بین الاقوامی برادری میں ہمارا مقام کیوں گر رہا ہے ؟


میں بہت پہلے سے کہہ رہا ہوں کہ پاکیستان میں کچھ عرصے سے پولیٹیکل پارٹیز، حکومتی ادارے اور یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ارریلیونٹ ہو چکی ہیں۔ اِس کے ساتھ بری بات جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام بھی ارریلیونٹ ہو گئے ہیں۔ ہماری مسلسل بری چوائسس نے انٹرنیشنل سین میں ہماری عوام کی اہمیت ختم کردی ہے۔ اب کوئی بھی انسانی ہم دردی کی بنیاد پر پاکستانی عوام کے لئے آواز نہیں اٹھانا چاہتا، کیوں کہ نہ ہم نے اپنی چوائس ٹھیک کی ہے اور نہ ہم خود دوسروں کو انسانی ہم دردی کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔

ہم خوش قسمت ہیں کے ہماری باری دیر میں آئی ہے۔ عراق، سیریا، لیبیا افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو مارنے اور بے گھر کرنے کے بعد جب انٹرنیشنل فورسز کو کامیابی نہیں مل رہی اور آپ کی باری آتے آتے انٹرنیشنل فورسز کو کچھ سبق مل گیا ہے اور اب پاکستان کو توڑنے کی بجائے انٹیکٹ رکھتے ہوئے ڈنڈے کے زور پر سدھارا جا رہا ہے۔

اِس وقت انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ آپ کو ساتھ چلنے کا موقع دے رہی ہے کیوں کے انہوں نے کچھ رزلٹس دکھانے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ممالک ہوں جن کو وہ اپنی پالیسیز سے ٹھیک کر کے دکھا سکیں۔ ہم ان ممالک میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت اچھا موقع ہے۔

بین الاقوامی قبولیت کے انڈیکیٹرز بدل چکے ہیں۔ پہلے سرمایہ داری کے مواقع، انٹرنیشنل انویسٹر کا پرافٹ اور، پولیٹیکل پرافٹس کو دیکھا جاتا تھا۔ پر اب دنیا کے حالات بدل رہے ہیں اور پچھلے سرمایہ دارانہ نظام کے نقصانات اتنے زیادہ کھل کر سامنے آ گئے ہیں کہ اب صرف اِس بنیاد پر انٹرنیشنل رلیشن نہیں بنائے جا سکتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور بریکزٹ جیسی رزلٹس نے بین الاقوامی سطح پر یہ احساس پیدا کیا ہے کہ لوگ مسائل کو اگریسو طریق پر حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ جلد بین الاقوامی انتہا پسندی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس لئے اب جو نئے انڈیکیٹر بنائے جا رہے ہیں، وہ اینٹی کرپشن، اینٹی ٹیرارازم اور بیٹر یوز آف ریسورسز کی بنیادوں پر بنائے جا رہے ہیں جن سے احساس محرومی کو دور کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ میں بہت سی تبدیلی آ چکی ہے اور کیوں کہ ہماری پچھلے حکمران بھی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہی کے اسپورٹڈ تھے اِس لیے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو بہت اچھی طرح پتا ہے کہ ان کے حالات کیا ہیں اور وہ اِس نئے سسٹم کا حصہ بن سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی لئے آپ کو لیڈرشپ میں تبدیلی لانے کا موقع دیا گیا ہے۔ اب ہماری لیڈرشپ کے لئے نئی اپروچ اور گولز سیٹ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جب کوئی بھی آپ کو چینج ہونے کا موقع دیتا ہے تو وہ بہت سی اسپیس بھی دیتا ہے اور نئی ریجیم منفی سے نکل کر تقریباً زیرو لیول پر آ گئی ہے۔ لیکن اِس لیول کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے کیوں کے پچھلے حالات کی وجہ سے منفی امپریشن ڈیولپ ہونے میں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کسی کی دشمن نہیں ہوتی وہ بس اپنے مفادات کے لئے کام کرتی ہے اور ہر ملک ان کے مفاد میں اپنے مفاد کے لئے اسپیس تلاش کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہم بھی وہ اسپیس حاصل کر سکتے ہیں پر وہ کرنٹ فنانینشیئل سسٹم جس میں ریکوری کا ریٹ زیرو پرسنٹ ہے، کے ساتھ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔ یہ ایف اے ٹی ایف جیسے انسٹیٹیوشنز اور اسٹینڈرڈز ہم جیسے ممالک کے لیے دنیا کے ساتھ چلنے کا ایک موقع ہیں۔ جن اسٹنڈرڈ کو فالو کر کے ہمارے جیسے ممالک بین الاقوامی سطح پر اپنے قبولیت کے چانسز بڑھا سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف کا فریم ورک بھی ایسا ہی ایک اسٹینڈرڈ تھا جو ہم نے پچھلی تین دہائیوں سے بلا وجہ کی ہشیاریاں دیکھا کر بہت اکسپلائٹ کیا اور اب وہ بہت سختی سے آپ سے وہ امپلیمنٹ کرائیں گے۔ جب تک آپ آئی ایم ایف کے اسٹینڈرڈز امپلیمنٹ نہیں کریں گے چاہے آپ آئی ایم ایف سے قرض لیں یا نہ لیں آپ کا ایکسیپٹینس لیول نہیں امپروو ہو گا۔ اور یہی وہ پریشر ہے جو پاکستانی عوام کو اپنی چوائسس (پچھلی یا موجودہ کی بحث میں پڑکر تقسیم نہ ہوں تو بہتر ہے ) کی وجہ سے بھگَتنا پڑے گا۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوشنز کے حساب سے اِس سارے بگاڑ کی وجہ پاکستان کے عوام ہیں جو ٹیکس کے نظام کو نہیں سمجھتے، قوانین کو اپنے پاؤں کی بیڑی سمجھتے ہیں اور جنہوں نے کبھی پولیٹیشن اور کبھی مذہبی راہنماؤں کی باتوں میں آ کر ملک کو اِس حالت تک پہنچا دیا ہے۔

اب ہماری کرنٹ ریجیم کا کام ہے کہ اِس وقت میڈیا اور مختلف انسٹیٹیوشنز کے ذریعہ عوام کو موجودہ حالات پر ایجوکیٹ کرے اور ایک اچھی انڈر اسٹیڈنگ ڈیولپ کرے۔ یہ صرف گورنمنٹ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ تمام انسٹیٹیوشنز کی بھی ذمہ داری ہے کہ سب حکومت کا ساتھ دیں اور پاکستان کو جو یہ انٹرنیشنل لیول پر سب کے ساتھ شامل ہونے کا موقع ملا ہے اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں ہمارے سیاستدان اگر نہیں بھی بدلے تو قوم ضرور بدل رہی ہے اور اس قوم نے سوال کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ابھی سوال جائز ناجائز ہر طرح کے ہو رہے ہیں پر جلد ان کی سمت درست ہوجائے گی۔ اب ہمارے سیاستدان اپنی سمت ٹھیک کر لیں کہیں قوم انہی کے سامنے آگئی تو کوئی اس قوم کی نمایندگی کا دعوے دار نہیں رہے گا۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).