کیا موجودہ رئیس گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ذہنی بونوں کی تعداد بڑھانے میں مصروف ہیں؟


ہمارے تعلیمی اداروں کو آخر کیا ہوتا جا رہا ہے جو دن بدن زوال کی کھائی میں دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں اور اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ گزری ہوئی صدیوں کے مستعمل یا استعمال شدہ افکار کی روشنی میں کرنے پر بضد ہیں۔ کیا آنکھوں پر پٹی باندھ لینے سے وقت تھم سکتا ہے یا منڈلانے خطرات و چلینجز روحانی چٹکی سے ٹل سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا پر روحانی ملنگوں کا راج ہوتا اور سب کچھ پلک جھپکتے ہو رہا ہوتا مگر حقائق کی دنیا کے چلن کچھ اور ہوتے ہیں جن کے سامنے روحانی چالبازیاں بالکل نہیں چلتیں، ورنہ ملنگ دوراں سرکار عمران خان جو ہر وقت ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں ان کی حکومت قائم و دائم رہتی مگر جو ہوا وہ سب تاریخ کے پنے پر درج ہو چکا ہے۔

مہذب دنیا میں ہر سال انجینئر، سائنسدان اور ٹیکنالوجسٹ کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے جب کہ ہم اکیسویں صدی میں بھی ملنگ پیدا کرنے کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ سیانوں سے سنتے آئے ہیں کہ ”ہمیشہ پیاسا کنویں تک چل کے جاتا ہے کبھی کنواں پیاسے کے پاس نہیں آتا“ اس حقیقت یا جملے کا مان وہ قومیں رکھنے میں مصروف عمل ہیں جو ہماری نظروں میں صدیوں سے ”کافر“ ٹھہری ہوئی ہیں، وہ اتنے زیادہ علم کے لالچی اور جستجو کے پیاسے ہیں کہ وہ تجرباتی لیبارٹریوں سے باہر ہی نہیں نکلتے اور کچھ نیا تلاش کرنے کے لئے جیمز ویب کے ذریعے ستاروں پر کمندیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔

یہ کافر اتنے حریص اور لالچی ہیں کہ دنیا کا خزانہ لوٹنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید لوٹ مار مچانے کے لئے خود چل کر چاند تاروں کے پاس جا پہنچے۔ ظاہر ہے بھوکے اور پیاسے لوگ ہی تو عاجزی و انکساری کے ساتھ چل کر ”ذخائر“ تک پہنچتے ہیں جن کی توندیں فارغ البالی یا فارغ الذہنی کی وجہ سے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں وہ ”درجہ صارف“ میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہوئے خوشی سے بغلیں بجاتے رہتے ہیں۔ ہماری سوچ کا محور یا باوا آدم ہی نرالا ہے جو ہمیں خواہ مخواہ کی خوش فہمیوں سے باہر نہیں نکلنے دیتا اور ہم آج بھی ترقی کے معلوم راستوں کو نظر انداز کر کے ماضی کے اندھیرے یا معدوم راستوں پر چل کر اپنی منزل کو پانا چاہتے ہیں، جو ہماری خام خیالی تو ہو سکتی ہے حقیقت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

ہماری یونیورسٹیوں کے پلیٹ فارم آج بھی ان لوگوں کے لئے کھلے رہتے ہیں جو ماضی پرست ہوتے ہیں اور باتوں کا چورن بیچتے ہیں۔ حال ہی میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ایک ایسے شخص کو مدعو کیا گیا جو ارتقا سے انکاری اور اس عمل کو ڈھکوسلا گردانتا ہے۔ موصوف کا نام قیصر راجہ ہے جو سائنس کو مذہبی رنگ میں پیش کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے اور طلباء اسے سائنٹیفک برین تصور کرتے ہوئے بڑے فخر سے تصویریں کھنچوانے میں مصروف رہتے ہیں۔

وہ اس حقیقت سے بالکل بے نیاز ہیں کہ موصوف سائنس کے نام پر اور مذہب کی آڑ میں انہیں بے وقوف بنانے میں مصروف رہتا ہے، کیوں کہ سودا بیچنے والا مارکیٹنگ ٹرینڈز سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہ اس کا سودا کیسے بک سکتا ہے؟ اور ہر بندہ بخوبی جانتا ہے کہ دنوں میں اڑان کے لیے مذہبی ٹچ سے بہتر کوئی حربہ نہیں ہوتا۔ جب بغیر محنت کیے عروج نصیب ہو رہا ہو تو پھر محنت کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ حال ہی میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں ادارہ تصوف و عرفان کا سنگ بنیاد رکھا گیا تاکہ گمراہین کو سدھارنے کا کام اچھے سے کیا جا سکے اس کے علاوہ لمز یونیورسٹی میں ”آسٹرولوجی“ کو بطور مضمون متعارف کروایا گیا۔

مطلب اب ہماری یونیورسٹیاں مشائخ اور نجومی بھی پیدا کریں گی جو ستاروں کا احوال جان کر دنیا کو خطرات سے آگاہ کیا کریں گے۔ ہماری مشہور و معروف جامعہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی بھلا پیچھے کیسے رہ سکتی ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ چار ہاتھ آگے ہی ہوگی پیچھے نہیں۔ ہمیں آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آ سکی کہ اس یونیورسٹی میں ایسا ”مختلف“ کیا ہے جس کی وجہ سے اسے ایک معتبر ادارہ سمجھا جاتا ہے اور اس ادارے کے فارغین اس کی تعریفوں کے پل باندھ کر دوسروں کے کانوں کو ایذا پہنچاتے رہتے ہیں؟

اب اگر کوئی یہ کہے کہ محمد اقبال جیسا نابغہ اس ادارے میں پڑھتا پڑھاتا رہا ہے تو یہ کوئی جواز نہیں بنتا؟ ان کی علمی خدمات سے انکار نہیں مگر عمارت کی مضبوطی میں کریڈٹ صرف ایک بندے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ افراد کی مجموعی کاوشوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن اگر اتنے قد کاٹھ والے تعلیمی ادارے میں اس قسم کے لوگوں کو خوش آمدید کہا جا رہا ہو جو اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے اس کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر کے ایک ایسی فکر کو رواج دے رہا ہو جو کہ غیر متعلقہ ہو تو پھر ادارہ کی موجودہ شکل کو دیکھ کر ہی اس کی کریڈیبلٹی پر سوال کھڑے ہوں گے ماضی کو بھلا کون یاد رکھتا ہے؟

اور کسی کو اس سے کیا لینا دینا کہ ماضی میں بڑی بڑی شخصیات نے اس جامعہ سے استفادہ کیا ہے اگر ماضی کی مہان جامعہ آج کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں چل پا رہی تو سوال اٹھیں گے۔ ڈاکٹر اصغر زیدی اگر اس معروف جامعہ کو دنیا کی سطح تک لے جانا چاہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ جن شخصیات کو مدعو فرماتے ہیں کیا ان کی فکر آج کے تقاضوں کے عین مطابق ہے یا قرون وسطٰی میں کہیں اٹکی ہوئی ہے؟ اب جنوں سے انڈے دلوانے والے احمد رفیق اختر، حوروں کی پنڈلیوں کی چمک کا احوال بتانے والے مولانا طارق جمیل، جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر داد سمیٹنے والے قاسم علی شاہ یا حماد صافی جس کا یہ موقف ہے کہ وہ اپنی نو سالہ کزن کو دیکھتے ہی نظریں نیچی کر لیتا ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان جو ابھی تک اس واہمے کا شکار ہے کہ صاحب بہادر امریکہ نے اس کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے، سوال یہ ہے کہ ان سب شخصیات کو بلوا کر ہم اپنے بچوں کو ”نیا یا مختلف“ کیا متعارف کروانا چاہتے ہیں؟

یہ شخصیات ہمارے بچوں کو مختلف کیا دے سکتے ہیں؟ جنہیں متعلقہ شعبے کے ماہرین سے متعارف کروانا چاہیے ہم انہیں غیر متعلقہ لوگوں کے سامنے بٹھا کر ان کی توجہ کو تقسیم کر رہے ہیں؟ جو جہاں کا ہوتا ہے وہیں جچتا ہے ملاوٹ کرنے سے ملاوٹی رویے یا رجحانات جنم لیتے ہیں اور کنفیوژن کے درمیان جھولنے والے نا تو اچھے استاد ثابت ہو سکتے ہیں اور نہ اچھے طالب۔ سوال یہ ہے کہ جذبات کے ساتھ کھلواڑ کر کے اپنا کام نکالنے والے لوگ کھرے یا سچے ہو سکتے ہیں؟

جس لیڈر کو عوام کی نظروں میں مقبولیت لینے کے لیے اسلامک ٹچ کی ضرورت پڑتی ہو وہ تو ضرورت پڑنے پر کوئی بھی ٹچ دے کر عوام کو یونہی بے وقوف بناتا رہے گا مگر ایک جامعہ کے چند روزہ مہمان جنہیں والدین بڑی مشکل سے یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں ان کے استحصال کا ذمے دار کون ہو گا؟ بھلے اصغر زیدی کا یہ موقف ہو کہ ہم اس طرح کی سرگرمیوں کو فروغ دے کر مختلف افکار طلباء تک پہچانا چاہتے ہیں مگر کیا وہ موجودہ سیاسی منظر نامے سے لاعلم ہیں؟

کیا وہ فرقہ عمرانیہ کے گالم گلوچ کلچر سے بے خبر ہیں؟ اگر بے خبر ہیں تو ذرا اختلاف کرنے کا مادہ پیدا کریں پھر اپنے اکاؤنٹ چیک کیجئے گا کہ کیسے ان کا سائبر ونگ جناب کی ذات پر حملہ آور ہوتا ہے؟ بہرحال جینوئن سوال یہی ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے جہالت کی فیکٹریوں میں کیوں تبدیل ہونے لگے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments