شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد (2006) پر عمران خان کی تقریر


آخر وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو گئی۔ ایک عرصہ سے سن رہے تھے کہ نمبر پورے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد بس آیا چاہتی ہے۔ آج آئی یا کل آئی۔ بہر حال یہ مرحلہ آ گیا اور اپوزیشن نے اس تحریک کے ساتھ اپنے پتے میز پر رکھ دیے۔ یہ وقت بتائے گا کہ عمران خان صاحب اس کا شکار ہوتے ہیں یا اس تحریک کو ناکام بنا دیتے ہیں۔

 اب سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں دو مرتبہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے۔ پہلی مرتبہ نومبر 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ اور دوسری مرتبہ اگست 2006 میں شوکت عزیز صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ اگرچہ 2006 میں اپوزیشن کو علم تھا کہ وہ مطلوبہ تعداد میں ارکان کی حمایت حاصل نہیں کر سکیں گے لیکن ان کی طرف سے احتجاج کے طور پر یہ قرارداد پیش کی گئی تھی۔

تاریخی طور پر تینوں مرتبہ مسلم لیگ ن اور فضل الرحمن صاحب کی جماعت جمیعت العلماء اسلام [ف] نے ان قراردادوں کی حمایت کی ہے۔جب 2006 میں شوکت عزیز صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو عمران خان صاحب بھی قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ اور انہوں نے اس کی حمایت ایک طویل تقریر بھی کی تھی۔ اس میں کچھ اصول بیان فرمائے تھے کہ وزیر اعظم صاحب کو کیوں اپنے عہدے سے ہٹ جانا چاہیے۔ اب تک پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد مثال ہے کہ کسی سیاستدان نے ایک وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں قومی اسمبلی میں ایک تقریر کی اور پھر وہ خود وزیر اعظم بن گیا اور انجام کار خود اس کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش ہو گئی۔ یہ تقریر 29 اگست 2006 کے روز قومی اسمبلی کی کارروائی میں شائع شدہ موجود ہے۔ مناسب ہوگا اگر ہم عمران خان صاحب کی اس تقریر کا جائزہ لیں کہ ان کے نزدیک کب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ایک وزیر اعظم اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائے؟

اس تقریر کے آغاز میں عمران خان صاحب نے ایک بہت پتے کی بات کہی تھی۔ اور وہ بات یہ تھی کہ میں ایک دوست کی حیثیت سے شوکت عزیز صاحب کو یہ مشورہ دے رہا ہوں کیونکہ دوست کا کام ہوتا ہے کہ وہ صحیح مشورہ دے اور دوست اور چمچے میں یہی فرق ہوتا ہے۔ مجھے عمران خان صاحب کی اس بات سے پورا اتفاق ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ دوستوں اور چمچوں میں فرق کریں گے۔

اس تحریک عدم اعتماد سے چند روز قبل ہی نواب اکبر بگٹی صاحب کا قتل ہوا تھا۔ عمران خان صاحب نے وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب پر عدم اعتماد کی پہلی وجہ یہ بیان کی :

“. میں آپ کو بلوچستان کے اوپر بات کرنا چاہتا ہوں کہ جب ملٹری ایکشن بلوچستان کے اوپر لیا گیا تو کیا اس پارلیمنٹ سے ووٹ لی گئی۔۔۔ ہم اپنے لوگوں کے اوپر اٹیک کرنے جا رہے ہیں۔ ایسٹ پاکستان کی اتنی بڑی تاریخ ہے۔ پارلیمنٹ سے پوچھے بغیر یہ کیا گیا۔ اس کے ابھی far reaching effects آپ کے سامنے آئیں گے۔ اس فیصلہ کے جو بلوچستان میں آج بھی بربادی ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں کروڑوں روپے کی روز بربادی ہو رہی ہے۔ “

عمران خان صاحب کا موقف یہ تھا کہ کیونکہ شوکت عزیز صاحب کی حکومت بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں کر سکی تھی ، اس لئے اب شوکت عزیز صاحب کو وزیر اعظم رہنے کا کوئی حق نہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اب بلوچستان کے حالات ٹھیک ہو گئے ہیں؟ اب کیا ان کی محرومیوں کا ازالہ کر دیا گیا ہے؟ کیا اب پارلیمنٹ کو بلوچستان میں ہونے والے واقعات کے سلسلہ میں اعتماد میں لیا جاتا ہے؟ اگر ان سب کا جواب ہاں میں ہے تو یقینی طور پر تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہونی چاہیےتھی۔ لیکن اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر عمران خان صاحب کے اپنے معیار کے مطابق انہیں مزید اس عہدے پر کام نہیں کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ عمران خان صاحب نے 2006 میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ شوکت عزیز صاحب کی حکومت کو اس لئے رخصت ہونا چاہیے کیونکہ وہ قانون کی بالا دستی قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے اس کی یہ مثال پیش کی تھی۔

” قانون کی بالا دستی اس کا آج یہ حال ہے کہ نواب اکبر بگٹی کو انہوں نےجو یہ ابھی قتل کیا ہے اور غدار کہا ہے۔ میں یہ قانون میں پوچھنا چاہتا ہوں کس قانون کے تحت کیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے تو  endorse کیا نہیں۔ آئین کے اندر تو صرف ایک کو غدار سمجھا جاتا ہے جو آرٹیکل 6 کو violateکرے۔ وہ تو نواب اکبر بگٹی نہیں تھے۔ “

میرا مودبانہ سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں تو یہ سلسلہ بند نہ ہوا لیکن جو آپ کے دور میں صحافیوں کو اٹھایا گیا اور مارا پیٹا گیا، یہ سب کچھ کس قانون کے تحت کیا گیا؟ کیا پارلیمنٹ نے اس کی اجازت دی تھی۔ کیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟

اس کے بعد 2006 کی اس تقریر میں عمران خان صاحب نے شوکت خان صاحب پر یہ تنقید کی کہ ان کے عہد میں وزیرستان میں طالبان کا اثرو رسوخ بڑھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ کے پاس طاقت ہوتی تو اس پر انکوائری ہوتی۔ جب عمران خان صاحب نے عنان اقتدار سنبھالی تو اس وقت ملٹری آپریشن کے بعد اکثر علاقوں میں طالبان کا اثر و رسوخ بڑی حد تک کم ہو چکا تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا گذشتہ ایک سال میں پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے۔ یقینی طور پر گذشتہ ایک سال میں پاکستان کے اندر طالبان کی دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں پہلے کی طرح دوبارہ قتل و غارت کا بازار گرم نہ ہو جائے۔ کیا پارلیمنٹ نے اس پر تحقیقات شروع کیں؟ اس کا جواب میں نفی میں ہے۔ پھر کیا عمران خان صاحب کو بدستور وزیر اعظم کے عہدے پر کام کرنا چاہیے؟

عمران خان صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ایک بڑا جواز یہ بیان کیا تھاکہ اس حکومت کے دور میں پاکستان اپنی مجموعی داخلی پیداوار کا صرف 1.7سے 2.1فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جو کہ بہت کم ہے۔ جب کہ بھارت نے کبھی بھی اپنی مجموعی داخلی پیداوار کے چار فیصد سے کم تعلیم پر خرچ نہیں کیا۔ میری محترم وزیر اعظم صاحب سے گذارش ہے کہ وہ پاکستان کا گذشتہ اکنامک سروے اٹھا کر دیکھیں۔ 2019 کے مالی سال میں پاکستان نے اپنی مجموعی داخلی پیداوار کا صرف 2.3 فیصد تعلیم پر خرچ کیا تھا اور مالی سال 2020 میں یہ شرح گر کر صرف ڈیڑھ فیصد رہ گئی۔ اب عمران خان صاحب خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا ان کی حکومت کو قائم رہنا چاہیے؟

اس وقت عمران خان صاحب نے صرف اس بات کا شکوہ نہیں کیا تھا کہ پاکستان پر تعلیم پر بہت کم خرچ کیا جا رہا ہے بلکہ یہ بھی نشاندہی کی تھی کہ بجٹ میں زائد خرچ کہاں پر کیا جا رہا ہے۔ ان دنوں پاک فوج کے نئے جی ایچ کیو کی تعمیر ہو رہی تھی۔ عمران خان صاحب نے اس تقریر میں کہا

“اگر Pentagonیعنی امریکہ کا دفاعی مرکز تیس ایکڑ میں بن سکتا ہے تو میں یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ ڈھائی ہزار ایکڑ میں جی ایچ کیو کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ اگر یہ پیسہ ہم انسانوں پر خرچ کرتے تو بہتر نہ ہوتا۔ “

میرا یہ عاجزانہ سوال ہے کہ کیا اس حکومت میں عمران خان صاحب نے جی ایچ کیو کا رقبہ کم کر کے دکھایا یا پھر دفاعی اخراجات میں کوئی خاطر خواہ کمی کی؟

محتر م وزیر اعظم یہ معیار آپ نے بیان فرمائے تھے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں بیان فرمائے تھے۔ اب آپ خود اپنی حکومت کو اس پر پرکھ کر دیکھیں کہ کیا اس حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونی چاہیے کہ نہیں۔ اور اپوزیشن سے بھی یہ گذارش ہے کہ وہ اسمبلی میں اپنی فرد جرم پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رکھے کہ کل آپ کی حکومت کو بھی اسی معیار پر پرکھا جائے گا جس پر آج آپ عمران خان صاحب کی حکومت کو پرکھ رہے ہیں۔ لہذاجوش خطابت میں ایسے وعدے نہ کریں جن کے متعلق خود آپ کو بھی علم ہو کہ انہیں وفا کرنا آپ کے لئِے ممکن نہ ہوگا۔ اب قوم مزید خوش گمانیوں کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments