کیا باپ دوست نہیں بن سکتا؟


اسماء آج بہت اداس ہیں، شوہر کے مرنے کے بعد انھوں نے بہت حوصلے سے سخت حالات کا مقابلہ کیا لیکن ہمت نہ ہاری۔ لیکن بالآخر آج حوصلہ کر کے اپنے مرحوم شوہر کی الماری سے سارے کپڑے نکال کر ایک شیلٹر ہوم بھیج دئیے۔ کچھ کپڑے اس لئے رکھ چھوڑے کہ انھیں اپنی بیٹی کے بنا سسکی لئے گرم گرم آنسو رخساروں سے پھسلتے دکھائی دئیے تھے۔ جس پر اپنی بیٹی کی ہمت بڑھاتے ہوئے پوچھا بتاو ابو کے کون سے کپڑے اپنے پاس رکھنے ہیں۔ اس نے دو سوئیٹر، دو شلوار قمیض جو اسکے والد پر بہت جچتی تھی، کچھ پولو شرٹس اور ایک پینٹ سائیڈ پر رکھ دی۔ جب بیٹی دوسرے کمرے میں چلی گئی تو اسماء نے بھی چپکے سے کچھ اور کپڑے جو انکو اپنے شوہر پر بہت اچھے لگتے تھے نکال کر ایک سوٹ کیس میں بند کئے اور باقی سلیقے سے تہہ کر کے بڑے بڑے تھیلوں میں بھرکر بیٹے کو تاکید کی کہ یہ چھوڑ آو۔ الماری اب خالی ہے تم اس میں اپنی ضرورت کی چیزیں رکھ سکتے ہو۔

بظاہر یہ ایک عام سی بات ہے لیکن جب سے یہ تبدیلی گھر میں آئی اسماء اور انکی بیٹی کو یہ محسوس ہونے لگا کہ آج اس گھر کا سربراہ نہیں رہا ۔ جس شام جوان بیٹا الماری میں اپنے کپڑے رکھ رہا تھا اسے وہاں سے ایک لفافہ ملا جس میں اس کے والد کے نام وہ خطوط تھے جوا نکی بڑی بہن اور بھائی نے لکھے تھے یہ تمام خط ستر، اسی اور نوے کی دہائی کے تھے۔ لفافہ یہ کہہ کر اسماء کے حوالے کیا گیا کہ آپ لوگوں نے گھر میں بہت غیر ضروری سامان اور کچرا جمع کیا ہوا ہے الماری میں کپڑوں کی جگہ بنی تو اب یہ ردی مل گئی۔

اس ردی کو پڑھنے میں اسماء کی بڑی بیٹی نے پوری رات لگائی اور پھر اسے ایک نئے لفانے میں ڈال کر اپنی الماری میں وہاں رکھا جہاں باپ کی پسندیدہ گھڑی رکھی تھی اور اس پر وقت وہیں رکا ہوا تھا جہاں نبض بند ہوئی تھی۔ اس گھڑی کا کمال ہی یہی تھا کہ وہ پہنتے ہی چل پڑتی تھی لیکن گزرا وقت کہاں واپس آتا ہے کہ جو ماضی میں غلط ہوا اسے ٹھیک کرلیا جائے۔ بیٹی نے اپنے ا با سے گھڑی پہننے کا شوق اور وقت کی پابندی سیکھ لی تھی، شاید وہ چلتی پھرتی اپنے باپ کی جیسی تھی۔ اصول پسندی، حق بات پر ڈٹے رہنا، وقت کی پابندی اور کام وقت پر مکمل کرنا اسکو باپ سے ورثے میں ملا ۔ لیکن بیٹا جسے وراثت میں حصہ بھی زیادہ ملا اور باپ کے جانے کے بعد اہمیت بھی وہ باپ کی کوئی عادت نہ اپنا سکا۔ اسے باپ سے انسیت تھی نہ ہی کوئی لگاو ۔ بچپن باپ سے ڈرنے میں گزرا، جوانی سرکشی میں۔ کہتے ہیں بیٹیاں جب قد کاٹھ نکالنے لگیں اور اماں کا شوقیہ دوپٹہ اوڑھنے والی بچیوں کے جب ہاتھ میں ماں کی چوڑی اور پیروں میں چپل آنے لگے تو سمجھو کہ اب دوست بنانے کا وقت آ گیا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہر چیز چمکتی دمکتی اور ہر شخص قابل اعتبار اور سمجھانے والا دشمن دکھائی دیتا ہے۔ بچیوں پر کم عمری میں کی جانے والی سختی اور روک ٹوک ان کو جوانی میں بھٹکنے سے کم ہی دوچار کرتی ہے جبکہ لڑکوں کے معاملات اس سے مختلف ہیں۔ بیٹا اگر کم عمری میں دوست نہ بنایا جائے تو جوانی میں وہ سرکش گھوڑے جیسا ہوجاتا ہے۔ بیٹیوں کی یاد داشت کمزور ہوتی ہے اماں نے کب کب ڈانٹا، مارا، ٹوکا وقت کے ساتھ بھول جاتی ہیں۔ لیکن بیٹے نہیں بھولتے۔ پانچ یا دس سال کی عمر میں پڑنے والی مار کے نیل بیس یا پچیس سال کی عمر میں دکھنے لگتے ہیں، گھاؤ رسنے لگتے ہیں۔ وہ مار سردیوں کی ہو یا گرمیوں کی کسی شام گھر دیر سے آنے پر پڑی ہو ہر خوشی اور غمی کے موقع پر ان کو ایسے یاد کروایا جاتا ہے جیسے کوئی برسی ہو۔ اس روز یہ راز والدین پر کھلتا ہے کہ ببول کی کاشت پر گلاب کی امید رکھنا سراسر غلطی ہے۔

اسماء کی بیٹی ان سے کافی قریب ہے، یہاں تک کہ کبھی کبھی ماں کی چیزیں دیدہ دلیری سے شئیر کرتی ہے۔ جس روز شوہر کی الماری خالی کرنے کا دن آیا اس سے ایک رات قبل انھوں نے اپنی بیٹی سے بہت ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا کہ دنیا کے بیٹے اپنے باپ کی چیزیں بخوشی استعمال کرتے ہیں کپڑے، سوئیٹر، جیکٹس، والٹ پر اپنا حق جتاتے ہیں ایک یہ بیٹا ہے جو ان چیزوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ کیا اسے باپ سے محبت نہیں ہے؟ بیٹی نے جواب دیا محبت ہوگی بالکل ہوگی یہ تب ظاہر ہوگی جب وہ صاحب اولاد ہوگا۔ لیکن کاش بھائی وہ عمل نہ دہرائے جو ابو نے اس کے ساتھ روا رکھا۔ جو سختی، مار پیٹ ابو نے بھائی کے ساتھ کی یہ اس کا ہی نتیجہ ہے جو آج آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بے وجہ کی روک ٹوک، باہر کا غصہ اسے مار کر نکالنا، اس کی ضد یا رونے پر اسے مزید مارنا شاید وہ اس کی تربیت کرنا سمجھتے ہوں لیکن وہ کچھ اور ہی بن گیا۔ آج اسے یہ لگتا ہے کہ ابو کو اس سے پیار ہی نہیں تھا۔ اسکی کوئی اہمیت نہیں تھی اس کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ کیا آپ بھول گئیں جب وہ ٹی وی پر میچز دیکھتا تو ابو کا کھلاڑیوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانا اسے زچ کر جاتا تھا اور پھر وہ خاموشی سے ٹی وی بند کردیتا تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar