کھڑکیاں اور استاد سلامت علی خاں


ننگے پاؤں (6 )

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

غلام محمد قاصر جو اس سدا بہار شعر کا خالق تھا اس کا ایک اور شعر بھی لافانی رہے گا

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

مستنصر حسین تارڑ راوی ہیں کہ ایک دن ادبی جریدہ فنون کے انارکلی والے دفتر میں احمد ندیم قاسمی، دراز قد غلام محمد قاصر اور کوتاہ قد گلزار وفا چوہدری موجود تھے۔ سورج کھڑکی سے اپنی تلملاہٹ دکھا رہا تھا۔ قاسمی صاحب نے غلام محمد قاصر سے کہا کہ ذرا کھڑکی بند کر دو۔ گلزار وفا چوہدری کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ انہوں نے برجستہ جملہ کسا

” صرف کھڑکی بند کرنی ہے، سورج سے کچھ نہیں کہنا“ کیا لطیف جملہ تھا

احمد ندیم قاسمی صاحب کے کلب روڈ والے آفس کی کھڑکیاں کون بھول سکتا ہے۔ کھڑکیوں سے انہیں خاص رغبت تھی۔ نیلام گھر کی پروڈکشن کے دنوں میں مجھے پی ٹی وی کی طرف سے جو دفتر ملا اس میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ ایک دن احمد ندیم قاسمی صاحب میرے کمرے میں تشریف لائے، بیٹھ گئے، چند لمحے ادھر ادھر دیکھتے رہے اور پھر کہنے لگے۔

” حفیظ طاہر تم کیسے شاعر ہو جو کھڑکیوں کے بغیر کمرے میں بیٹھے ہو“
ہماری شاعری میں کھڑکیوں اور ان کا استعاراتی استعمال بہت دلکشی سے ہوا ہے۔ ناصر کاظمی کا شعر ہے
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
پروین شاکر کا شعر دیکھئے
پیڑ کو دعا دے کر، کٹ گئی بہاروں سے
پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں
اور نذیر قیصر کے اس شعر کی داد کون نہیں دے گا
سیر کرتی ہے وہ حویلی میں
چاند بھی کھڑکیاں بدلتا ہے

کراچی کے ایک چوبارے کی وہی کھڑکی پھر سے ذہن میں ابھرتی ہے جہاں ایک بزرگ، ریڈیو پر کلاسیکی موسیقی سنتے تھے اور اس کے سر چھن چھن کر مجھ تک آتے۔ اور وہی گراموفون ریکارڈ جس کے گرووز اور سوئی کے ملاپ سے بیگم اختر کی آواز ابھرتی۔

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

غزل، ٹھمری اور دادرا دست بستہ ان کے سامنے کھڑے رہے۔ یہی دل کشی استاد سلامت علی خان کی گائیکی میں تھی

سانول موڑ مہاراں

ورنہ لتا منگیشکر جیسی گائیکہ ان پر دل و جان سے کیسے عاشق ہوتی۔ میں نے عاشق کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیوں کہ فدا ہونے اور پیار ہو جانے میں وہ شدت ہی نہیں جو عاشق ہو جانے میں ہے۔

استاد سلامت علی خاں کہا کرتے کہ سر اور لے اللہ کی رحمت ہیں باقی اپنی محنت ہے۔ یہ استاد سلامت علی خاں ہی ہیں جن کے کلاسیکل پروگرام سے مجھے موسیقی پروڈیوس کرنے کی جرات ملی۔

مکمل پروڈیوسر بننے سے پہلے میں نے کئی برس موسیقی کے سکہ بند پروڈیوسر فرخ بشیر صاحب کی معاونت کی اور رہنمائی حاصل کی۔ ایک دن وہ استاد جی کا کلاسیکی پروگرام راگ رنگ ریکارڈ کر رہے تھے تو میں ریکارڈنگ پینل پر ان کے پہلو میں بیٹھ کر دیکھنے لگا۔ جونہی ٹیپ ریکارڈنگ پر گئی اور استاد جی نے الاپ شروع کیا تو فرخ بشیر صاحب نے میری طرف دیکھا۔ نہ جانے ان کے دل میں کیا آئی کہ اپنے ہیڈ فون اتار کر مجھے پہنا دیے اور اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ خود میرے والی کرسی پر بیٹھ کر مشاہدہ کر نے لگے۔ میرے دل کی دھڑکن برہم ہو گئی مگر کہیں سے وہ استقامت میرے اندر در آئی جو میں نے اپنی ماں سے سیکھی تھی۔ میں نے چیلنج لے لیا

جونہی طبلہ نواز نے تہائی ماری اور میں نے اس تہائی پر کیمرہ درست کٹ کیا تو فرخ بشیر صاحب باقی ریکارڈنگ میرے حوالے کر کے چلے گئے۔ اور وہ پچاس منٹ کا راگ رنگ کا پروگرام میں نے خود مختاری سے کیا۔ اور پھر انہی فرخ بشیر صاحب نے جب میری ریٹائرمنٹ کی تقریب میں یہ ایک جملہ کہا جو میرے لئے کسی ستارۂ امتیاز سے کم نہیں تھا،

” حفیظ طاہر نے مجھے بہت عرصہ اسسٹ کیا مگر وہ مجھ سے بہتر پروڈیوسر ثابت ہوا۔“

کشتگان موسیقی کی حس مزاح کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ استاد سلامت علی خاں ایسی بات کرتے کہ روح راضی ہو جاتی۔ ان کے ہاں کسی شادی کی تقریب تھی۔ میں بھی مدعو تھا۔ مہمان دھیرے دھیرے آرہے تھے۔ میں نے ان کی رگ ظرافت پھڑکانے کے لئے کہا۔

”خاں صاحب آپ کے مہمان بلمپت میں آ رہے ہیں“
خاں صاحب زیر لب مسکرائے اور بولے ”دیکھتے رہیے جب کھانا کھلے گا تو درت میں کھائیں گے“
اور میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔

کلاسیکی موسیقی میں بلمپت اور درت کی اصطلاحیں لے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ گائیکی کے آغاز میں لے دھیمی ہوتی ہے جسے بلمپت کہتے ہیں اور جوں جوں گائیک اختتام کی طرف بڑھتا ہے لے بھی تیز تر ہوتی جاتی ہے اور اس کیفیت کو درت کہا جاتا ہے۔

کائنات کی ہر شے کسی نہ کسی لے پر رواں دواں ہے۔ اب دل ہی لے لیجیے، ایک منٹ میں 72 بار دھڑکتا ہے اور اپنی لے قائم رکھتا ہے۔ اگر یہ لے کم یا زیادہ ہو جائے تو فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔ میں نے لے کاری استاد علوی خاں سے سیکھی جو پی ٹی وی لاہور میں بطور طبلہ نواز ملازم تھے۔ انہوں نے مجھے تین تال میں طبلہ بجانا سکھایا اور صابر نے مجھے ریاض کرایا۔ استاد علوی خاں کے ساتھ استاد شرف الدین بھی ملازم تھے جو بہت مرنجاں مرنج سارنگی نواز تھے۔ لے کاری کی یہ تربیت پوری پیشہ ورانہ زندگی میں میرے کام آئی اور اس کی کارفرمائی میرے تخلیق کردہ موسیقی کے پروگراموں اور ڈراموں میں واضح نظر آتی ہے۔

یہ لے ہی تو ہے جو ریل میں بیٹھے مسافروں کو نیند کی آغوش میں لے جاتی ہے اور وہ بچہ جو ریل کی لے سن کر لکڑی کی سیڑھی سے کچی چھت پر چلا جاتا تھا ٹرین کو آتے جاتے دیکھتا اور سنتا تھا اس کی زندگی میں ریل نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

باؤ سوہنی گڈی والیا

جس مہربان درزی نے مجھے پرائمری سکول پاس کرنے کے بعد ہائی سکول میں داخل کرایا اس نے اقبال حسین ہائی سکول گڑھی شاہو کا انتخاب کیا جس کا راستہ ہی ریلوے کے پھاٹک سے ہو کر جاتا تھا۔ وہ میری گلی نمبر 10 کے مکان نمبر 3 میں بشیراں کا کرایہ دار تھا۔ اس نے میری تاریخ پیدائش 2، اگست 1947 لکھوا دی، یعنی پاکستان سے ایک ماہ چھوٹے حفیظ طاہر کو پاکستان سے بارہ روز بڑا بنا دیا۔ ابا جی نے میری جنم پرچی سنبھال کر رکھی ہوئی تھی جس پر میری تاریخ پیدائش 2 ستمبر 1947 درج تھی۔ برس ہا برس بعد وہ پرچی نادرا میں دکھا کر ریکارڈ درست کرایا۔ ورنہ میں پاکستان سے ایک ماہ بڑا ہی رہتا۔

انتہائی خوش مزاج اور کافی خوبصورت بشیراں میرے جوان ہونے اور موٹر سائیکل خریدنے تک جوان ہی رہی۔ میں جب موٹر سائیکل لے کر نکلتا تو وہ لہک لہک کر گاتی

مینوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والیا

اور اسی ہنس مکھ بشیراں کی ایک المناک داستان بھی تھی، اس کا خاوند محمد شفیع باقاعدہ سیاہ فام کیڈی تھا جو امیروں کو گالف کھلاتا اور خود غریبوں کی زندگی گزارتا۔ اس غربت میں بھی بشیراں نے اس رشتے کو خوب نبھایا، اولاد کو پڑھایا لکھایا اور اس کی ایک بیٹی پولیس میں بڑے عہدے تک پہنچی۔

غربت کا یہ عالم تھا کہ بشیراں دنبوں کی چکیوں کی چربی جمع کرتی، اسے پگھلاتی اور اس سے جو تیل نما مادہ تشکیل پاتا اسے ہانڈی میں بھی ڈالتی اور اسی میں کاسٹک سوڈا وغیرہ ڈال کر کنالی میں صابن جما لیتی، اسی سے کپڑے دھوتی اور اسی سے اپنے لمبے بال۔ مگر اس کی فطرتی خوش طبعی میں کمی نہ آتی

سانوں وی لے چل نال وے بابو سوہنی گڈی والیا
موت کے آس پاس

مگر یہ تو بہت بعد کی بات تھی، اقبال حسین ہائی سکول گڑھی شاہو، میاں میر سے میلوں دور تھا۔ یہ محض اتفاق تھا یا یکساں ٹائمنگ کا نتیجہ کہ سکول جاتے وقت پھاٹک اکثر بند ملتا اور ٹرین گزر رہی ہوتی۔ جونہی ٹرین گزر جاتی ہم بچے تیزی سے آگے بڑھتے، اپنی طرف کے پھاٹک سے گزر کر بائیں مڑتے اور نہر پر تعمیر کردہ پل کو تیزی سے کراس کر نے لگ جاتے کہ کہیں کوئی ٹرین نہ آ جائے۔ لوہے کا بنا ہوا یہ پل انگریزوں نے تعمیر کیا تھا اور ریلوے لائن کا جو حصہ پل کے اوپر سے گزرتا تھا اسے سہارنے کے لئے لوہے کے شہتیر نصب تھے مگر ان کے درمیان اتنا فاصلہ تھا کہ نہر کا پانی تیزی سے گزرتا ہوا صاف نظر آتا۔ پھاٹک والے کے منع کر نے کے باوجود ہم اسی پل سے گزرتے۔ اور آج سوچیں تو جان خطرے میں ڈال کر گزرتے۔ اگر کسی بچے کا پاؤں یا میرا ہی پاؤں آہنی شہتیروں کے کسی درمیانی خلا میں پھنس جاتا اور اسی لمحے ریل آ جاتی تو!

لیکن ایک دفعہ واقعی ہی کچھ ایسا ہوا جو اس خوف سے بھی زیادہ خوف ناک تھا۔

پھاٹک کے ایک طرف پیدل چلنے والوں کے لئے راستہ بنا ہوا تھا جس میں ایک چرخی لگی ہوئی تھی اور بائیسکل سوار بھی بائیسکل ہوا میں اٹھا کر یہاں سے گزر جاتے تھے۔ ریل گاڑی تیزی سے آ رہی تھی، میں نے چرخی گھمائی اور اپنی طرف کے پھاٹک کے اندر جا کر رک گیا۔ ٹرین تیزی سے گزر گئی۔ میں نے دوسری طرف نہیں دیکھا اور بھاگ کر ریلوے لائن کراس کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف سے ٹرین سر پر آ گئی اور جونہی میں نے اپنا پاؤں ٹریک کے دوسری طرف رکھا ٹرین تیزی سے گزری اور اس کی ہوا سے میں دوسری طرف کے پھاٹک سے جا ٹکرایا۔ اگر میں ایک لمحہ بھی دیر کر دیتا تو یہ واقعہ نہ جانے کون لکھ رہا ہوتا۔ شاید کسی اخبار کا رپورٹر۔

میں ینگ مین

سکول جاتے اور آتے ہوئے بہت دلچسپ کردار ملتے جو کہیں اور جا رہے ہوتے۔ جیسے کسی نے کسی سے پوچھا کہ اگر آپ کہیں جا رہے ہوں اور بلی راستہ کاٹ جائے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ جواب ملا ”اس کا مطلب ہے کہ بلی بھی کہیں جا رہی ہو گی”

راستے میں سردار گرلز ہائی سکول بھی پڑتا تھا جس کے دروازے پر ہم لڑکے نظریں جمائے ہوئے گزرتے۔ عین اسی مقام پر روزانہ ایک بڑے میاں ملتے جو غالباً سبزی فروش تھے۔ وہ سر پر سبزیوں سے بھرا ہوا ٹوکرا اٹھائے ہوئے ہوتے

ہم انہیں روزانہ کہتے : بابا جی اسلام و علیکم
تو وہ تنک کر ایک ہی جواب دیتے ”بابا تہاڈا پیو میں ینگ مین“

میں عمر کے اس حصے میں انہیں یاد کر تا ہوں اور ان کا جذبہ دل میں جگانے کی کوشش کرتا ہوں اور روزانہ خود سے کہتا ہوں

” بابا تیرا پیو میں ینگ مین“
(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments