صوبے تاریخ بناتی ہے


طویل عرصے کے بعد میرے لئے انتہائی قابل احترام شخصیت معروف صحافی و دانشور باد شمال کے چیف ایڈیٹر عابد عبد اللہ صاحب اور سوشل میڈیا میں مجھ پر بلاناغہ تنقید کے نشتر برسانے والے ایڈیٹر باد شمال محترم محبوب خیام، عرف خلیفہ کی تحریک اور محبت کے اثر سے اجتماعی مسائل پر مستقل کالم لکھنا شروع کیا تو میری توقعات سے بڑہ کر قارئین کی طرف سے حوصلہ افزائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کسی لکھاری کے لئے اس کے قارئین اصل اثاثہ ہوا کرتے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ قارئین ہر تحریر سے اتفاق کریں، اختلاف رائے بھی معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے، بہت سے قارئین اختلاف رائے کے ہمراہ اپنا نقط نظر بھی ای میل، وٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے ارسال کر رہے ہیں اور   بہت سے قارئین اتفاق رائے کے ساتھ حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں میرے لئے سب قابل قدر ہیں۔ بغیر سنسر کے ایک قاری کی رائے شامل کرتا ہوں اور اس کے بعد میں مزید بات کروں گا۔

اسلام علیکم رشید ارشد بھائی۔ آپ کا کالم، قصہ تمام، پڑھ کر دل چاہا کہ چند گزارشات عرض کروں۔ بالکل آپ نے صورت حال کا صحیح تجزیہ کیا ہے۔ آپ نے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا ذکر کیا ہے تو مجھے کچھ یاد آیا۔ میرے والد صاحب وزیر میر اکبر مجھے بھی ساتھ لے کر سنگل آ ئے تھے جب ذوالفقار علی بھٹو وہاں آئے۔ سپاسنامہ میرے والد صاحب نے لکھا اور انہوں نے ہی پیش کیا تھا۔ جس میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

بھٹو صاحب کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ انہوں نے کہا صوبے تاریخ بناتی ہیں۔ میں نے صوبہ بنایا تو کل کوئی آ کر ختم کرے گا لیکن اگر تاریخ صوبہ بنائے تو اس کو کوئی ختم نہیں کر سکے گا۔ وہ لیڈر تھے اور ان کو موقع نہیں دیا گیا۔ دھاندلی کے نام پر احتجاج اور وہ احتجاج نظام مصطفی ﷺ کی تحریک میں تبدیل ہوا اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا تاریک باب ہے۔ میں وطن سے دور باد شمال پڑھتا ہوں تو آپ جیسے لکھاریوں کی وجہ سے غریب الوطنی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ شکریہ۔ تاج اکبر کنیڈا

محترم تاج اکبر صاحب۔ آپ کا شکریہ، آپ نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے جن الفاظ کا تاریخی حوالہ دیا ہے وہ واقعی قابل غور ہیں لیکن میں یہاں اختلاف کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ تاریخ انہیں بناتی ہے جو تاریخ سے سبق حاصل کر کے اپنی سمت درست کرتے ہیں، اور تاریخ انہیں دوراہے میں لا کر کھڑا کرتی ہے اور ان قوموں کا اجتماعی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہے جو تاریخ کے اوراق پر جھوٹ، مفادات، مسلکی، علاقائی اور لسانی گرد پھینک کر کبوتر کی طرح سامنے بلی دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر دیتی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نے درست کہا تھا کہ صوبے تاریخ بناتی ہے، لیکن ہم ایسے معاشرے کے فرد ٹھہرے جہان تاریخ بنائی نہیں جاتی بلکہ مفادات اور تعصبات کی عینکیں، مخصوص سوچوں کی روشنائی اور گروی قلم سے تاریخ بگاڑی جاتی ہے۔

گلگت بلتستان کے پس منظر میں بد قسمتی سے تاریخ ہی بگاڑی گئی۔ ہمارے سیاستدانوں سے لے کر دانشوروں اور لکھاریوں نے تاریخ کے ساتھ وہ حشر کیا جو فواد چوھدری نے تحریک انصاف کا کیا۔ جس طرح ہمارے لکھاریوں اور مورخوں نے تاریخ کے ساتھ زیادتی کی ہے، ایسے ہی ہمارے سیاست دانوں اور قانون دانوں نے سیاسی مقدمے کے ساتھ کیا۔

ظلم تو یہ ہے کہ جنہوں نے یہ زیادتی کی  وہ اپنی غلظی تسلیم کر کے قوم سے معافی کے طلب گار بھی نہیں بلکہ جھوٹ کی قبائیں اوڑھے قوم سے ستائش کے طلب گار ہیں۔ تاریخ کے اصل حقائق کو پرکھنے اور پڑھنے کے لئے کم سے کم گلگت بلتستان میں تو کوئی تیار نہیں۔ معذرت کے ساتھ، میں اگر گلگت بلتستان کی تاریخ کے ساتھ ناانصافی کرنے والوں کی غلطیاں لکھنا شروع کروں تو ان حقائق کو کوئی بھی اس لئے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا کہ فی الحال عالمی گریٹ گیم کے تحت ہم سب نے مسلکی اور علاقائی دائروں میں رہ کر چیزوں کو دیکھنے کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ اصل تاریخی حقائق اور سچ سامنے لائیں جائیں تو فورا غداری کے سر ٹفکیٹ تقسیم ہونے شروع ہوں گے، یکم نومبر 1947 کی صبح سے آج کی تاریخ تک ہم نے اپنے اپنے ہیروز اپنے اپنے شہید اپنے اپنے لیڈر اور غدار تو بنائے لیکن کوئی اجتماعی لیڈر اور رہنما نہ بنا سکے، اور نہ ہی قوم بن سکے۔

بالکل ایسے ہی جیسے دانشوروں اور لکھاریوں نے تاریخ کے ساتھ اجتماعی ناانصافی کی، ایسے ہی ہمارے سیاسی شاہ دولوں نے اپنی ڈیڑہ انچ کی سیاست کے لئے گلگت بلتستان کے آئینی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا اور یہ سلسلہ بد قسمتی سے تاحال جاری ہے اور اپنا اپنا صوبہ بنا رہے ہیں اپنا اپنا کشمیر طرز کا سیٹ اپ بنا رہے ہیں، اپنے اپنے رہنما اپنے اپنے شہید اور اپنے اپنے نظام حکومت بنا رہے ہیں جس دن یہ اپنا اپنا والا سلسلہ ختم کر کے تاریخ سے کچھ سبق حاصل کریں گے تو گلگت بلتستان کو حقوق بھی ملیں گے اور ایک قوم کا تصور بھی اجاگر ہوگا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو نے درست کہا تھا، صوبے تاریخ بناتی ہے، اگر تاریخ کی شاہراہ پر چل کر ہمارے رہنما ایک قوم کا تصور پیدا کرتے تو گلگت بلتستان میں نہ یہ احساس محرومی ہوتا اور نہ تقسیم کے دائرے وسیع ہوتے۔

ہمارے لکھاریوں، دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں نے مفادات کی عینکیں اور تقسیم کی حدیں لگا کر تاریخ کو مسخ کیا تو نتیجے میں تاریخ نے ہمیں ایسے مسخ کیا کہ ستر برس بعد بھی اپنی قومی شناخت کے حصول کے لئے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).