زہرا بتولؑ کی گود کا پالا، تین دن کا پیاسا حسینؑ


عاشورہ دس محرم کو زہرا بتولؑ کی گود کا پالا، رسول ﷺ کا نواسہ، تین دن کا پیاسا حسینؑ شہید ہوکر فتح مند ہوتے ہیں۔ عزیز ملک کی ”خون حسینؑ“ میں ہے کہ ”انصار اور اہل بیتؑ میں سے کوئی بھی حضرت امامؑ کی طرف سے لڑنے والا باقی نہ رہا۔ صبح عاشورہ سے دوپہر تک ان کی محفل میں مئے وحدت کی گردش رہی۔ پھر میخانہ عشق کے یہ متوالے نشہ سرمدی میں سرشار ہوکر ستاروں کی سمت پرواز کرگئے اور حسینؑ ابن علیؑ جس کے دم سے یہ بزم اب تک قائم تھی تنہا رہا گیا۔

حسینؑ نے اپنے خیمے پر ایک نظر ڈالی جہاں بقیہ خاندان ہاشمی بیٹھے تھے لیکن اب معصوم بچوں کے لبوں پر پیاس کی شکایت نہ تھی۔ پاک بیبیاں اپنے لاڈلوں کا خون دے کر صابرو شاکر تھیں۔ آفتاب رسالت کی کئی کرنیں بھری دوپہر میں ایک ایک کرکے امر ہوچکی تھیں۔ کوئی قیامت سی قیامت تھی لیکن اب تک بھی قیامت نے دم نہ لیا تھا۔ حسینؑ خیمے کے اندر تشریف لے گئے جہاں حریم نبوت کی معصوم شمع عابد بیمار حضرت امام زین العابدینؑ بستر پر لیٹے تھے۔

انہوں نے باوجود علالت عرض کیا“ بابا جان مجھے بھی اجازت عطا ہو کہ میں آپ کے سامنے لڑکر شہید ہو جاؤں ”۔ حسینؑ نے فرمایا“ جان پدر اب لے دے کر تم ہی تو آل عبا کے وارث اور رسول ﷺ کی یادگار رہ گئے ہو۔ تم سے ابھی بہت سے کام وابستہ ہیں اور تم کو بہت صبر کرنا ہے ”۔ آپؑ نے اپنی بہن زینبؑ سے تسلی آمیز کلمات کہے۔ بچوں کے سرپر دست شفقت پھیرا۔ پھر ایک چادر منگوائی، اسے پھاڑا اور گلے میں کفنی کی طرح پہن لیا۔ تلوار نیام سے نکالی۔

گھوڑے پر سوار ہوئے اور میدان کی طرف بڑھنے لگے۔ ادھر ادھر دیکھا تو خیموں کے پاس اہل بیتؑ کے شہیدوں کی لاشیں نظر آئیں۔ چچا زاد بھائی۔ حضرت حسنؑ کے لخت جگر پیاری بہن کے پھول سے بیٹے دیدہ ودل کا نور علی اکبرؑ و علی اصغرؑ۔ یہ عظیم جانیں میٹھی نیند سو رہی تھیں۔ ایک بھرپور کنبہ فرش خاک پر آسودہ تھا۔ گویا تھکے ماندے مسافر منزل پر پہنچ کر سستا رہے تھے۔ حسینؑ کی خاموش نگاہیں ان سے کہہ رہی تھیں“ اے آل ابی طالب!

تم پر سلام ہوکہ تم نے اپنا خون دے کر گلشن اسلام کو سینچا ہے۔ تم نے راہ طلب سے منہ نہیں موڑا۔ تم معرکے میں کام آئے اور تم نے خود اجڑ کر دنیا کو آباد کیا ہے۔ ٹھہرو کہ میں بھی تمہارے پاس آ رہا ہوں ”۔ خیموں سے ہٹ کر میدان میں ہرطرف انصار کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ حسینؑ نے ان وفاشعاروں کو دیکھا۔ ملت کے جانباز سرفروش جنہوں نے حق و باطل میں امتیاز کیا اور دنیا کے بدلے میں عقبیٰ کا سودا کر لیا۔ اے حر بن ریاحی آخری وقت میں سعادت مندی نے تیرا ساتھ دیا۔

اے مسلم بن عوسجہ، اے عبداللہ بن عمیر کلبی آج فرشتوں کو تمہاری قسمت پررشک ہے۔ اے حبیب بن مظاہر تم مہرووفا کے مظہر ہو۔ حنظلہ بن سعد اور زہیر بن القین تم بالیقین زندہ جاوید ہو۔ حسینؑ نے دیکھا تاحد نظر دشمن کے ان گنت سپاہی ان کے منتظر ہیں۔ نعروں کا زور، باجوں کا شور، دف اورتالیوں کی بے ہنگم صداؤں سے زمین کا سینہ دہل رہا تھا۔ تیر اندازوں کے دستے چاق و چوبند ہیں۔ گھڑ سواروں کی قطاریں الگ ہیں اور پیدل دستے الگ۔

شمشیر گیروں کے تیغے کھلی دھوپ میں چمک رہے ہیں۔ نیزوں کے منہ سیدھے ہیں۔ افسران سپاہ کی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں۔ شمرمردود دندناتا پھرتا ہے۔ ہوا ساکت، فضا غبار آلود اور سورج سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ زمین و آسمان تپ رہے ہیں۔ یہ ماحول ہے اور ابن علیؑ، زہرابتولؑ کی گود کا پالا، رسول ﷺ کا نواسہ اور تین دن کا پیاسا حسینؑ دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہے۔ اگرچہ بے یارو مددگار ہے، اگرچہ اس کے انصار اور عزیزو اقربا دنیا سے رخصت ہو چکے اور ان کا خون اس کے سامنے بہایا گیا اور ان پیاروں کی یاد میں اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سارے آنسو پی لئے لیکن صدمات کی یورش کے باوجود اسے جنگ کرنے کا حوصلہ ہے۔

اس کے چہرے پر اطمینان کامل اور ثابت قدمی و جرات اس کے جلو میں ہے۔ وہ اپنے انجام سے بے خبر نہیں۔ اسے اس مصیبت کا بھی احساس ہے جس سے اس کے اہل بیتؑ اور بچے آج شام سے پہلے دوچار ہونے والے ہیں۔ ادھر کوفی مسلمانوں کے دل میں اپنی جگہ ایک خوف مسلط ہے کہ عہدو اقرار سے پھرکر انہوں نے عاقبت ہی ڈبو لی۔ اہل بیت رسول ﷺ کے قتل کا جرم ان کی مجرمانہ ذہنیتوں پر قابوس بن کر چھا رہا ہے۔ تنہا حسینؑ کے مقابلے میں بائیس ہزار یزیدی فوج بے طرح کانپ رہی ہے اور کوئی سامنے آنے کی جرات نہیں کرتا۔

یہ رنگ دیکھ کر عمرو بن سعد نے انس بن سنان کو جو اس بھرے لشکر میں اپنی شجاعت کی وجہ سے ممتاز تھا حکم دیا کہ حسینؑ سے جنگ کرے۔ وہ آگے بڑھا اور چشم زدن میں برچھی کے ایک ہی وار سے فی النار ہوگیا۔ انس کا بھائی تلملا کر حملہ آور ہوا لیکن حسینؑ کی خون آشام تلوار نے اسے بھی بھائی کے پیچھے روانہ کر دیا۔ یوں سات پہلوان یکے بعد دیگرے میدان میں اترے اور چاروں شانے چت ہوگئے۔ جونہی آپؑ کی تلوار چمکتی، لشکر یزید بادل کے ٹکڑوں کی طرح کٹ کر چھٹ جاتا۔

ایک تیر آپؑ کی گردن کو زخمی کرتا ہوا گزر گیا۔ خون کا فوارہ بہہ نکلا۔ ساقی کوثر ﷺ کے نواسے ؑ کو شاید پانی پیئے بغیر ہی جنگ لڑنا تھی۔ لشکر یزید کے سربراہ نے سوچا کہ انفرادی جنگ سے ہاشمی شیر کو زیر کرنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ چنانچہ اس نے فوج کو چاروں طرف سے حملے کا حکم دیا۔ تیروں کی بارش ہونے لگی۔ گھوڑا بھی زخمی ہوگیا۔ حسینؑ بھی زخموں سے چھلنی ہوگئے اور گھوڑے سے اتر آئے۔ شمرمردود کے حکم سے چھ یزیدیوں نے آپ کے گرد حلقہ باندھ لیا اور زرعہ بن شریک نے آپ کے بائیں بازو پر تلوار کا وار کرکے ہاتھ کاٹ دیا جس سے بے حد خون بہہ گیا اور حسینؑ نڈھال ہوگئے لیکن پھر بھی کسی کو قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی۔

اس دوران ابن علیؑ، زہرابتولؑ کی گود کا پالا، رسول ﷺ کا نواسہ اور تین دن کا پیاسا حسینؑ نماز کے سجدے میں چلا گیا۔ شمرمردود نے اپنے ساتھیوں سے کہا اب دیکھتے کیا ہو، ہمت کرو اور کام تمام کرڈالو۔ چاروں اطراف سے تیر برس رہے تھے۔ ایک تیر آپؑ کے تالو سے پار ہوگیا۔ شمرمردود نے چہرہ اقدس پر تلوار ماری اور سنان بن انس نخی نے نیزہ مارا۔ خولی بن یزید سر کاٹنے کے لئے گھوڑے سے اترا لیکن اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ پھر سراقدس تن سے جدا کر دیا گیا اور بیس گھڑ سواروں نے جسد مبارک کو پامال کیا۔

شہادت کے وقت جب شمرمردود نے تلوار چلائی تو حضرت امام حسینؑ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا“ سچاہے اللہ اور اس کا رسول ﷺ ۔ میرے نانا ﷺ نے فرمایا تھا، میں ایک ابلق کتے کو دیکھتا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ ڈالتا ہے ”۔ ابلق کتے کا اشارہ شمرمردود کے مبروص ہونے کی طرف ہے۔ اس کے بدن پر پھلبہری کے سفید داغ تھے۔ حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے وقت ان کے جسم اطہر پر نیزے کی 33 ضربیں اور 34 زخم دوسرے ہتھیاروں کے تھے“ ۔

علامہ شبلی نعمانی اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”سیرۃ النبی ﷺ“ میں لکھتے ہیں کہ ”آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے“ حسینؑ میرا ہے اور میں حسینؑ کا ہوں، خدا اس سے محبت رکھے جو حسینؑ سے محبت رکھتا ہے ”۔ ایک دفعہ امام حسینؑ دوش مبارک پر سوار تھے۔ کسی نے کہا کیا سواری ہاتھ آئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا سوار بھی کیسا ہے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ کہیں دعوت میں جا رہے تھے۔ امام حسینؑ راہ میں کھیل رہے تھے۔ آپ ﷺ نے آگے بڑھ کر ہاتھ پھیلا دیے۔ وہ ہنستے ہوئے پاس آآکر نکل جاتے تھے۔

بالآخر آپ ﷺ نے ان کو پکڑ لیا۔ ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی پر اور ایک سرپر رکھ کر سینے سے لپٹا لیا۔ پھر فرمایا“ حسینؑ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ”۔ اکثر امام حسینؑ کو گود میں لیتے اور ان کے منہ میں منہ ڈالتے اور فرماتے کہ“ خدایا میں اس کو چاہتا ہوں اور اس کو بھی چاہتا ہوں جو اس کو چاہے ”۔ یہ سب کچھ اللہ کے آخری نبی سرور کونین حضرت محمد ﷺ نے صرف اس کے لئے کہا جو ابن علیؑ، زہرا بتولؑ کی گود کا پالا، رسول ﷺ کا نواسہ اور تین دن کا پیاسا حسینؑ تھا جسے کربلا میں یزیدیوں نے بے دردی سے شہید کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).