح سائیکل پر کالج جاتے ہوئے یہ اشعار میرا تعاقب کر رہے ہیں : ”بس ایک وقت کا خنجر میری تلاش میں ہے۔“

یونیورسٹی میں نیا نیا داخلہ ہوا تھا۔ میرے ہوسٹل میں پنجاب بھر کے شہروں سے طلبا آئے ہوئے تھے۔ انٹرنیٹ کی سہولت پہلی بار میسر آئی۔ گانوں کی ایک پاپولر ویب سائٹ سے جگجیت کی گئی غزلیں ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ ایک روز میرے روم میٹ کا ایک دوست ملنے آیا۔ معلوم ہوا کہ اسے جگجیت کی غزلیں بہت پسند ہیں۔ بس بیٹھ گئے اور گھنٹوں شعروں کا تبادلہ کرتے رہے۔ کمپیوٹر پر اس کا پسندیدہ گیت لگا لیا: ”اک پیار کا نغمہ ہے موجوں کی روانی ہے۔“ یوں ایک گہری دوستی کا آغاز ہوا جو آج بھی قائم ہے۔

یونیورسٹی کے بعد ہم کچھ دوست وقتی پڑاؤ کے لیے ایک ہوسٹل میں آ گئے۔ وہیں ایک روز جگجیت سنگھ کے انتقال کی خبر ملی۔ جگجیت کا بھی عارضی پڑاؤ مکمل ہوا اور وہ ”چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس جہاں وہ چلے گئے۔“ اس روز میں نے فیس بک پر جگجیت کی ایک غزل کے یہ اشعار پوسٹ کیے اور دل کئی دن تک ملول رہا:

تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایہ
تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے
ہم نے کیا کھویا ہم نے کیا پایا

ایک روز ایک بک فیئر میں میری نظر ایک کتاب پر پڑی: ”جگجیت: میرا گیت امر کر دو۔“ اس کتاب میں جگجیت کی گائی ہوئی سینکڑوں غزلیں مرتب کی گئی تھیں۔ خرید کر گھر لے آیا۔ جاب کے بعد میں نے ایک گھر کرائے پر لے لیا تھا اور فیملی سمیت وہاں شفٹ ہو گیا تھا۔ وہ کتاب میرے سرہانے پر پڑی تھی۔ میں اٹھا کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ ہر صفحے پر ایک الگ غزل۔ ہر غزل میں پروئی ہوئی شعروں کی لڑی۔ ہر شعر کے پیچھے ایک یاد کی بازگشت:

”تم اتنا جو مسکرا رہے ہو۔“ ایک دوست کے ساتھ بازار کی تنگ گلیوں میں چہل قدمی کر رہا ہوں۔ ”تیرے آنے کی جب خبر مہکے۔“ ہفتے کی رات ہے، کزن کا گھر، اگلے دن چھٹی ہے۔ ”ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے۔“ عامر خان کی وہ فلم ڈھونڈ رہے ہیں جس میں یہ گیت فلمایا گیا تھا۔ ”حسن والوں کا احترام کرو“ اسائنمنٹ کرنے کا دل نہیں کر رہا۔ کوئی سکیچ بنا رہا ہوں۔

کیسٹ کا زمانہ گیا تو سی ڈی آ گئی۔ سی ڈی گئی تو انٹرنیٹ آ گیا۔ وقت اپنی رفتار سے چلا جا رہا ہے۔ جگجیت کی ایک غزل کے بول ہیں :

نہ محبت نہ دوستی کے لیے
وقت رکتا نہیں کسی کے لیے
اور ہم وقت کی رفتار سے چلتے رہتے ہیں :
وقت کے ساتھ ساتھ چلتا رہے
یہی بہتر ہے آدمی کے لیے
کوئی ایسا نہ کرے تو وہ وقت اور زمانے سے یہ گلہ کرتا ہے :
نہ جانے انگلی چھڑا کر نکل گیا ہے کدھر
بہت کہا تھا زمانے سے ساتھ ساتھ چلے

آج کلاؤڈ کی لوح پر جگجیت کے گانوں کے سینکڑوں البم محفوظ ہیں۔ گو جگجیت سنگھ آج ہم میں موجود نہیں ہیں۔ مگر ان کے گائے ہوئے گیت کروڑوں دلوں کو چھو کر ان کی یادوں میں امر ہو چکے ہیں۔

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 44 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments