کیری پہاڑ سے وادی نمل تک (چھٹی مہم ) 1
تاریخ تھی 26 فروری، نکھری نکھری دھوپ تھی اور ٹریکنگ کے لئے ایک شاندار دن تھا۔ وادی سون میں متواتر پانچ دھوم مچا دینے والے ٹریکنگ ٹرپ مکمل کرنے کے بعد اس بار ٹریکنگ ٹیم جا رہی تھی اپنے چھٹے ٹرپ پر اور علاقہ منتخب کیا گیا وادی سون کی عظیم اوچھالی جھیل کی شمالی سمت۔ اوچھالی جھیل کے مشرقی حصے سے ٹریکنگ شروع کر کے جھیل کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف جانا تھا کل فاصلہ 17 کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ پانچ ٹرپ مکمل کرنے پر اہلیان وادی سون اور وادی سون کے فیس بک یوزرز نے ٹیم کی بہت شاندار پذیرائی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مہم میں پہلے سے زیادہ لوگ آنے کی خواہش کرتے ہیں۔
وادی سون کی سیاحت کے شوقین عام طور پر اوچھالی اور وہاں سے جھیل پر جاتے ہیں اور اس کے حسن کی تعریف کرتے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو اوچھالی جھیل کا مشرقی کنارہ اور اس کا وسیع و عریض میدان زیادہ دلکش ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ نوشہرہ سے مردوال جاتے ہوئے روایتی روڈ کی بجائے ہم انگہ روڈ پر نکلے اور یہاں کے وسیع میدانوں اور اوچھالی جھیل کا نظارہ دیکھتے ہوئے انگہ سے مردوال چلے گئے۔
ہائیکنگ ٹیم نوشہرہ میں اکٹھی ہوئی۔ عدنان عالم اعوان، عدنان احسن، محمود ملک، نبیل ، نیاز، ملک محمد علی اور احمد ملک تو ابتداء سے ہی ہائیکنگ ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ فہیم انور خان جنجوعہ پہلی بار ٹیم کا حصہ بنے۔ فیس بک پر ہمارے پرانے دوست اور وادی سون سے تعلق ہے جوہر آباد میں قیام ہے۔ آج کل بحیرہ کیسپین کے کنارے قزاقستان میں ہوتے ہیں اور ہماری ہر مہم پر کف افسوس ملتے کہ ہم ہیں ویرانے میں اور گھر میں بہار آئی ہے تو ہم کیوں نہیں اس بہار سے لطف اٹھا رہے۔ اس بار چھٹی پرآئے اور موقع غنیمت جان کر مہم میں شامل ہو گئے۔ مہم سے قبل ایک لمبی چوڑی شاپنگ لسٹ بنائی اور چاقو چھریاں، ٹارچیں اور ایمرجنسی کٹ تک خرید لیں۔ ایک بہت عمدہ ٹینٹ بھی ساتھ لانے پر مصر تھے مگر جب پتا چلا کہ شام تک واپس آ جانا ہے تو ٹینٹ کو پیک ہی رہنے دیا اور گھر چھوڑ آئے۔ بہت ہی خوش مزاج اور جلد فرینک ہوجانے والی شخصیت ہیں۔ روس کے سخت موسموں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ نیاز اعوان کے تین دوست رانا نوید، طیب منان اور بلال بھی اس مہم میں شریک ہونے کے لئے آئے تھے۔ نیاز نے وادی سون میں ٹریکنگ کا جو سماں باندھا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جوان اگلی مہم کے لئے تیار ہو گئے
اور ٹیم سرہال سبھرال روڈ کے ذریعے اوگالی جانے کے لئے روانہ ہوئی۔ تھوڑا جھیل کی طرف نکلیں تو سبزیوں کے وسیع کھیت ہیں ۔ اوگالی پہنچے، وہاں سے تھوڑا آگے ڈھوک کوچھا کے پاس گاڑیاں پارک کی گئیں۔ یہاں پر سرسبز کھیتوں کے درمیان ایک طویل پگڈنڈی تھی جس پر ٹیم نے چلنا تھا اور کیری پہاڑ کے دامن تک پہنچ کر چڑھائی شروع کرنا تھی۔ مہم کی ابتدا ء عمدہ تھی۔ گپ شپ میں اور گندم کی ہریالی دیکھتے ہوئے ٹیم بہت جلد کیری پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئی یہاں پر ایک قدیم کنواں تھا۔ احباب کا خیال تھا کہ کنوئیں کا پانی کھارا ہو گا لیکن عدنان بھائی نے بتایا کہ اگرچہ وادی سون کی جھیلوں کا پانی تو کھارا ہوتا ہے مگر ان کے اطراف میں جتنے بھی پانی کے بورکیے گئے ہیں یا کنوئیں کھودے گئے ہیں ان کا پانی میٹھا ہوتا ہے۔ ٹیم کے ممبران نے کنوئیں سے خود پانی نکالا اور چکھ کر دیکھا تو واقعی پانی میٹھا نکلا۔
اسی بہانے ٹیم تازہ دم ہو گئی۔ نبیل اور فہیم بھائی مسلسل فوٹو گرافی کر رہے تھے۔ بہت جلد ٹیم کیری پہاڑ تک پہنچ گئی۔ یہاں سے دو رستے نکلتے ہیں ایک پہاڑی کے اوپر دائیں طرف سے ہو کر جاتا ہے اور دوسرا بائیں طرف ڈیرہ جات کو نکل جاتا ہے۔ عدنان بھائی نے بتایا کہ ہم بائیں طرف سے ہو کر کیری پہاڑ پر جائیں گے اور پھر تقریباً سات کلو میٹر تک پہاڑ پر سفر کریں گے ہمارے ساتھ ساتھ بائیں طرف اوچھالی جھیل ہو گی۔ یہ علاقہ عام سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے اس لئے ہم اس ایریا کو اپنے سفر نامے اور تصاویر کے ذریعے سیاحوں کے سامنے لائیں گے۔
کیری پہاڑ پر چڑھائی اتنی آسان نہ تھی۔ بہت جلد ٹیم ممبران کے سانس پھولنے لگے۔ کافی دن ایک جیسی روٹین میں گزار کر اچانک پہاڑوں پر سفر کرنا پڑ جائے تو سانس پھول ہی جاتا ہے لیکن آفرین ہے ہمارے ہائیکرز پر، سانس پھول بھی گیا تب بھی رکنے کا نام تک نہیں لیا اور پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر ہی دم لیا اور۔ یہاں کا نظارہ بھی کیا ہی عمدہ نظارہ تھا۔ اوچھالی جھیل اپنے پورے طول و عرض کے ساتھ نیچے پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا نیلگوں شفاف پانی بالکل صاف اور واضح دکھائی دیتا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سرسبز کھیت ایک عمدہ نظارا پیش کرتے تھے۔ طبیعت ایک دم سے فریش ہو گئی۔ وادی سون کی شمالی پہاڑیوں پر موسم کافی معتدل رہتا ہے اور شمال سے چلنے والی ہوا طبیعت کو تروتازہ رکھتی ہے۔ ٹیم وادی سون کی اس خوب صورتی میں کھوکر رہ گئی۔ اتنے میں ہمارے سمارٹ بوائے عدنان احسن نے اپنا بیک پیک کھولا اور بہترین قسم کے سیب نکال کر ٹیم کو پیشکیے۔ سیب دیکھ کر ٹیم کے چہرے کھل اٹھے۔ سب نے بہت رغبت سے سیب کھائے اور عدنان احسن کا شکریہ ادا کیا۔ اتنے ڈھیر سارے شکریئے سن کر عدنان احسن کا چہرہ مزید کھِل گیا۔ ٹیم نے اس کی جلد شادی کی دعا کی اور یہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ دوپہر ہونے کو تھی تیز دھوپ کے باوجود ہلکی ہلکی سرد ہوا نے موسم کی شدت کو اعتدال میں رکھا۔
یہاں سے تقریباً نصف وادی سون صاف دکھائی دیتی ہے۔ نوشہرہ، شکرکوٹ، سبھرال، سرہال، کورڈھی، اگالی، اوچھالی اور دیگر علاقے بالکل سامنے بچھے ہوئے ہیں۔ وادی سون کا یہ ایسا ایریا ہے جہاں پانی کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے یہاں سبزے کی بہتاط ہے۔ کسانوں کی پہلی ترجیح سبزیاں کاشت کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے سارا سال کھیت ہرے بھرے رہتے ہیں۔ فہیم جنجوعہ صاحب نے یہاں بھی اپنی دلچسپ باتوں سے محفل کو گلزار بنائے رکھا۔ بالآخر عدنان بھائی نے چلنے کا کاشن دیا اور سبھی آگے چل نکلے۔ یہاں ایک پگڈنڈی سی مزید اوپر کو جاتی ہے جو کیری پہاڑ سے بھی اونچے پہاڑ کو چلی جاتی ہے اور ٹیم کا رخ اسی جانب تھا۔ یہاں بہت کم لوگ آتے ہیں مقامیوں کی گذرگاہیں الگ سی ہیں جس کی وجہ سے یہ علاقہ کافی ویران سا لگتا ہے۔ ایک بار پھر سے سیدھی چڑھائی تھی۔ جو چڑھنا تھی چاہے موڈ ہو یا نہ ہو۔ نئے ساتھی بھی ابھی تک بہت خوشی خوشی چل رہے تھے اور وادی کے دلکش مناظر سے لطف اٹھا رہے تھے۔ جنجوعہ صاحب اور نبیل ہر دو چار منٹ بعد تصویربنانے کے بہانے رک جاتے۔ اور یوں اس بلند پہاڑ کو سر کر لیا گیا۔
یہاں سے اوچھالی جھیل اور اس کے شمال میں چٹہ گاؤں بالکل نیچے دکھائی دیتے ہیں اور چٹہ کے سرسبز کھیت بہت خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ اور مغرب کی جانب سکیسر پیک اور اس سے شمال میں نمل جھیل (یہ وہی نمل جھیل ہے جس کے کنارے عمران خان نے نمل کالج بنوایا ہے )، اور پوٹھو ہار کا آخری حصہ دکھائی دیتا ہے۔ پوٹھوہار کا یہ حصہ کٹا پھٹا اور ناہموار دکھائی دیتا ہے اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہاں کسی قسم کی کوئی آبادی نہیں ہو گی اور نہ ہی یہاں سے گذرنا ممکن ہو سکتا ہے لیکن لوگ یہاں رہتے بھی ہیں کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ وادی کے لوگوں کی زندگی کافی کٹھن ہوتی ہے۔ صاف موسم میں لاوہ، دندہ شاہ بلاول اور دیگر دیہات بھی دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں کافی وقت گذرا۔ اور یہاں دیکھنے کے لئے اتنا کچھ تھا کہ ٹیم کا یہاں سے کہیں جانے کو جی نہیں کر رہا تھا۔ یہاں پہاڑ بالکل ایک دیوار کی طرح تھا۔ مقامی لوگ ایسے پہاڑ کو دندی کہتے ہیں۔ یہاں سے ٹیم نے دائیں جانب کنہٹہ واٹر فال کی طرف جانا تھا۔ جب پہلی بار یہ نام سنا تو محسوس ہوا کہ کنہٹی واٹر فال کا ذکر ہو رہا ہے لیکن یہ جگہ کنہٹی گارڈن سے بہت دور ہے تو اسے کنہٹہ واٹر فال کہتے ہیں۔
عدنان بھائی نے اشاروں سے ٹیم کو بتایا کہ اب ہم اس طرف سے جائیں گے لیکن اچانک پتا چلا کہ نبیل غائب ہے۔ نیاز سے پوچھا، ایدھر اودھر سے پوچھا گیا لیکن نبیل کہیں نہ تھا۔ اچانک کہیں نیچے سے نبیل کی آواز سنائی دی تو پتا چلا کہ نبیل صاحب اپنے دبلے جسم اور پھرتیلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سیدھی دیوار کی طرح بنی دندی سے نیچے اتر چکے ہیں۔ اور اب باقی ٹیم کو بھی اسی طرح اترنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اوپر سے دیکھتے تو بالکل دیوار اور نبیل صاحب فرما رہے ہیں کہ آ جائیں۔ عدنان بھائی نے ٹیم سے مشورہ کیا۔ اصل رستہ کافی طویل تھا اور اب تو مزید طویل بھی لگ رہا تھا کہ اگر یہاں سے نیچے اترتے تو دس منٹ میں نیچے پہنچ جاتے۔ تو فیصلہ کیا گیا کہ یہیں سے نیچے اتر جاتے ہیں۔ اور یہ اترنا بھی بظاہر آسان لگ رہا تھا۔ اور جب ٹیم ممبران نیچے اترنے لگے تو پھر کوئی یہاں پھسلا اور کوئی وہاں پھسلا۔ ہر کسی کو اپنی پڑ گئی تھی۔ کوئی پتھروں کا سہارا لیتا تو کوئی جھاڑی کو پکڑتا۔ جونیچے اتر گئے تھے وہ ساتھیوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر مسکراتے تھے۔ نیاز سب سے پہلے اترنے والوں میں تھا۔ جنجوعہ صاحب بھی یوں اترے جیسے قزاقستان میں باقاعدگی سے ٹریکنگ کرتے رہے ہوں۔ البتہ علی بھائی سست دکھائی دے رہے تھے۔ بلال مقصود کی کمی محسوس ہو رہی تھی کچھ علی بھائی کی داڑھ میں درد بھی تھا لیکن یہ ان کی ہمت تھی کہ اس کے باوجود بھی وہ اتنے طویل ٹریکنگ ٹرپ پر چلے آئے تھے۔
یہ ایک اتنی خطرناک اترائی تھی کہ اترنے کے بعد بھی کافی دیر تک سب کے اعصاب پر سوار رہی۔ یہاں قریب ہی ایک ڈیرہ تھا جہاں دو جوان بیٹھے بہت دلچسپی سے ہائیکنگ ٹیم کے مہم جوؤں کو اس دندی سے اترتے دیکھ رہے تھے اور زیر لب مسکرا بھی رہے تھے جب ٹیم نے دو مقامیوں کو دیکھا تو کچھ حوصلے میں آئی ان کے سامنے رکھ رکھاؤ ظاہر کرنا ضروری تھا۔ اس لئے ان سے کنہٹہ گارڈن جانے کا رستہ پوچھ لیا۔ پھولی سانسوں اور خوفزدہ آنکھوں سے وہ مقامی سب جان گئے تھے اور جان کر بھی انجان بن گئے۔ ٹیم کو بیٹھنے کو کہا۔ چائے پانی پوچھا۔ اور ہاں دونوں جوانوں کے پاس بھی کلہاڑیاں تھیں۔ یہ نہایت حیرت کی بات ہے کہ تمام چھ مہمات کے دوران جنگلوں میں جو بھی مقامی ملے ان کے ہاتھ میں کلہاڑیاں ضرور دیکھیں۔ بہر حال موقع غنیمت جان کر ٹیم ان مقامیوں کے پاس بیٹھی اپنا سانس اور مورال بحال کرتی رہی اور مقامی ان کو دیکھ کر مسکراتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کوئی شہری بابو ہیں جو بھولے سے اس رستے پر نکل آئے ہیں لیکن وہ ہماری ٹیم کو انڈر ایسٹیمٹ کر رہے تھے۔ اور یہیں عدنان احسن نے اعلان کیا کہ وہ اس خطرناک اترائی پر اپنا سیل فون کہیں گرا آیا ہے۔ ہمیں اندازہ تو تھا کہ اس خطرناک سفر میں کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے لیکن خیر گذری کہ سیل فون ہی گرا، سیل فون کا مالک صحیح سلامت نیچے اترنے میں کامیاب رہا۔ عدنان کو مشورہ دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو دوبارہ اس دندی پر چڑھ کر اپنا سیل فون تلاش کرنے جا سکتے ہیں۔ عدنان نے ایک نظر دندی کو دیکھا اپنے نیچے اترنے کا منظر یاد کیا اور بیٹھ کر افسوس کرنے کو ترجیح دی۔
انہوں نے بتایا کہ پندرہ سولہ ہزار کے سیل فون کے گم ہو جانے کا اتنا افسوس نہیں ہے جتنا کہ اس کے اندر موجود ڈیٹا کھو جانے کا دکھ ہے۔ ٹیم نے مشترکہ طور پر مرزا غالب کا یہ شعر یاد کیا کہ چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط، ، ایک نوجوان کا یہی سرمایہ ہو سکتا ہے۔ ٹیم عدنان احسن کے سیل فون کھوجانے پر افسوس کرتے ہوئے پلان کرنے لگی کہ اب کدھر کو نکلا جائے۔ ڈھلتی دوپہر میں کنہٹہ واٹر فال کافی دور دکھائی دے رہی تھی اوپر سے مقامیوں نے یہ بتا کر کہ آج کل یہاں نہ چشمے چل رہے ہیں نہ یہاں پانی ہے ٹیم کا دل ہی توڑ دیا۔ اور ٹیم نے بہتر سمجھا کہ واپسی کی راہ لی جائے۔ وہاں سے چلے تو سبھی کے دل بوجھل تھے عدنان بار بار اپنے سیل فون کے بچھڑنے کا ذکر کرتا تھا اور ساتھ میں ہائے محمود کی نکلتی تھی۔ اور نبیل تھا کہ ہر دو منٹ بعد نہایت سنجیدگی سے عدنان سے دریافت کرتا تھا کہ بھائی فون میں کوئی بہت قیمتی ڈیٹا تو نہیں تھا؟ عدنان بہت کوشش سے خود کو کنٹرول کر پاتا تھا۔ محمود نئے سیل فون کے جدید ماڈلز پر روشنی ڈالتا تھا۔ علی بھائی ان سے الگ تھلگ مسکراتے ہوئے چلتے تھے اور سوچتے تھے کہ داڑھ کو نکلوانے کے لئے کس شہر کا کون سا ڈاکٹر بہتر رہے گا کہ داڑھ بھی نکال دے اور درد بھی کم سے کم ہو بلکہ نہ ہی ہو، ہم سے پوچھتے تو ہم کہتے کہ جس کلینک کی نرسیں کھل کے مسکراتی ہوں وہ کلینک دانت دکھانے اور نکلوانے کے لئے بہتر رہے گا۔
ہمارا لیڈر ہمارا رہنما، ساری ٹیم کو مرغی کی طرح اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر لانے والا عظیم ہائیکر عدنان عالم اعوان سرکاری ملازمت میں مزید ترقی اور نئے دفتر کی خوشی میں جھوم جھوم کر چلتا تھا۔ بار بار کہیں سے سیاہ گلاسز کو نکالتا آنکھوں پر سجاتا اور پوچھتا کہ کیسا لگ رہا ہوں۔ اب بندہ کیسے بتائے کہ حضور آپ گلاسز کے بغیر بھی کافی سمارٹ دکھائی دیتے ہیں لیکن گلاسز کی اہمیت تھی۔ پوچھنے پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اتنے شاندار گلاسز انہوں نے کہاں سے لئے بس زیر لب مسکرا دیتے۔ نیاز اپنے ساتھ آئے دوستوں میں مگن تھا۔ رانا نوید، طیب منان اور بلال، یہ سب نیاز کی زبانی ہماری ہائیکنگ کا سن سن کر اتنے پرجوش ہوئے کہ اس ٹرپ میں شامل ہو کر رہے۔ اور ابھی تک فٹ چل رہے تھے۔ عدنان بھائی نے اعلان کیا کہ اب رکیں گے اور لنچ کیا جائے گا۔ ایک سایہ دار جگہ دیکھ کر ٹیم نے لنچ بریک کی۔
- حاصل زیست۔ ایک مطالعہ - 16/05/2023
- جناح ہاؤس لاہور۔ کیا واقعی کوئی جناح ہاؤس لاہور میں بھی تھا؟ - 14/05/2023
- کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہیں؟ - 14/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).