نواں دروازہ


یونیورسٹی میں ہمارے کمرہ جماعت کا دروازہ عجیب تھا ’اگر کہیں دور دراز گمنام علاقے میں ہوتے تو اس دروازے کو کب کا آسیبی دروازہ قرار دیا جا چکا ہوتا۔ دروازے کی خاص بات یہ تھی کہ جب بھی کبھی ماسٹر صاحب کسی لڑکے کو کلاس سے باہر جانے کا کہتے تو دروازے کی محبت جاگ جاتی‘ سمجھو پاؤں ہی پڑ جاتا ’لڑکا ہزار کوشش کر لے لیکن مجال ہے جو دروازہ کھل جائے۔ مجبوراً ماسٹر صاحب کو آ کر خود دروازے کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑتے تو دروازے کی طبیعت میں کچھ نرمی آتی اور تب کہیں کلاس سے دھتکارے ہوئے موصوف باہر تشریف لے جا پاتے۔

ایک دن باقاعدہ اس پہ سوچنا شروع کیا ’کہ کس قسم کے محرکات ہو سکتے ہیں کہ ایک بندہ دروازہ کھول نہیں سکتا اور ماسٹر صاحب آتے ہیں تو دروازہ پھٹاک سے کھل جاتا ہے۔ کیا ہماری طرح دروازہ بھی ماسٹر صاحب سے ڈرتا تھا۔ لیکن دروازہ بھلا کیوں ڈرے گا‘ اس کے کون سے ’سیشنل مارکس‘ ہیں ماسٹر صاحب کے پاس۔ پھر سوچا شاید لڑکے تو ہر سال بدلتے رہتے ہیں ’سال بھر میں ان کو دروازے کی وہ سمجھ نہیں آ سکتی جو پچھلے کئی سال سے ماسٹر صاحب کو آ چکی ہے‘ وہ تو عرصہ دراز سے طالبعلموں کے ساتھ ساتھ ان دروازوں سے بھی متھا مار رہے ہیں۔ اسی لئے وہ ان دروازوں کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔

مضمون تو اب یاد نہیں کون سا تھا ’شاید الیکٹرونکس کی کسی ذیلی شاخ کا ہو گا۔ ماسٹر صاحب تشریف لائے‘ حسب عادت پورا بورڈ بھر دیا۔ کچھ جگہ سمجھانے کے لئے خالی چھوڑ دی اور حکم ہوا کہ چھاپا مار لیا جائے تاکہ سمجھاتے وقت ساری توجہ سمجھنے پہ ہی رہے۔ کافی دیر وہ کلاس کو سمجھاتے بجھاتے رہے۔ اس دن انہوں نے پش پل گیٹ کا عقدہ کھولا تھا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک لڑکے کو بطور سزا باہر بھیجنے کے احکامات صادر ہوئے ’وہ بھی چپکے سے اٹھا اور نکل پڑا۔ عادت سے مجبور دروازے نے محبت نچھاور کرنا شروع کی کہ نہیں کھلنا‘ تو ماسٹر صاحب نے برجستہ آواز لگائی: جیسے ابھی سمجھایا ہے ناں ’پش پل گیٹ ویسے ہی پش پل کرو

ایک کو پش کرو اور دوسرے کو پل کرو

یہ کراماتی اور معجزاتی عمل دروازہ کھولنے میں ایسا ممد و معاون ثابت ہوا کہ پھر کبھی ماسٹر صاحب کو خود دروازے تک آنے کی زحمت نہیں کرنی پڑی۔ دروازہ کھلنے کا جو راز ملا سو ملا لیکن ایسے دروازہ کھولنے کا عمل ایک اور نکتہ بھی سمجھا گیا۔

بیرونی دروازوں کی طرح ایک اپنے من کا دروازہ بھی ہوتا ہے۔ جو نہ تو ہر کوئی باہر سے کھول سکتا ہے اور نہ ہی یہ ہر کسی کے لئے کھولا جا سکتا ہے۔ یہ دروازہ بھاگ نکلنے کا ’بچ نکلنے کا‘ فرار حاصل کرنے کا واحد راستہ ثابت ہوتا ہے۔ جب باہر کے سب دروازے بند ملیں ’جب سب اسباب اور احباب ساتھ چھوڑ جائیں تو یہی دروازہ وہاں سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔ ان سب ظاہری دروازوں کو پش کر کے اپنے اندر من کے دروازے کو پل کرنا پڑتا ہے‘ اور اگر من کے اندر اس مالک و خالق کا ڈیرہ ہو تو یقیناً یہ دروازہ کامیابی ہی کی طرف کھلے گا۔

جیسے یوسف علیہ السلام کو بھی بیرونی طرز کے آٹھ دروازوں میں لا کر بند کر دیا گیا تھا ’لیکن انہوں نے ان بند دروازوں پہ توجہ دینے کی بجائے اپنے اندر من کے نویں دروازے کو کھولا اور اس مالک کی طرف دھیان لگایا جو مقرب بھی ہے اور علیم بھی‘ جو بصیر بھی ہے اور کریم بھی۔ وہ نواں دروازہ کھلا تو ظاہری آٹھ دروازے بھی کھلتے چلے گئے۔

آج کے اس پرفتن دور میں نویں دروازے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ’اپنے رب سے تعلقات‘ معاملات ’مذاکرات ان سبھی کو درست کرنا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ انسان اپنے جیسے دوسرے انسان سے ایک حد تک ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ اور وہ فائدہ بھی رب کے فضل ہی کے مرہون منت ہے تو کیوں نہ شروع ہی سے اسی کی طرف لو لگائی جائے جہاں ہر جگہ سے گھوم گھام کے اور تھک ہار کے بھی پہنچنا ہے۔

دانائے راز کہتے ہیں جب من مسجد بن جائے تو کھلنے والا نواں دروازہ ہر طرح کے بند آٹھوں دروازے خودکار طریقے سے کھول دے گا۔

توصیف رحمت
Latest posts by توصیف رحمت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments