12 اگست 1948: بابڑہ – پشتونوں کا کربلا



تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممالک جن کی جڑیں ہنگامہ آرائی اور انتشار کی کھیت میں بوئی گئی ہو انہیں اکثر قیادت کے طویل مسائل اور اپنے سیاسی راستوں کے حوالے سے الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صد افسوس پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ اور قیام کے فوراً بعد اس میں نسلی بغاوت کے ساتھ ساتھ متعدد معاشی اور سماجی مسائل بھی تھے جو آج ایک بحران میں بدل گئے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے کہتے کہ ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ بدقسمتی سے مسلم لیگ میں کچھ بدمعاش، جاگیردار اور وڈیرے گھس گئے تھے جن کی غلط پالیسیوں اور جاگیردار دارانہ سوچ کی وجہ سے پاکستان اب بھی سیاسی مسائل کا شکار ہیں اور ایسی سیاسی مسائل کی وجہ سے نوزائیدہ پاکستان میں ایک قتل عام کا سنگین واقعہ ہوا جس کو سانحہ بابڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی ابتدائی تاریخ اور بعد میں بہت سے سانحات ہوئے لیکن بابڑہ میں جو ظلم اور بربریت کی گئی اس نے سارے برصغیر کو ہلا کہ رکھ دیا۔ اس لئے سانحہ بابڑہ کو پختونوں کا کربلا کہا جاتا ہے۔ جو انسانی فطرت، لالچ، حکومت اور طاقت کی حصول کی بدترین عکاسی کرتا ہیں۔

12 اگست 1948 کو این ڈبلیو ایف پی، اب خیبر پختونخوا (کے پی کے ) میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور ایک مسلم لیگی رہنما عبدالقیوم خان (کشمیری) کو صوبے کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

نئے وزیراعلیٰ نے ڈاکٹر خاں صاحب، قاضی عطاء اللہ، ارباب عبدالغفور خان اور خطے کی دیگر قابل ذکر شخصیات کے ساتھ ساتھ خدائی خدمتگار رہنما خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کو بھی گرفتار کیا جو کہ عدم تشدد کے علمبردار تھے۔ گرفتار رہنماؤں پر تشدد کیا گیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔

یہ بات لکھنے میں آسان ہے مگر جائیدادیں ضبط ہونے اور بڑے بڑے باعزت گھرانوں کے لوگوں کو کس طرح خوار و ذلیل کیا گیا اس کی تفصیل آگے آئیں گی۔

ایک نیا آرڈیننس جولائی 1948 میں صوبائی گورنر نے نافذ کیا، جس میں حکومت نے بغیر کسی وجہ بتائے کسی کو بھی غیر معینہ مدت تک حراست میں لینے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا اختیار دیا۔ زیرحراست لوگوں کو اپنی گرفتاری کو عدالت میں چیلنج کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے خدائی خدمتگار کے کارکنوں نے 12 اگست 1948 کو چارسدہ سے بابڑہ تک پرامن جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا۔ ہزاروں پرامن خدائی خدمتگار شرکاء بشمول جوان، بوڑھے مرد و خواتین نے بابڑہ میدان کی طرف مارچ کیا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو پولیس نے ان پر فائرنگ کردی۔ ہجوم اتنا بڑا تھا کہ فائرنگ کے باوجود مارچ جاری رہا لیکن مسلسل فائرنگ کے بعد درجنوں افراد شہید، زخمی اور سینکڑوں دریا میں ڈوب گئے۔

کچھ خواتین نے جو اس خوفناک قتل عام کو دیکھ رہی تھی
پولیس کو فائرنگ سے روکنے کی کوشش میں اپنے سروں پر قرآن پاک اٹھائے بابڑہ میدان کی طرف دوڑ پڑی۔

اس طرح ہر عمر کے غیر مسلح مرد و خواتین کا قتل عام کیا گیا۔ ان کی لاشیں دریائے کابل میں پھینک دی گئیں اور جب پولیس چلی گئی تو لاشیں پیاروں نے نکال کر چارسدہ بازار لے گئے۔ حکومت وقت کے مطابق صرف پندرہ لوگ جان بحق اور پچاس کی قریب زخمی تھے مگر اس وقت کی عینی شاہدین کے مطابق 600 زخمی اور تقریباً 300 لوگ شہید ہوئے تھے

اس قتل عام میں زخمی یا جن کے پیارے مارے گئے تھے مسلم لیگ حکومت بے ان کے رشتہ داروں پر جرمانہ عائد گیا کیونکہ حکومت کا اس قتل عام پر مصرف ہوا تھا۔

ستمبر 1948 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان نے صوبائی اسمبلی میں ایک بیان دیا:

میں نے بابڑہ میں دفعہ 144 نافذ کی تھی۔ جب لوگ منتشر نہ ہوئے تو ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس کا گولہ بارود ختم ہو گیا۔ ورنہ ایک جان بھی نہ بچتی ”

آگے جو ہوا وہ سن کر اور پڑھ کر انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔

بابڑہ سانحہ کے بعد خدائی خدمتگاروں پر زمین تنگ کردی گئی بقول خان عبدالولی خان بابڑہ واقعہ کے بعد خدائی خدمتگاروں پر دباؤ زیادہ شدت اختیار کرتا گیا۔ ایک دن مسلم لیگی کارکن بمعہ صوبائی حکومت کے کارندوں کے صوابی کے ایک گاؤں ”شوہ“ میں خدائی خدمتگاروں کی تلاش میں آئے۔ انہوں نے ان کے گھروں کو لوٹ لیا، تمباکو کی فضل کو آگ لگادی اور مویشیوں کو ذبح کیا۔ صوابی میں خدائی خدمتگاروں، بابڑہ میں بچ جانے والے اور دوسرے باعزت گھرانوں کے مردوں کو کو پکڑ کہ ان کے کپڑے پھاڑ دیے اور سب کو ننگا کر کے ان کی جسم پر مٹی ملی اور سر عام کوچوں اور چوراہوں پر گھمایا گیا۔ جب خواتین نے اپنے مردوں کو اس حالت میں دیکھا تو وہ اپنے گھروں میں چھپ گئی اور دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ مسلم لیگ کے کارکن چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے دیکھو! ہندوؤں کا ساتھ دینے والوں کا انجام۔

حکومت وقت نے تمام اہل علاقہ کو جرمانہ کیا اور جرمانہ لینے کا جواز یہ تھا کہ بابڑہ میں سرکاری گولہ بارود استعمال ہوئی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس جرمانہ نہیں تھا تو باچا خان نے سینکڑوں ایکڑ خاندانی زمین بیچ کے بہت سے خدائی خدمتگاروں کا جرمانہ ادا کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments