محمد عامر، جو ایک عظیم کھلاڑی نہ بن سکا۔


2009 کا ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ تھا۔ جس کے میچز پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 14 کے ٹی وی روم میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم میں اس ورلڈ کپ کے لیے ایک سترہ سالہ فاسٹ باولر کو شامل کیا گیا تھا۔ لمبے بالوں والے اور دبلے پتلے سے اس نوجوان فاسٹ باولر کا نام محمد عامر تھا۔ جس پر مجھ جیسے کئی کرکٹ کے چاہنے والوں کی نظر تھی۔ کیونکہ بائیں ہاتھ سے باولنگ کروانے والے اس نوجوان کے بارے ہمارے لیجنڈری فاسٹ باولر وسیم اکرم کہہ چکے تھے کہ یہ نوجوان ان سے بھی آگے جاسکتا تھا۔ تو اس نوجوان نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں عمدہ باولنگ کروا کر دنیائے کرکٹ پر اپنی آمد کا اعلان کر دیا تھا۔ جس میں اس کی ورلڈ کپ کے فائنل میں شاندار پرفارمنس بھی شامل تھی۔

اس عمدہ کارکردگی کی وجہ سے محمد عامر کو فوراً ہی پاکستان کرکٹ کی ون ڈے اور ٹیسٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اور مجھے جیسے کرکٹ کے پرستار اس پر بہت خوش تھے۔ کیونکہ وہ بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ خاص طور پر 2010 میں انگلینڈ میں جو اس نے آسٹریلیا کے خلاف دو ٹیسٹ میچز میں لاجواب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے مجھے محمد عامر کا مداح بنا دیا تھا۔ عامر نے وہاں انگلینڈ کے خلاف بھی ویسی ہی لاجواب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تب ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ وسیم اکرم کی پشین گوئی درست ثابت ہو جائے گی۔ لیکن پھر اچانک اسی سیریز میں ہی ایک ایسی خبر آئی جس نے مجھ سمیت محمد عامر کے تمام مداحوں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیا۔

وہ خبر محمد عامر کا اس وقت کے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹیسٹ کپتان سلمان بٹ اور فاسٹ باولر محمد آصف کے ساتھ سپاٹ فکسنگ ملوث پایا جانا تھا۔ جس کی وجہ سے محمد عامر پر ہر طرح کی کرکٹ کھیلنے کے لیے پانچ سال کی پابندی لگادی گئی۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا دکھ تھا کہ ایک بہت ہی ٹیلنٹڈ فاسٹ باولر جو کہ ایک پوری دنیائے کرکٹ پر راج کرنے والا تھا، کس طرح سپاٹ فکسنگ کے اس میں جال میں پھنس گیا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ مجھے غصہ بھی تھا کہ اس نے اگر ایسا کیا تھا تو اسے درست سزا ملی تھی۔ اور اس کو دوبارہ سے کرکٹ کی دنیا میں واپس آنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی ادراک بھی تھا کہ پانچ سال کی پابندی پوری ہونے پر محمد عامر ذہنی اور جسمانی طور پر اس قابل ہی نہیں ہوگا کہ وہ کرکٹ کے میدانوں میں واپسی آ سکے۔

مگر محمد عامر نے کمال ہمت کا مظاہرہ کیا۔ اور بہت اچھے طریقے سے اپنی سزا کاٹی۔ جس کے بعد عالمی کرکٹ میں اس کے بارے میں ہمدردی پیدا ہونا شروع ہوئی کہ اسے چھوٹی عمر کی وجہ سے دوسرا موقع ملنا چاہیے۔ حالانکہ کرکٹ کے کھیل میں ایک فاسٹ باولر کے لیے اتنے عرصہ کھیل کے میدان سے باہر رہنے کے بعد دوسرا موقع ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ مگر اپنے بے شمار چاہنے والوں، دنیائے کرکٹ کے اہم کھلاڑیوں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی سپورٹ کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بالآخر محمد عامر کو دوبارہ صرف ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2015 میں جب محمد عامر نے اپنے پہلے ڈومیسٹک میچ میں حصہ لیا تھا۔

تب اس میچ کی ویڈیو بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر دیکھی تھی۔ بہت سے لوگوں کی سوچ کے بر عکس اس نے اپنے کم بیک میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس کو قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کرنا ابھی بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔ کیونکہ قومی کرکٹ کے کچھ کھلاڑیوں اور کچھ سابق کھلاڑیوں نے محمد عامر کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرنے کی مخالفت کردی تھی۔ مگر پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی کوششوں سے یہ مشکل مرحلہ بھی عبور کر لیا تھا۔ جس میں اس کی پی ایس ایل اور بی پی ایل کی کارکردگی شامل تھی۔ محمد عامر کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں تو شامل کر لیا گیا تھا۔ مگر اس کے لیے ابھی بھی ایک اور بہت ہی مشکل مرحلہ کا سامنا کرنا شامل تھا۔ وہ مشکل مرحلہ انگلینڈ کے ہی خلاف انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ میں واپسی کرنا تھا۔

کیونکہ 2010 میں اس نے سپاٹ فکسنگ کا جرم بھی انگلینڈ میں ہی کیا تھا۔ اسی ذہنی دباؤ کی وجہ سے میچ سے پہلے وہ پوری رات نہیں سو سکا تھا۔ لیکن جب اس نے دوبارہ لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں اپنے قدم رکھے تو دنیائے کرکٹ نے اس کو کھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ اور اس کی واپسی کا خیر مقدم کیا۔ جس کی وجہ سے اس نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اور پاکستان انگلینڈ کی سرزمین پر وہ ٹیسٹ سیریز ڈرا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ محمد عامر نے اپنی عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کی ایک بات جس نے اسے اپنے باقی ہم عصر باولرز سے ممتاز بنایا وہ اہم ٹورنامنٹس میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا تھا۔

اس کا ثبوت محمد عامر کی ایشیا کپ 2016، چیمپئنز ٹرافی 2017 اور ورلڈ کپ 2019 میں شاندار کارکردگی شامل تھی۔ خاص طور پر چیمپئنز ٹرافی 2017 کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کے خلاف لاجواب کارکردگی کسے بھول سکتی ہے جس کی بدولت ہی پاکستان کرکٹ ٹیم نے وہ ٹورنامنٹ جیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف کرکٹ لیگز میں بھی اپنا لوہا منواتا رہا۔ مگر پھر 24 جولائی 2019 کو محمد عامر نے ایک حیران کردینے والا فیصلہ لیا۔ یہ فیصلہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا تھا۔ 2010 کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب میں محمد عامر سے مایوس ہوا۔ کیونکہ میری نظر میں ایک کھلاڑی اپنے ملک کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل کر ہی عظیم کھلاڑی بن سکتا ہے۔ اور اس کی تو ابھی عمر بھی بہت زیادہ نہیں ہوئی تھی۔

اس نے جب ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو تب اس نے صرف 36 ٹیسٹ میچز ہی کھیلے تھے۔ عامر نے اپنے اس فیصلے کی توجیح اپنے اوپر بہت زیادہ کام کا دباؤ بتائی۔ مگر میری نظر میں اس کا یہ فیصلہ ماسوائے ملک پر پیسے کو ترجیح دینا کے کچھ نہیں تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں بلا شبہ اتنا پیسہ نہیں ملتا جتنا آپ ٹی ٹونٹی لیگز کھیل کر کما سکتے ہیں۔ مگر کسی بھی کھلاڑی کو عزت تو اپنے ملک کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل کر ہی ملتی ہے۔ انگلینڈ کے باولر جیمز اینڈرسن جنھوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی ٹیسٹ کرکٹ میں چھ سو وکٹیں حاصل کرنے سنگ میل عبور کیا ہے۔ اس کی ایک مثال ہیں۔ اینڈرسن نے صرف اپنے ملک کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے محدود اوور کی کرکٹ سے خود کو الگ کر لیا تھا اور چالیس برس کی عمر میں بھی اپنے ملک کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں لاجواب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے ان کو ایک عظیم کھلاڑی کا مقام حاصل ہوا ہے۔ لیکن اس کے برعکس محمد عامر نے اس وقت اپنی ٹیسٹ ٹیم کو چھوڑا جب اسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ کیونکہ اور کوئی تجربہ کار باولر اس وقت پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں موجود نہیں تھا۔ جس کا خمیازہ بھی پاکستان ٹیسٹ ٹیم نے بھگتا۔ محمد عامر کے اس فیصلے پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے تھوڑی ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ جو کہ جائز بھی تھا۔ کیونکہ جس ملک کی عزت کو محمد عامر نے خاک میں ملایا تھا اسی کے مداحوں اور کرکٹ بورڈ نے اس کے مشکل ترین وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن پھر بھی اس کو ون ڈے اور ٹی ٹونٹی ٹیموں میں برقرار رکھا گیا۔

ہاں پہلے ایک سیریز اور اب نیوزی لینڈ کے دورہ کے لیے اس کی جگہ نوجوان فاسٹ باولرز کو موقع دیا گیا۔ جس کی وجہ اس کی کارکردگی میں پہلے جیسا تسلسل نہ ہونا بھی شامل ہے۔ لیکن اس نے کل محدود اورز کی کرکٹ سے بھی ریٹائرمنٹ کا ایک غیر متوقع اعلان کر دیا۔ اور اس کی وجہ ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے دیا جانے والا ذہنی دباؤ قرار دیا۔ محمد عامر کے اس فیصلے سے بھی مجھے شدید مایوسی ہوئی۔ کیونکہ اس کا یہ فیصلہ بھی ملک پر پیسے کو ترجیح دینے کے مترادف ہے۔ جو شاید وہ اب انگلینڈ میں مستقل طور پر رہ کر کاونٹی کرکٹ اور مختلف دیگر لیگز کھیل کر ضرور کما لے گا۔ مگر ایسے فیصلے لیتے ہوئے اس نے اپنے ملک، اپنے پرستاروں اور کرکٹ بورڈ کے بارے میں ذرا نہیں سوچا۔ یہ سب وہ ہیں جنہوں نے اسے اتنا سپورٹ کیا جتنا کسی کھلاڑی کو کم ہی سپورٹ کیا گیا ہوگا۔

اس نے ملک کی عزت خاک میں ملائی۔ مگر ان سب نے اسے نا صرف دوسرا موقع دیا بلکہ اس کے مشکل ترین حالات میں ساتھ بھی بہت دیا۔ لیکن وہ موصوف ذہنی دباؤ کا عذر پیش کر رہے ہیں۔ کیا سپاٹ فکسنگ کے بعد کے حالات سے اب زیادہ ذہنی دباؤ تھا؟ جو آپ کو ایسا فیصلہ لینا پڑ گیا۔ اب اگر موصوف اپنا یہ فیصلہ تبدیل بھی کرتے ہیں تو کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ کو اسے ٹیم میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔ اور جناب کو لیگز ہی کھیلنے دینا چاہیے۔

جہاں مجھ جیسے اس کے مداح اسے کھیلتا ہوئے دیکھ لیں گے۔ مگر یہ افسوس اور دکھ ضرور رہے گا۔ کہ اسے پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلتا ہوا نہیں دیکھ پائیں گے۔ اور جس دبلے پتلے اور لمبے بالوں والے نوجوان کے بارے میں 2007 میں وسیم اکرم نے کہا تھا کہ وہ ایک عظیم کھلاڑی بن سکتا تھا۔ وہ دوسرا موقع ملنے اور اتنی سپورٹ ملنے کے باوجود بھی عظیم نہ بن سکا۔ کیونکہ اس نے شاید ملک پر پیسے کو ترجیح دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments