“بھلے” ملک کو کہاں لے جائے گا


پاکستان کے مشہور نجی انٹرٹینمنٹ چینل ہم ٹی وی پر نشر کیے جانے والے ڈرامہ سیریل ’عشق مرشد‘ کے چرچے آج کل نہ صرف ملک کے طول و عرض میں ہو رہے ہیں مگر سرحد پار بھی ناظرین اسے بہت پسند کر رہے ہیں، با الخصوص نامور مزاحیہ فنکار علی گل ملاح کے ڈائیلاگ ’بھلے‘ کو بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے اور مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ بھلے سندھی زبان ایک لفظ ہے جو عموماً کسی بھی بات، معاملے، موقف وغیرہ سے اتفاق کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

جیسے انگریزی زبان میں اوکے یا پھر اردو میں ’ٹھیک ہے‘ عام طور پر بولا جاتا ہے۔ بہرحال بھلے لفظ کا جس طرح معروف کامیڈین علی گل ملاح نے اپنے مخصوص انداز میں استعمال کیا ہے، اسے ان کے مداحوں میں بہت زیادہ پسند کیا جا رہا ہے پر ہم یہاں بھلے کے پس منظر میں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ اس ملک کے قیام سے لے کر آج یعنی 8 فروری 2024 ء کو منعقد کرائے گئے عام انتخابات تک مقتدرہ نے جو بھی عوام اور ملک کی مخالفت میں کام کیا یا اقدام اٹھائے ہیں، بالواسطہ یا بلا واسطہ سیاستدانوں کی اکثریت اور عوام نے بھی بڑی حد تک جواب میں ’بھلے‘ ہی بولا ہے اور شاید اسی کا خمیازہ آج کوئی ایک گروہ، فرقہ، شہر یا صوبہ نہیں بلکہ عوام کی اکثریت بھگت رہی ہے کہ حقیقی طور پر دو وقت کی روٹی تک کا انتظام کرنا ناممکنات کی حدوں کو چھو رہا ہے۔

قیام پاکستان کے فوری بعد ہی مقتدرہ نے اقتدار پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دیے تھے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ ستمبر 1948 ء میں شدید علیل بانیٔ پاکستان کو بلوچستان سے کراچی ائرپورٹ پر لانے کے بعد ایک کھٹارا ایمبولنس میں بٹھا کر اسپتال لے جایا گیا جو بیچ راستے میں خراب ہو گئی اور یوں ان کی زندگی اختتام پذیر ہو گئی، مگر قائداعظم کے ساتھیوں نے حقیقت کو عوام تک پہنچانا گوارا نہیں کیا اور بس یہی بولے ’بھلے‘ ۔

جناح صاحب کے بعد سیاسی طور پر سب سے طاقتور شخصیت لیاقت علی خان تھے جن کے کندھوں پر آئین بنانے کی ذمہ داری تھی جو انہوں نے پوری کرنا گوارا نہ کیا اور دستور ساز اسمبلی سے 1949 ء میں قرارداد مقاصد منظور کر والی، دو ڈھائی برس بعد پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی باری آئی اور 16 اکتوبر 1951 ء میں سید اکبر نامی شخص نے راولپنڈی کے کمپنی باغ میں انہیں گولیاں مارکر جاں بحق کر دیا، موقع پر موجود سیکیورٹی حکام نے ملزم کو گرفتار کرنے کے بجائے اسے وہیں پر گولیوں سے بھون ڈالا اور یوں پاکستان کے پہلے ہائی پروفائل قتل کی فائل کھلنے سے پہلے ہی بند کردی گئی۔ خلق خدا نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا اور سب نے مل کر کہا ’بھلے‘ پھر کیا ہوا آج تک لیاقت علی خان کا قتل ’بلائنڈ مرڈر‘ کے طور پر پولیس فائل میں درج ہے۔

اس ہائی پروفائل قتل کے بعد اگلے 7 برس تک وزرائے اعظم یکے بعد دیگرے تبدیل ہوتے رہے، 1955 ء میں عاقبت نا اندیشوں ون یونٹ نافذ کر کے مشرقی پاکستان میں نفرت کا بیج بو دیا، ایک چھوٹی ذہنیت رکھنے والے چیف جسٹس منیر نے آئین و قانون کے بجائے نظریہ ضرورت کو فوقیت دی، اکثریت نے تب بھی کہا بھلے۔ سیاستدان آپس میں اقتدار کی رساکشی میں مصروف تھے کہ 1958 ء میں ایوب خان آ گئے اور یوں اکثر سیاست دانوں نے ایک بار پھر کہا ’بھلے‘ اور اب کی بار کہے گئے بھلے کی اگلے 11 برس تک بلے بلے رہی کیوں کہ محض گیارہ برس عمر رکھنی والی نئی نویلی ریاست جس کا ابھی بچپنا چل رہا تھا، کی باگ ڈور ایک ڈکٹیٹر ایوب خان نے سنبھال لی، بلا جواز مارشل لا نافذ کر کے سیاہ و سفید کا مالک بن کر بیٹھ گیا، فراڈ صدارتی انتخابات کا انعقاد کروا کے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کر بنگالیوں میں موجود بے پناہ غصے اور نفرت کو پروان چڑھایا، حالات بد سے بدتر ہوتے گئے، 1969 میں اقتدار اپنے ساتھی جنرل یحییٰ کے سپرد کر کے پتلی گلی سے نکل لیے، 70 ء کے انتخابات ہوئے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی پر انہیں حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا گیا، سقوط ڈھاکا ہو گیا، مشرقی پاکستان نے جان چھڑا کر بنگلادیش بننے کو ترجیح دی، جنرل یحییٰ مستعفی ہو کر گھر چلے گئے، بھٹو صاحب نے صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا حلف اٹھایا، شملہ میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے ذریعے نوے ہزار پاکستانی فوجی اور پانچ ہزار کلو میٹرز پر مشتمل علاقہ بھارت کے قبضے سے چھڑانے میں کامیاب ہوئے، 1973 ء میں ملک کو پہلا متفقہ آئین فراہم کیا، علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کیا مگر پانچ جولائی 1977 ء کو جنرل ضیاء نے مارشل لا نافذ کر دیا، سیاسی جماعتوں پر پابندی، بھٹو صاحب کو پھانسی پر لٹکا دیا مگر خاطرخواہ عوامی ردعمل نہیں آیا، اس بار بھی شاید بھلے کا راگ ہی الاپ دیا گیا یوں ایک بار 11 برس طویل، سیاہ رات چھا گئی۔

17 اگست 1988 ء کو طیارہ حادثے میں ضیاء جیسے سماج دشمن سے سب کی جان چھوٹی، ایک بار پھر جمہوریت کی صبح طلوع ہوئی مگر گیارہ سال یعنی 1988 ء سے 1999 ء تک دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتی رہیں، یوں 12 اکتوبر 1999 ء کو ایک بار پھر جنرل مشرف آ گیا، اکثریت نے بھلے کہا 2008 ء میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر ایوان صدر سے گھر جانے پر مجبور کر دیا۔

نواز شریف مختصر عرصہ درست سمت پر چلے مگر پھر منتخب حکومت کے خلاف ماضی کی چالیں چلنے لگے، یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر نا اہل قرار دیا، مخالف جماعتوں نے کہا بھلے، 2013 ء کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھنے والے پہلے شخص بننے کا اعزاز اپنے نام کیا، 2017 ء میں سپریم کورٹ نے بیٹے کی آف شور کمپنی میں ملازمت کے الزام میں نا اہل قرار دے دیا، اکثریت نے بھلے کا کہا، عمران خان تبدیلی کا نعرہ لے کر 2018 ء میں وزیراعظم بن گئے، معیشت کو سنبھالنے اور انتخابی وعدے پورے کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے، 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں خانصاحب کو گھر بھیج دیا گیا، اس بار بھی اکثریت نے بھلے کہا، یوں انگنت ڈرامی ادوار سے گزرتے ہوئے صورتحال 8 فروری 2024 تک آں پہنچی، انتخابات کا انعقاد ہوا، رات گئے تک جو امیدوار آگے چل رہے تھے صبح ہوتے ہی پیچھے کی طرف سفر شروع کر دیا، با الخصوص سندھ کے دارالحکومت کراچی، پنجاب اور بلوچستان کے انتخابی نتائج کو روک کر شکوک و شبہات کو تقویت دی گئی اور مکمل نتائج آنے کے بعد سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، پیر پگارو جیسے سیاستدان بھی پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بول پڑے، مگر اس تمام صورتحال میں اس ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں، رہنما اور عوام بھلے کا ورد ہی کرتے نظر آ رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار کہا گیا یہ بھلے ملک و ملت کو کس نہج تک لے جائے گا، بھلائی کی امید کی جائے یا بس بھلے بھلے ہی چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments