وزیر آباد کا نباض حکیم اور ہمارے کپتان


معروف رائٹر حفیظ خاں سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اک عمر عدلیہ میں گزری۔ زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ ان کے اک ناول کا نام ”انواسی“ ہے۔ تیسرا حصہ ناول پڑھنے پر بھی جب لفظ انواسی کے معنی پلے نہ پڑے تو صاحب کتاب سے رجوع کیا۔ وہ اس لفظ کے معنی بتانے لگے۔ یہ لفظ سنسکرت سے ہندی میں آیا ہے۔ وہاں سے یہ اردو میں پہنچا۔ اس کے معنی مسلسل جنسی زیادتی کی شکار عورت ہے۔ کالم نگار سوچنے لگا۔ جسمانی تشدد صرف جسم کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ لیکن جنسی تشدد سے جسم اور روح دونوں گھائل ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی عوام ”انواسی“ ہی تو ہیں۔ حضرت قائد اعظمؒ کے بعد کسی نے ہماری خبر نہیں لی۔

وہ جو بچھڑا تو پھر سحر نہ ہوئی

رات ہی ہوتی گئی ہر رات کے بعد

’نوائے وقت‘ کی معزز خاتون کالم نگار محترمہ بلقیس ریاض نے اپنے تازہ کالم میں ایک انتہائی دردناک واقعہ لکھا ہے۔ لکھتی ہیں۔ ”گائنی وارڈ کے قریب سے گزری تو ایک غریب لڑکی ایک یا دو دن کے بچے کو گود میں لئے فرش پر بیٹھی تھی۔ میرے قدم رک گئے۔ اس نے بتایا کہ بچہ کل رات پیدا ہوا ہے۔ کوئی بیڈ خالی نہیں۔ اس لیے فرش پر بیٹھی ہوں۔ میں نے اس کی جانب دیکھا تو زرد سا چہرہ اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے لئے وہ مجبوری کے عالم میں فرش پر بیٹھی تھی۔

میں نے اسے کہا تو اس بچی کو لے کر گھر چلی جا۔ کم سے کم بستر تو مل جائے گا۔“ گھر ”۔ وہ دردمند لہجے سے گویا ہوئی۔ ایک کمرہ ہے۔ جس میں شوہر، ساس، سسر، شوہر کا بھائی اور میں رہتے ہیں۔ میرے لئے بستر کہاں؟ میں نے لیڈی ڈاکٹر سے سفارش کی۔ ایک یا دو دن کے لئے اس بیچاری کو بیڈ دلوا دیں۔ لیڈی ڈاکٹر نے جواب دیا۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک غریب ہے۔ زچہ خواتین زیادہ اور بیڈ کم ہیں۔ آٹھ دن پڑی رہیں گی تو گھر نہیں جائیں گی۔ تین بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے چل بسے ہیں۔ یہ چوتھا بچہ بھی غربت کی نذر نہ ہو جائے۔ اس ملک میں انتہا درجے کی غربت ہے اور انتہا درجے کے رئیس رہتے ہیں“ ۔

جاوید ہاشمی بتاتے ہیں کہ وہ جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے کم عمر ترین وزیر تھے۔ ایک ملاقات میں سیٹھ احمد داؤد نے انہیں باخبر کیا کہ پاکستان کی آئندہ سیاست میں سب سے اہم کردار شوگر ملز مالکان کا ہوگا۔ انہوں نے جاوید ہاشمی کو ترغیب دی کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے ایک شوگر مل کا اجازت نامہ حاصل کر لیں۔ شاید وہ اس کاروبار میں جاوید ہاشمی کے ساتھ کاروباری شراکت کی بھی خواہش رکھتے ہوں۔ جاوید ہاشمی نے یہ بات سنی ان سنی کر دی۔

اس وقت سیٹھ احمد داؤد کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ اس ملک کی سیاست میں ٹاؤن ڈیویلپروں کا کردار شوگر ملز مالکان سے زیادہ اہم ہو جائے گا۔ تازہ خبر کے مطابق شوگر ملوں کے مالک جہانگیر ترین اور وزیر اعظم کے درمیان ”غلط فہمیاں“ دور کرنے میں اس ملک کے سب سے بڑے ٹاؤن ڈیویلپر نے اہم کردار ادا کیا۔ آج پاکستان میں سب سے اہم کاروبار پلاٹوں کا کاروبار ہے۔ ایک طبقہ ٹاؤن ڈیویلپروں کا ہے۔ یہ زرعی زمین کو رہائشی اور کمرشل پلاٹوں میں منتقل کرتا ہے۔ دوسرا طبقہ ڈیلروں کا ہے۔ یہ پلاٹوں کی خرید و فروخت سے وابستہ ہیں۔ تیسرا طبقہ انویسٹروں کا ہے۔

یہ لوگ نفع کی خاطر پلاٹ خریدتے ہیں۔ چوتھا طبقہ وہ ہے جو رہائشی اور کاروباری ضرورت کے لئے پلاٹ خریدتا ہے۔ اس ضرورت مند طبقے تک پہنچتے ہوئے پلاٹ ناقابل یقین حد تک گراں ہو جاتا ہے۔ آج تین مرلے کا رہائشی پلاٹ ایک میاں بیوی کے لئے دانہ گندم کی طرح ہی ضروری ہے۔ کیا فرماتے ہیں ہمارے علمائے دین بیچ اس مسئلہ کے۔ ان حالات میں کیا ان رہائشی پلاٹوں کی ذخیرہ اندوزی غلہ کی ذخیرہ اندوزی کی طرح ناجائز ہے یا نہیں؟

کالم نگار کا ایک دوست 45 برس کی عمر میں ایک سرکاری محکمہ سے ریٹائر ہوا۔ اسے دس مرلے کا ایک تعمیر شدہ گھر اور دو کروڑ روپے سے زائد مالیتی ایک کنال کا رہائشی پلاٹ مل گیا۔ اسے نوے ہزار روپے ماہوار پنشن بھی مل رہی ہے۔ لیکن اسے قلق ہے کہ اگر اس کی پروموشن اگلے گریڈ میں ہو جاتی تو وہ دو رہائشی پلاٹوں کا حقدار ٹھہرتا۔ یہاں لفظ ”حقدار“ قابل غور ہے۔ اس سے اگلے گریڈ میں وہ تین رہائشی پلاٹ اور ایک کمرشل پلاٹ کا حقدار ہو جاتا اور اس سے اگلے گریڈ میں زرعی رقبہ بھی، بس چھوڑیں اس ٹاپک کو۔

چند سوالات قابل غور ہیں۔ کیا سرکار ارزاں نرخوں یا بلا قیمت اپنے کسی ملازم کو گھر یا رہائشی پلاٹ دینے کی مجاز ہے؟ یا پھر کیا سرکار کی جانب سے یہ سہولت تمام شہریوں کے لئے بلا تخصیص نہیں ہونی چاہیے؟ دوسرا سوال یوں ہے کہ کیا ٹاؤن ڈیویلپنگ کی انڈسٹری کی روز افزوں ترقی سے رہائشی پلاٹ ارزاں ہوئے ہیں؟ اگر یہ مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس کی پہنچ سے اور دور ہو گئے ہیں تو اس انڈسٹری کا ملک و قوم کو فائدہ کیا ہے؟ پندرہ برس پہلے ملتان ’نوائے وقت‘ کے دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ نے قوم کو خبردار کیا تھا کہ زمین کو جس طرح مڈل کلاس طبقے کے پاؤں کے نیچے سے سرکایا جا رہا ہے اس طرح ہم طبقاتی جنگ کی طرف تیزی سے بھاگے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔

شہر وزیر آباد میں حکیم اسحاق صدیق مطب کیا کرتے تھے۔ دلی والے حکیم نابینا کے یہ شاگرد اعلیٰ درجے کے نباض تھے۔ نبض دیکھ کر مرض تو کیا چند گھنٹے پہلے کا کھایا پیا بھی بتا دیتے۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ قدرت نے ان کے ہاتھ میں شفا نہیں رکھی تھی۔ مرض ضرور ڈھونڈ لیتے لیکن ان کی دوائی سے کبھی کوئی مریض شفا یاب نہ ہوتا۔ پچھلے دنوں عمران خان نے بھی ہمارے قومی مرض کی درست طور پر نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے منافع اور جائز منافع میں فرق واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ نفع کمانے والے طاقتور لوگ اگرچہ مختلف سیاسی جماعتوں میں ہیں لیکن دراصل یہ ایک ہی قطار میں بیٹھے ہیں۔ عمران خان کے اس بیان پر کالم نگار کو وزیر آبادی نباض حکیم یاد آ گیا۔ کیا عمران خان بھی وزیر آبادی حکیم کی طرح محض نباض ہی ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments