چھوٹے شہر کا بڑا آدمی


آصف نور سے پہلی ملاقات گورنمنٹ ہائی اسکول شجاع آباد کی فیئر ویل پارٹی میں ہوئی۔ چونکہ میں ایک گھوسٹ سٹوڈنٹ تھا اور پہلی بار سکول آیا تھا، لہذا وہ میرے نام سے آشنا تھا مگر میری شکل سے واقف نہ تھا۔ نیر مصطفی جیسے بھاری بھرکم اور بارعب نام کی مناسبت سے اس نے ایک طویل قامت نوجوان کی شبیہ بنا رکھی تھی۔ ایک کم رو اور پستہ قامت لمڈے کو دیکھ کر کافی مایوس ہوا۔ میرے ذہن میں بھی اس کے نام کو لے کر ایک خوب رو لڑکے کا تصور تھا جو اسے دیکھتے ہی پاش پاش ہو گیا۔

میرا بس چلتا تو وہیں کھڑے کھڑے اس کا نام تبدیل کر دیتا کہ آصف نور جیسے مکھن ملائی اسم کا ایسے کھردرے اور وحوش آدمی سے کیا تعلق، مگر جونہی وہ سٹیج پر آیا اور اس نے الوداعی تقریر شروع کی تو ایک دم مجھے حسد اور رشک کے ملے جلے جذبات نے گھیر لیا کہ اس کی آواز کے زیروبم میں کچھ ایسا جادو تھا، جو سننے والے کو ہیپناٹائز کر سکتا تھا۔

حسد محبت کی قینچی ہے لہٰذا پہلی ہی ملاقات میں ہم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اوردشمنی کا یہ سلسلہ کم وبیش ایک سال تک جاری و ساری رہا۔ ایمرسن کالج میں ایک ہی کلاس کے ایک ہی بینچ پر بیٹھے رہتے، مگر آپس میں بات چیت نہ ہوتی۔ کبھی کبھارکوئی مشترکہ دوست ساتھ آ بیٹھتا تو ایک ادھ جملے کا تبادلہ کر لیتے، جو بالعموم طنزیہ ہوتا۔ پھر ایک روز اس نے مجھ سے فزکس پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو یکایک میری بیمارانا کوتسکین مل گئی۔

میں نے اسے فزکس پڑھائی اوراس سے بائیالوجی پڑھی۔ جونہی موقع ملتا اسے اپنی ایک آدھ بے وزن اور بے ہودہ غزل سنا کر داد طلب نگاہوں سے دیکھتا۔ اس نے کبھی مجھے مایوس نہیں کیا۔ شعر سمجھ آ جاتا تو کھل کر داد دیتا۔ نہ سمجھ اتا تو زیادہ کھل کر داد دیتا۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور ملاقات ہوتی۔ ان دنوں میرا پڑاو شجاعباد ہاؤس میں تھا جو کشمیر چوک اور کوڑیوالہ کے عظیم الشان کھڈے کے عین وسط میں واقع ایک چھوٹا سا ہوسٹل تھا، جہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سارے ملنگ اور ہپی رہتے تھے۔

جناب مدھر ملک، استاد صفدرعباس، بلال مئیو، مجاہد بھائی، سلیم بھائی، سیف اللہ سکھیو اور ملک رفیق سے پہلا تعارف اسی ہوسٹل میں ہوا۔ ڈاکٹر وجاہت شاہ عرف چوہدری دلاور (شکاری مارکہ) حافظ جواد الرحمان (امریکہ والے ) اور جناب آصف نور، شجاعباد ہاؤس کے اعزازی ممبران تھے۔ میں سمجھتا ہوں زندگی کا سب سے حسین اور دلکش دور وہی تھا، جب میں نے پہلی اور آخری بار خود کو ایک جنگلی پرندے کی طرح آزاد محسوس کیا۔ بے ساختگی کایہ عالم تھا کہ من کی تال پر ناچتے پھرتے تھے۔ جو جی میں آتا وہی کرتے۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ آصف نور کے وسیلے اعجاز بھائی سے ملاقات ہوئی جو ٹبہ ہاؤس کے کنگ اور عثمان آباد کی معروف سماجی شخصیت تھے۔ رضوان شریف، راجا بھائی، مدثر بھارا اور حماد رسول سے پہلی ملاقات بھی اسی ٹبہ ہاؤس میں ہوئی، جن سے بعد میں ایک دیرینہ تعلق استوار ہوا۔

آصف نور اپنی تعلیمی قابلیت، رومان پسندی اور پھپھوندی زدہ حس مزاح کی وجہ سے ایمرسن کالج کے شجاع آبادی و غیر شجاع آبادی ونگ میں کافی معروف تھا۔ اساتذہ سے بھی اس کی خوب گاڑھی چھنتی۔ جناب سعید جعفری ہم سب کے فیوریٹ تھے مگر ان کا فیوریٹ آصف نور تھا۔ کبھی کبھی اس سے جلن ہوتی، کبھی کبھی اس پر پیار آتا۔

قسمت کا دھنی تھا۔ فرسٹ ائر میں ری چیکنگ کروائی تو 33 اور سیکنڈ ائر میں ری چیکنگ کروانے پر 10 نمبر بڑھ گئے۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ملتان کو کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی نقصان الگ ہوا۔ وجاہت شاہ المعروف چوہدری دلاور (شکاری مارکہ) کا خیال تھا کہ اگر ایف ایس سی دو کے بجائے پانچ سال پر مشتمل ہوتی تو ایک اکیلا آصف نور پورے ملتان بورڈ کو دیوالیہ کر دیتا۔

ایف ایس سی کے بعدانٹری ٹیسٹ کی تیاری بھی ہم نے اکٹھے کی۔ ڈاکٹر اللہ داد کی بارگاہ میں حاضری دیتے جہاں تیاری کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی میسر آتیں۔ ڈاکٹر اے۔ ڈی ایک فرد نہیں، ایک ادارے کا نام تھا۔ انہوں نے ایسی شاندار کوچنگ کی کہ کے ای کو چھوڑ کر پنجاب کے ہر میڈیکل کالج کا میرٹ بن گیامگر ہم نے نشتر کو ترجیح دی کہ اس کے آگے سوچ کے پر جلتے تھے۔

نشتر میں ایک فیری ٹیلز جیسی زندگی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ ہم نے اپنی ہوا میں رہنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ہماری بدقسمتی کہ جب لوگ ٹیبیا، فیبولا، فیمر، ریڈیس اور النا کے وسیلے اپنی اپنی ذات کی توسیع کر رہے تھے، ہم نے اسی کام کے لئے سٹیج کا انتخاب کر لیا۔ چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں اور ملکوں میں ہجرت کرنے والوں کا سب سے بڑا المیہ، شناخت کا بحران ہے۔ زیادہ تر لوگ اس کمپلیکس کو اپنی ذات کا حصہ بنا کر اس کے ساتھ نباہ کر لیتے ہیں۔ ہم نے مگر ’گمنامی کی سو سالہ حیات پر شہرت کے ایک دن کو مقدم جانا‘ اور لائم لائٹ کے تعاقب میں نکل پڑے۔

لائم لائٹ میں رہنے کی خواہش انسان کو دیوانہ وار دوڑاتی ہے۔ یم بھی خوب دوڑے۔ جلدہی میری سانس پھول گئی اور میں تھک کر گر پڑامگر آصف نور دوڑتا رہا۔ لوگ ہنستے ریے مگر وہ دوڑتا رہا۔ بالشتیوں کا ایک ہجوم اس کی ذات کی نفی کرتا رہامگر وہ دوڑتا رہا۔ دوڑ ختم ہوئی تو وہ ایک ناکام میڈیکل سٹوڈنٹ قرار پایا کہ جس نے پانچ سال کی ڈگری چھ سال میں پوری کی تھی مگر ان چھ سالوں میں اس نے بے تحاشا شہرت اور بدنامی کمائی۔ کالج کا بچہ بچہ اسے جانتا تھا۔

لڑکیاں اسے دیکھتے ہی دوپٹے درست کرنے لگ جاتیں۔ لڑکے سگریٹیں چھپا لیتے۔ پروفیسر اسے بکڑا ڈال کر ملتے۔ وہ پہلی بار کالج کا بیسٹ ڈبیٹر بنا تو کسی کو یقین نہ آیا۔ عوام الناس کی متفقہ رائے تھی کہ اندھے کے ہاتھ میں بٹیر آ گیا۔ کہاں پبلک اسکولوں اور کیڈٹ کالجوں کے پروردہ اور کہاں ایک ٹاٹ سکول کا لونڈا۔ وہ اتنا جذباتی ہوا کہ اگلے دو سال تک ہر اردو، انگریزی اور سرائیکی تقریری مقابلہ اسی نے جیتا، اور ابھی مزید بھی جیتتا اگر کالج انتظامیہ اسے پرائڈآف پرفارمنس دے کر اس کا منہ نہ بند کر دیتی۔

آصف نورنے ہر وہ کام کیا جو میں نے کرنے کا سوچا مگر کر نہیں پایا۔ اس کی خوداعتمادی اور استقلال پر رشک آتا ہے کہ اس کا دسواں حصہ بھی میسر آ جاتا تو زندگی بن جاتی۔ عامر سلیم کے دکھی گیت جب وہ اپنی دکھیاری آواز میں گنگناتا تو سامعین میں غم و غصے کی ایک شدید لہر دوڑ جاتی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ عوام کی پر زور فرمائش پر اس کا مائیک بند کرنا پڑا۔ وہ ایک عمدہ خطیب، برا گلوکار اور بدترین اداکار تھا۔ ایک آدھ بار اس نے رقص بھی کیا جو رقص سے کہیں زیادہ رقص بسمل ثابت ہوا۔ کالج کے آخری دنوں میں اس نے ایف ایم جوائن کر لیا تو اس کی شہرت کا دائرہ چالیس کلومیٹر تک پھیل گیا۔

اس سے زیادہ شہرت اسے چاہیے بھی نہیں تھی۔ چھوٹے شہر سے ہجرت کر کے آنے والے بڑے آدمی نے مائیک آف کیا اور اسٹیج سے نیچے اتر آیا۔ پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی کی۔ جناح ہسپتال لاہور گیا۔ شوکت خانم میں جاب کی۔ سرجری میں ایف سی پی ایس کیا۔ اونکالوجی میں ایف سی پی ایس کیا۔ ایک کے بعد ایک ڈگری۔ ایک کے بعد ایک میڈل۔ اس کے ساتھ بھاگنے والے تھک ہار کر گر چکے ہیں لیکن وہ اب بھی دوڑ رہا ہے۔ اس بار جب دوڑ ختم ہوگی تو آصف نور پاکستان کے بہترین سرجنز میں سے ایک ہوگا۔ ٹاٹ اسکول کا پھٹیچر لونڈا ایک بار پھر بازی لے جائے گا!

۔ ۔

آصف نور ایک کلاسیکل برانڈ کا نام ہے جس کی قدر و منزلت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بڑھتی ہے۔ وہ ان معدودے چند لوگوں میں سے ہے جو عملیت پسند اور دنیادار ہونے کے باوجود وضع داری اور انسان دوستی کا ابتدائی پہاڑہ یاد رکھتے ہیں۔ کہنے کو وہ ایک سادہ لوح آدمی ہے، مگر اسے احمق سمجھنے کی غلطی مت کیجئے کہ اس کی سادہ لوحی کا منبع لوک دانش کی وہ درخشاں روایت ہے، جو سمجھدار لگنے سے کہیں زیادہ، سمجھدار ہونے پر زور دیتی ہے۔

میں نے کئی بار اسے احمق سمجھنے کی غلطی کی اور ہر بار منہ کی کھائی۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ نشترسے ایکسپیل ہونے کے بعد بھی سٹوڈنٹ ویکس، بون فائرز، فن فئیرز اور کلاس فنکشنز کی رونقیں اپنی جانب بلاتیں تو میں انکار نہ کر پاتا۔ یہاں تک تو چلو پھر بھی ٹھیک تھا۔ برا یہ ہوا کہ ٹرپز پر بھی جانا شروع کر دیا۔ جب اڑھائی سو لوگوں کی پانچ سو آنکھوں میں اپنے لیے حقارت اور رحم دکھائی دیتا تو بدن کا روں روں غصے سے پھڑکنے لگتا۔

غصے کی آگ رگوں میں بجلی بن کر دوڑنے لگتی تو مردہ شریانوں میں جان سی آ جاتی۔ مجھے یوں لگتا جیسے یہ ”می ورسز دا ہول ورلڈ“ ہو اور میں نے زندگی بھر ایسے ہی کسی لمحے کا انتظار کیا ہو۔ آصف نور نے بہتیرا سمجھایا کہ زخم کھرچنے سے ناسور بن جاتے ہیں مگر میں نے اسے احمق جان کر اس کی بات ہوا میں اڑا دی۔ جب کبھی اس کا لیکچر زیادہ طویل ہونے لگتاتو میں آنکھیں موندے فیر ویل نائٹ کا تصور شروع کر دیتا۔

تصور کی آنکھ سے دیکھتا کہ سٹیج سج چکا ہے۔ فورتھ ائر کے جونئیرز مہمانوں کو ریسیو کر رہے ہیں۔ نوبجے کے لگ بھگ پروگرام شروع ہوتاتو سپاٹ لائٹس آن کر دی جاتیں۔ ٹائٹل لینے والے باری باری فلور پر آتے اور دکھ اور خوشی کے ملے جلے احساس سے اپنے باقی ساتھیوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتے۔ ہمیشہ ساتھ رہنے کی قسمیں کھائی جاتیں۔ جلد ملنے کے وعدے کیے جاتے۔ سیشن میں عمدہ کارکردگی دکھانے والوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا۔ کسی بھی حوالے سے معروف طلبہ و طالبات کی پیروڈی کی جاتی۔ میں آخری سیٹ پر تنہا بیٹھا رہتا!

2006 سے فیر ویل نائٹ کا انتظار شروع کیا تو 2009 آ گیا۔ اصلی فیرویل نائٹ میرے تصور سے کافی مختلف تھی۔ چیف آرگنائزرز، مبشر اور فواد نے باقاعدہ مجھے مدعو کیا۔ اسٹیج پر بلا کر ٹائٹل بھی دیا۔ میرے کچھ کلاس فیلوز اور جونیئرز کے مابین اس معاملے کو لے کرخوب دھینگا مشتی ہوئی۔ ڈاکٹر ہارون خورشید پاشا کی بروقت مداخلت سے معاملہ حل ہوا تو سیکنڈ ائر کا علی ساجد امامی اسٹیج پر آیا اور میرا ایک مونولوگ پرفارم کرنے لگا، جو میں نے ڈیڑھ سال قبل یونیورسٹی میں پرفارم کیا تھا۔ سینئرز اور جونیئرز کے درمیان ایک بار پھر مکہ مکی ہوئی اور آدھے ڈرامے کے دوران پردے گرا دیے گئے۔ ایک دم مجھے اپنے جونیئرز پر بے تحاشا پیار آیا جنہوں نے ایک گھوسٹ اسٹوڈنٹ کے لیے اتنا اہتمام کیا تھا۔ پھر اچانک مجھے آصف نور کا خیال آیا تو تن بدن میں آگ سی لگ گئی:

”یہ سب تو نے کیا ہے سالے؟“ میں نے ہال سے باہر نکلتے ہی اس کا گریبان پکڑ لیا۔
”ہمبے!“ اس نے اپنے جرم کی شدت کم کرنے کے لیے اپنی مادری زبان (میواتی) کا سہارا لیا۔
”مگر کیوں یار؟ آخر کیوں؟“
”کیونکہ مجھے ڈر تھا اس بار تم ٹوٹ جاؤ گے اور پھر کبھی نہیں جڑو گے!“
۔ ۔

وہ اب بھی میرا دوست ہے لیکن ہم ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ زندگی اتنی مشینی ہو گئی ہے کہ اکثر مجھے اس کی یاد بھی نہیں آتی۔ میں اب بھی کبھی کبھار اپنے زخم کھرچتا ہوں لیکن انکھ کا چھالا، روشنی کا ہالہ نہیں بن پاتا۔ اس کی سیان پتی نے مجھ سے میری زندگی کی سب سے سرور انگیز رات چھین لی ہے اور اس کے لیے میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).