پچیس جولائی کو میں نواز شریف کو ووٹ کیوں دوں گا؟


نوے کی دہائی میں ایک مسلم لیگی گھرانے میں جب ہوش سنبھالی تو ہمیشہ جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کے بارے میں اچھے الفاظ ہی سنے اور بھٹو صاحب اور بی بی کو گالیاں پڑتی ہی سنیں۔ تب یہی لگتا تھا کہ بھٹو صاحب اور بی بی بہت ہی برے لوگ ہوں گے جنہوں پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہوا ہے اور ضیاء صاحب اور نواز شریف بہت اچھے ہیں۔ یہ سوچ کالج لائف تک ایسے ہی رہی۔
پھر جب یونیورسٹی میں جا کے کچھ شعور آیا تو سوچا کہ اپنے ملک کی سیاست کی تاریخ تو پڑھی جائے۔ جب پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا ہماری تاریخ تو تلخ اور سیاہ ابواب سے بھری ہوئی ہے جس میں ایک طرف تو جنرل غلام محمد سے لے کر جنرل مشرف تک فوج براہِ راست حکومت چلاتی نظر آتی ہے جس میں جنرل ضیاء کا بد ترین آمریت کا دور بھی شامل ہے ان سب کو آئینی تحفظ عدالت اعلیٰ کی طرف سے دیا گیا۔ اور دوسری طرف کسی بھی منتخب وزیراعظم کو سازشوں سےاپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ جس میں بھٹو صاحب کی پھانسی اور بی بی کی شہادت شامل ہیں۔

تب یہ پتا چلا پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے پہلی دفعہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا۔ اس سب میں اپنے ایک محبوب لیڈر کی پھانسی سے لے کر اسی محبوب لیڈر کی بیٹی کی شہادت اور ہزاروں کارکنوں کی قربانیوں کی بھینٹ شامل ہے۔ تب ہی یہ پتا چلا کہ جس نواز شریف کو میں اچھا سمجھتا تھا وہ تو پیداوار ہی ضیا کی آمریت کا تھا اور اسٹیبلشمنٹ کی سب سازشوں میں شامل تھا۔ تب سے نواز شریف سے نفرت اور نظریاتی اختلاف شروع ہوا جو اب تک ہے اور پیپلز پارٹی سے محبت اور نظریاتی ہم آہنگی ہوئی۔ اور بی بی کی شہادت کے بعد اپنی زندگی کا پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کو دیا۔

اسکے بعد زرداری صاحب نے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کر کے اور اپنے کارکنوں کو بے سرو سامان چھوڑ کر پیپلز پارٹی کی پہچان ہی ختم کر دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے پانچ سال حکومت تو کر لی مگر جب دو ہزار تیرہ کے انتخابات آئے تو پنجاب میں کوئی بھی امیدوار پی پی کا ٹکٹ لینے پہ تیار ہی نہیں تھا اور میرے پاس اپنے حلقے میں تیر کا نشان ہی نہیں تھا۔ مجبوراً ووٹ بس ضائع ہی ہوا۔ پنجاب میں اس دفعہ بھی صورتِحال کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ تو کیا کروں کس کو ووٹ دوں؟ دو ہی چوائس ہیں۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن۔

کیا ستم ظریفی ہے ساری عمر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہنے والا نواز شریف آج اس کے خلاف کھڑا ہے اور ایک دفعہ پھر سے اسٹیبلشمنٹ وہی پرانا کھیل رہی ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ کھیل نواز شریف کے ساتھ مل کر کھیلا جاتا تھا۔ آئی جی آئی اور میمو گیٹ اس کی مثالیں ہیں۔ اور آج نواز شریف کے خلاف یہ کھیل عمران خان اور اداروں کے ساتھ مل کر کھیلا جا رہا یے۔ سو نواز شریف اور اس کی پالیسیوں سے سو نظریاتی اختلاف کے باوجود میرا اس دفعہ کا ووٹ اس کے لئے ہے کیونکہ اس وقت اگر کوئی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال اگر کوئی کھڑا ہے تو وہ نواز شریف ہی ہے۔

تو دراصل میرا یہ ووٹ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے کیونکہ ایک عام پاکستانی کے ناطے سے میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ کھیل اب بند ہو جانا چاہیے۔ مائی باپ آپ اس ملک کی تقدیر کے فیصلے اس ملک کے عوام کو ہی کرنے دیں اور انہیں یہ حق دیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے منتخب کریں چاہے وہ عمران خان ہو یا کوئی اور ہو اور پھر اپنی مرضی سے پانچ سال بعد چاہے کسی اور کو منتخب کریں۔ یہ کرپشن کا منترا جو کہ جانے کب سے جاری یے اب ختم کریں۔ کیونکہ مائی باپ آپ کا جو کام ہے اگر آپ وہ کریں گے تو ہی آپ کی عزت ہو گی۔ ورنہ ہم تب تک آپ کے خلاف ووٹ دیں گے جب تک آپ اس سب سے باز نہیں آیئں گے۔ ایک بہت ہی عام پاکستانی ہونے کے ناطے سے تو ہم یہی کر سکتے ہیں۔ اور میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ میں بھی اس اتنا ہی محب وطن ہوں۔ جتنے آپ ہیں یا کوئی اور ہے اور میں بھی اپنے اس وطن کی بہتری ہی چاہتا ہوں۔
اور باقی لوگوں کےلئے یہ ہے کہ جس کو ان کو ٹھیک لگتا ہے وہ ووٹ دیں مگرمیرے ووٹ پر اعتراض نہ کریں کیونکہ میرا ووٹ اس دفعہ شیر کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).