ففتھ جنریشن وار سے ہوشیار رہیں


سوشل میڈیا پر کیسے کیسے برے جملے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ ریاستی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ ملک کا سارا بجٹ فوج کھا جاتی ہے۔ فلاں مشرک، بدعتی ہے، کافر ہے، واجب القتل ہے۔ ایسے لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ یہ سندھی ہے، یہ مہاجر ہے، یہ پٹھان ہے، یہ ملک کا وفادار ہے، یہ ملک کا غدار ہے۔ پردہ عورت سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے، عورت جو چاہے کرے وہ مردوں سے کم نہیں وغیرہ۔

اس طرح کے بے شمار جملے اکثر و بیشتر ہمیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ (سوشل میڈیا) پر لکھے نظر آتے ہیں۔ خود کو دیسی لبرل یا سچا مسلمان ظاہر کرنے والے لوگ جو ”میری دیوار میری مرضی“ کہتے ہوئے بنا سوچے سمجھے کچھ بھی لکھتے اور شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ جانے انجانے میں دور حاضر کی خطرناک ترین جنگ ففتھ جنریشن وار کا آلہ کار بن رہے ہیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ سوشل میڈیا پر لکھی ہر تحریر پر بند آنکھوں سے ایمان لاتے ہوئے لاعلمی میں اس عالمی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ سوشل میڈیا پر چھوڑ دیا جاتا ہے جسے لے کر عوام میں اولاً بحث و مباحثہ ہوتا ہے بعد ازاں معمولی سی بات پر شروع ہوا یہ جھگڑا کفر کے فتوؤں، بے جا الزامات یہاں تک کہ قتل کی سنگین دھمکیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم لاعلم ہی رہتے ہیں اور صفحہ ہستی سے مٹادیے جاتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار کیا ہے؟

جنگ و جدل، وار، خون ریزی یہ الفاظ نئے نہیں ہیں۔ ان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی آدم و حوا کی۔ ابن آدم صدیوں سے زر، زن وزمین پر لڑتا اورجنگ کرتا آیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جنگ کے طریقہ کار میں تبدیلیاں ضرور آئی ہیں لیکن وجوہات آج بھی وہی ہیں۔ مورخین و ماہرین جنگ و جدل نے آغاز سے لے کر اب تک لڑے جانے والے معرکوں اور جنگوں کچھ اس طرح تقسیم کیا ہے۔

فرسٹ جنریشن وار، پہلی نسل کی وہ جنگ جس کی ابتدا حیات انسانی کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔ وہ جنگ جو رہائشی آبادی سے دور آمنے سامنے میدان کارزار میں لڑی جاتی تھی۔ جس میں ہتھیار تیر کمان، نیزے اور تلواریں ہوا کرتی تھیں۔

سیکنڈ جنریشن وار، انسان پہاڑوں سے نکل کر بستیوں میں آباد ہوا تو جنگی حکمت عملیوں میں بھی جدت آتی گئی۔ بندوقوں اور توپوں کی ایجاد کے بعد جو جنگیں ان سے لڑی گئیں انہیں سیکنڈ جنریشن وار میں شمار کیا جا تا ہے۔ توپوں اور بندوقوں کی ایجاد کے بعد سے پہلی جنگ عظیم تک جو جنگیں لڑی گئیں وہ سب سیکنڈ جنریشن وار میں شمار کی جاتی ہیں۔

تھرڈ جنریشن وار، جب ٹیکنالوجی کے ذریعے دیگر نیوکلئیر ہتھیار اور میزائل وجود میں آئے، جب نیوی اور فضائیہ کے ذریعے سے میلوں دور بمباری کرکے جنگیں کی جانیں لگیں تو ماہرین نے انہیں تھرڈ جنریشن وار کا نام دیا۔ دوسری جنگ عظیم اس کی مثال ہے۔

فورتھ جنریشن وار: تھرڈ جنریشن وار کی طرح فورتھ جنریشن وار بھی بم، میزائل، بارود وغیرہ سے لڑی جانے والی جنگیں ہیں۔

ففتھ جنریشن وار: موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے، جہاں اب کچھ بھی یقین سے پرے اور گمان سے باہر نہیں۔ آئے دن ہونے والی ایجادات ہمیں ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ہر کام اب چند کلکس کے ذریعے ممکن ہے تو دشمن نے بھی موجودہ دور کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے جنگ کے لیے اسی ٹیکنا لوجی کو ہتھیار بنایا اور ففتھ جنریشن وار کا آغاز کیا۔

ففتھ جنریشن وار ایک ایسی ان دیکھی جنگ جس میں دشمن کا نشانہ انسانی زندگی نہیں بلکہ افکار و نظریات ہیں۔ اس جنگ کو ہم پر مسلط کرکے وہ ہم سے ہماری تہذیب، ہمارے نظریات، ہمارے عقائد اور ہمارے اقدار چھیننے کے درپے ہے۔ جنہیں ہم بخوشی فراموش کرنے پر آمادہ ہیں۔ کل تک جو پردہ ہماری ماؤں بہنوں کا محافظ اور باپ بھائیوں کی غیرت ہوا کرتا تھا آج اسے دقیانوسیت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہہ کر خود سے دور کردیا گیا ہے۔ عورت مارچ اور عورت کی آزادی کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ لسانی و مذہبی تفرقے کو ہوا دی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ لسانی و مذہبی تفرقے کی بنا پر بھائی بھائی کا دشمن بنا بیٹھا ہے اور اس کی جان لینے کے درپے ہے۔

گستاخان رسول کی پشت پناہی کی جاتی ہے، ”میری زندگی، میری مرضی“ کے نام پر عریانیت و فحاشی کا بازار گرم ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں ذہنی طور پر اس قدر مفلوج کردیا گیا ہے کہ ہم اپنے ہی دفاعی اداروں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ہم اپنی ہی افواج سے حساب طلبی پر اتر آئے ہیں۔ ہمارے ذہنوں کو اس طریقہ کار سے مفلوج کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے ہی ملک و ملت، مذہب اور اپنے لوگوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔ کبھی فوج پر طنز کے نشتر برسائے جاتے ہیں تو کبھی حج و قربانی کو پیسے کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے۔ کبھی عورت کے حقوق کا رونا رویا جاتا ہے تو کبھی اقلیتوں کی پشت پناہی کا درس دیا جاتا ہے، کبھی سیاست کی آڑ میں تو کبھی لسانی تفریق سے لڑوایا جاتا ہے اور ہم خود کو لبرل، حب وطن ظاہر کرنے کے چکر میں اس ان دیکھی سازش کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار میں سوشل میڈیا مرکزی کردار ادا کر رہا ہے، کسی بھی سوشل اکاونٹ سے کوئی ایسی بات شئیر کردی جاتی ہے جو عوام میں اشتعال پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے اور عوام اسے دوسروں کے ساتھ شئیر کرکے تبصرے و تجزیے پیش کرتی ہے۔ اس طرح ایک لایعنی بات چند ہی گھنٹوں میں ٹرینڈ بن کر سامنے آتی ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم کسی غلط بات یا برائی کو پھیلا کر اس میں حصے دار بن رہے ہیں۔ ہم اس ٹرینڈ میں اپنا حصہ ڈالنا فرض سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی مخالفت و حمایت میں دو گروہ آمنے سامنے آجاتے ہیں اور ایک طویل بحث و مباحثے اور الزام تراشیوں کا سلسہ شروع ہوجاتا ہے۔

سد باب:

کسی بھی مسئلے کو جان لیناکافی نہیں ہوتا جب تک اس کے حل کی جانب پیش قدمی نہ کی جائے۔ ریاستی یا دفاعی اداروں کی جانب سے اس مسئلے کی روک تھام کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن چند ذمے داریاں جو بحیثیت مسلمان و پاکستانی شہری ہم پر بھی عائد ہوتی ہیں وہ ادا کرکے ہم خود کو اور اپنے قریبی لوگوں کو اس خطرناک نظریاتی جنگ کا آلہ کار بننے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی چیز بغیر تصدیق کے شئیر نہ کریں، کوئی آپ سے بلاوجہ الجھے یا بحث کرنے کی کوشش کرے تو اس سے الجھنے کی بجائے خاموشی اختیار کریں۔

اجنبی اکاؤنٹ کو فرینڈ لسٹ میں شامل کرنے یا گفتگو کرنے سے احتیاط کریں۔ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، ان کے دوستوں کے بارے میں مکمل معلومات رکھیں۔ انہیں شریک گفتگو کریں اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کریں۔ بنا سوچے سمجھے اور پڑھے بغیر کسی کی باتوں پر یقین نہ کریں۔ ان چند باتوں پر عمل کرکے ہم خود کو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کوففتھ جنریشن وار سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).