رفعت عباس کا ناول “نمک کا جیون گھر”: دنیا کے لیے امن معاہدہ


دسمبر 2021 میں رفعت عباس کا ناول ”نمک کا جیون گھر“ کے شائع ہونے کے بعد اس دنیا میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے ناول ”نمک کا جیون گھر“ پڑھا ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے ناول ”نمک کا جیون گھر“ نہیں پڑھا ہے۔ ناول میں موجود لونی شہر اس دنیا کی آخری امید ہے۔ دنیا کو لونی میں بدل کر ہی رہنے لائق بنایا جا سکتا ہے، ورنہ جنگ اور دھرم دنیا کو مزید خون آلودہ اور المناک بنا دیں گے۔ جیسا کہ دھرم عام لوگوں کے خون کی ندیاں بہا کر جیت کا جشن مناتے ہیں۔

اس لیے اس ناول میں موجود لونی شہر میں دھرم کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شہر کے کمال کلاکاروں کا ایمان ہے کہ ساری دنیا کی کلا جیون ہے۔ اگر اسے دیوتا سازی، دھرم اور جنگ سے الگ رکھا جائے۔ جیسا کہ والمیکی کی شاعری میں ایودھیا اپنوں کا شہر ہے اور لنکا دشمنوں کا شہر ہے۔ اس لیے لنکا کو جلایا اور ذبح کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کی شاعری کی قبولیت اور تفاخر میں چھپا وہ غم ہے۔ جو اس شاعر پر نہیں کھلا۔ والمیکی کی شاعری پڑھنے کے بعد لونی واسیوں نے اعلان کیا کہ ہم ایسی شاعری سے گریزاں ہیں، جو دیوتاؤں کو جنم دیتی ہے۔

کیونکہ دیوتا وہی بنتا ہے جو آدی واسیوں کا قاتل ہوتا ہے اور شاعری کو کبھی بھی ان کا طرفدار نہیں ہونا چاہیے۔ جس زمانے میں بھگوان بنانے کے کارخانے چل رہے تھے اور شاعروں کے سورما بھگوان بن کے روزمرہ کی زندگی میں دخل انداز ہو رہے تھے، عین اسی وقت لونی شہر میں تھیٹر پارلیمنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اسی زمانے میں باہر دو نئے بھگوان رامائن سے رام اور مہا بھارت سے کرشن ابھرے اور لونی واسیوں پر کھلا۔

1 یہ قبضہ گیروں کا وتیرہ ہے جس کی دھرتی چھینو اسے گالی دو۔ ( 2 ) ہر دیوتا کے پیچھے ایک بڑی دنیا اچھوت اور ملیچھ بن جاتی ہے۔ ( 3 ) صرف سیتا ہی لنکا کی جنگ کا کارن نہیں ہے۔ ( 4 ) رامائن شیو کے مقابلے میں ایک نئے بھگوانن کا پیدائش نامہ ہے۔ اس ناول میں دراوڑوں کا وہ دکھ بھی بیان کیا گیا ہے جس میں ایک آریائی دیوتا ان کے شہروں کو جلا کر انہیں راکشس، داس، اچھوت اور ملیچھ بنا دیتا ہے۔ اس ناول میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ شیو عام لوگوں میں اٹھا بیٹھا۔

اس نے دیوتا اور عام آدمی کے درمیان کھینچی ہوئی دھرم لکیر مٹا دیا اور اس نے دیوتا سے انسان کا روپ لے لیا۔ اس لیے شیو کے مقابلے میں برہمنوں نے رامائن سے رام اور مہا بھارت سے کرشن کو بھگوان بنا کر پیش کیا۔ شیو وہ واحد دیوتا ہے جو لونی کے قریب سے گزرا تو لونی واسیوں نے اسے پھول، پانی اور باجرے کی روٹی بھیجی، اس معذرت کے ساتھ کہ ہمارے شہر میں دیوتاؤں کے داخلے پر پابندی ہے۔ مہاویر کے بدھ کے اسلام اور دوسرے مذاہب کے پرچار کرنے والے لونی واسیوں کے پاس آتے ہیں اور انہیں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

وہ مذہب اور موت کا پرچار کرتے ہیں، اور چلے جاتے ہیں۔ جب کہ لونی واسیوں نے تھیٹر کے ذریعے موت کو شکست دی تو اسے معاہدے کے تحت لونکا کے گھر کی سیڑھیوں پہ بٹھا دیا کہ اگر لونی میں کوئی جنگ میں مر گیا تو موت کو وعدہ کے تحت آزادی دی جائے گی۔ اچانک ایک دن محمد بن قاسم کی فوجوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کرو، یا جزیہ دو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اپنی روایت کے مطابق لونی واسیوں نے مذہب اور جنگ کو مسترد کر دیا۔

لونی واسیوں کا جواب ناول میں لکھا ہوا ہے اور اس طرح کی باتیں کوئی بڑا ناول نگار ہی لکھ سکتا ہے۔ جنگ اور مذہب کو رد کرنے کی جرائت بہی کوئی بڑا آدمی ہی کر سکتا ہے۔ سرائیکی زبان کے لیجنڈ شاعر رفعت عباس کا لکھا ہوا یہ ناول دنیا کو رہنے کے قابل بنانے کی دستاویز ہے، اس لیے دنیا کو اس دستاویز پر دستخط کر کے اس کی اپنانا چاہیے۔ لونڑی واسی لونڑکا کو داستان خوابوں اورپوتھیوں یوگا کی سمادھیوں ادوتیا اور وحدت الوجود کے سرابوں مصوری اور مجسمہ سازی کے زمانوں سے لے کر گندھارا سے مگدھ تک ایران کے قدیمی شہر سوسن سے بھوج اور کھنبھاٹ تک ڈھولا ویرا سے لوتھل تک قصوں سے پتلی تماشوں تک

چاند سے آسمانوں تک تلاش کرتے ہیں لیکن اسے ڈھونڈ نہیں پاتے۔ لونڑی شہر کے دو کردار سنکی اور وادھا اپنے ہمہ وقت جنسی قرب میں لونڑکا کو ڈھونڈتے ہیں اور کامیاب نہیں ہوتے ماؤں کو گمان گزرتا ہے ہے کہ لونڑکا ان کے پیٹ میں ہے اور وہ لونڑکا کو جنم دیں گی۔

لونڑی شہر کے ایک عام فرد اور جیوے کار لونڑکا کی تلاش اس ناول کو آگے بڑھاتی ہے اور کائنات اس تلاش کا میدان بن جاتا ہے۔

یہ لونڑکا شاید سندھ وادی یا پھر کرہ ارض کی گم شدہ روح ہے جس کی تلاش کا نیا سفر شروع ہوا ہے۔ شاید یہ دنیا اپنے جیوے کار لونڑکا کو پھر ڈھونڈھ لے۔ شاید یہ دنیا لوڑی شہر جیسی بن سکے۔ جہاں دیوتاؤں، دھرموں، جنگوں اور موت کے بغیر دنیا آباد ہے اور اپنے تسلسل میں ہزاروں میل کا سفر کرتی ہے۔

اس شہر کے جیوت کاروں نے اپنے تھیٹر کی تائید میں پرندوں، درختوں، ہرنوں، ہاتھیوں کی جیوت کاری کی ہے۔

انہوں نے لونڑی سے باہر کی دنیا کے مقابل اپنا وقت دریافت کیا اور کیلنڈر جاری کیا ہے۔ اس شہر نے دنیا بھر کی کتابیں پڑھیں اور علوم کو سمجھا ہے ہیں۔ اس شہر نے پانینی کی اشٹا ادھیائے، پتن جلیں کی یگ سترا، پنگلا کی چھند شاسترا، بھرت منی کی ناٹیہ شاستر کے ساتھ ساتھ رامائن اور مہابھارت کو اپنے کتاب گھر میں پڑھا اور ردوقبول سے گزرا ہے۔ یہ ناول کے حوالے سے مشکل کام تھا۔ لیکن یہ ناول نہ صرف ان کتابوں کی نئی تفہیم کرتا ہے بلکہ ان علوم کو لونڑکا یا عام آدمی کی تلاش سے جوڑ دیتا۔ یہ ناول رام، کرشن اور شیوا کی نئی پرتوں کو کھولتا ہے۔ یہاں شیوا کے بھگوان کے درجے سے عام آدمی بننے کی کتھا بیان ہوئی ہے۔

”شیوا، ایک دیوتا کے انسان بننے کی کہانی ہے“
یہاں بھگوان بننے کا بھید کھولا گیا ہے۔

یہی سارا بھید ہے کہ آدی واسیوں کا قاتل بھگوان ٹھہرتا ہے ”یہ ناول سمادھی اور وحدت الوجود کو نئے سرے سے بیان کرتا ہے۔ یہاں تصوف اور منصور بن حلاج کو مختلف انداز میں دیکھا گیا ہے۔“ منصور کو سنگسار کرنے یا دار پر کھینچنے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ ایک بڑے وجود کی کشش میں اپنی ”میں“ سے دستبردار ہو رہا تھا ”

یہ ناول استعماریت اور ما بعد استعماریت کے بیانیوں کو بدل دیتا ہے۔ 1890 میں انگریز لونڑی شہر کے باہر پہنچتا ہے اور لونڑی واسی انگریز کیپٹن اولیور رابرٹس سے مکالمہ کرتے ہیں۔ یہ مقامیوں کا وہ مکالمہ ہے جہاں ایک کردار اگاس کیپٹن اولیور رابرٹس میں عام فرد کو ڈھونڈ لیتا ہے اور پھر آگے یہ بات کھلتی ہے کہ دنیا میں عام آدمی سے عام آدمی کا مکالمہ ہی اس کرے کو جنگ اور موت سے بچا سکتا ہے۔ یہ مقامیوں کی وہ طاقت ہے جہاں وہ حملہ اور فرنگیوں کو ناٹک جنگ میں لے آتے ہیں۔ ”یہ لونڑی شہر تھا جس نے انگریز سپاہیوں کو ان کی وردیوں کی جگہ ناٹک کے لباس اور ہیٹ پہنائے تھے۔“ ”دنیا سپاہیوں کے بجائے ناٹک کاروں کے ہاتھوں میں زیادہ محفوظ ہے“

یہ ناول استعماریت اور ما بعد استعماریت کی ساری تلخی کو زندگی کی ایک نئی حکمت عملی میں بدل دیا ہے۔ اس کرہ ارض پر زندہ رہنے کا ایک نیا احساس پیدا کرتا ہے۔ ”“ حملہ آوروں کی قبروں کے لیے بھی پھول ہیں کہ وہ ہماری دھرتی میں خوابیدہ ہیں۔ ”

”خدا سے جھگڑا نہیں بنتا، بھلے وہ گھڑ سواروں کے ساتھ آئے یا بحری جہازوں سے اترے“

یہ ناول سندھ وادی میں تصوف کی روایت کو نئے سرے سے دیکھتا ہے۔ گیارہویں دری میں لونڑی شہر کا ایک فرد سہاگا نعرہ لگاتا ہے کہ میں لونڑکا ہوں۔ اس کے پیچھے منصور بن حلاج کی روایت انا الحق بولتی ہے۔ لونڑی واس اپنے ناٹک گھر میں اس معاملے پر ایک کھیل کھیلتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ منصور حق میں ڈھلے یا حق منصور میں دونوں صورتوں میں فرد (ماہنڑو) کی گم شدگی ہے۔ یہ سندھ وادی میں کیا جانے والا ایک مشکل تجزیہ ہے کہ یہاں صدیوں سے صوفیاء کی روایت اسی نظریے پر کھڑی ہے۔ لونڑی شہر جو مکمل طور پر انسان کی آزادی اور تسلسل کی علامت ہے اس حوالے سے ایک بڑا فیصلہ کر گزرتا ہے۔

مجموعی طور پر، یہ ناول سندھ ملتان کی سرزمین پر ہونے والی تکلیف دہ جنگوں، ان جنگوں کے سبب ادھورے رہ جانے والے عشقوں، جلے ہوئے کتب خانوں اور آگ لگے اناج کے گوداموں، توپ خانوں سے اٹھتے ہوئے دھویں، دیوتاؤں، سورماوں اور مذہبی پیشواؤں کے جبوں کے بیچ میں نوھٹو سے ڈھولاویرا اور کمبھات سے ملتان تک آرٹ کو مذہب ماننے والے لوگوں کے شہروں کی وہ کتھا ہے۔ جنہیں نہ کوئی ہار ہرا سکی اور نہ کوئی جیت جیت سکی۔ وہ کل بھی آرٹ میں ایمان رکھتے تھے اور آج بھی آرٹ میں ہی ایمان رکھتے ہیں۔

لونی واسیوں کا دنیا کے لیے یہ ہی پیغام ہے کہ دنیا تمہاری کلا کو تسلیم کر لے گی، لیکن اگر آپ اپنے آبا و اجداد کو بھگوان بناؤ گے تو یہ تسلیم کرانے کے لیے آپ کو تلواریں بنانی ہوں گی اور انہیں چمکانا ہو گا۔ کیونکہ مذہب ہمیشہ دوسروں کے دھرتی پر ہی پھلتا اور پھولتا ہے۔ اس ناول کا مختصر پیغام یہ ہے کہ سپاہی کسی قوم کا اصل چہرہ نہیں ہوتے۔

اس ناول میں کمبھات اپنے تمام تر حسناکیوں اور ہنروں کے ساتھ موجود ہے۔ جہاں چندر جائے کا نانا اسے سمجھاتا ہے کہ ”جب تک کہ پتھروں میں زندگی نہیں آتی وہ کسی کے جیون تک نہیں پہنچ سکتے“ ۔ اس ناول میں کمبھات کی خوبصورت گلیوں کی سیر کراتے ہوئے لگتا ہے جیسے ناول نگار یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہمارے شہروں کی تقدیریں حملہ آوروں کے آنے سے پہلے پرندوں کی چھنبوں سے لکھی جاتیں تھیں۔ اور اب بھی، اگر دنیا تلواریں چھوڑ کلا کی طرف آ جائے تو لونی کی طرح ہو سکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی شہر اگر کلا جاگ جائے تو لوگ پہلے سے زیادہ حسیں ہو جاتے ہیں۔

اردو زبان کے نامور نقاد ناصر عباس نیر نے ایک انگریزی روزنامے میں کیے گئے اپنے ایک بھرپور تبصرے میں اس ناول کو پوسٹ کالونیل عہد کا ایک بڑا ناول قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ”یہ ناول ماضی کے نوآبادیاتی شکنجے میں جکڑے ذہنوں کو ترک نوآبادیات کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ وہ فن ہے جہاں ہر طرح کی دوئی، درجہ بندی اور سرحدیں پگھلنے لگتی ہیں اور ہم ایک مسلسل وقت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ آرٹ، وقت اور موت کو شکست دیتا ہے۔“ نمک کا جیون گھر ”ایک غیر معمولی پوسٹ کالونیل ناول ہے جو وسیع پیمانے پر پڑھے جانے کا مستحق ہے۔“

نوٹ: اس ناول کا پہلا ایڈیشن سرائیکی میں شائع ہونے کے دو ماہ کے اندر ہی فروخت ہو گیا۔ تازہ ترین فنکشن ہاؤس نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس ناول کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایم ای سرائیکی کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments