لاء یا مدر ان لاء


فیصلہ فیصلہ ہوتا ہے خواہ وہ لاء کا ہو یا پھر مدر ان لاء کا۔ ایک زمانہ تھا کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلی نواب رئیسانی کا یہ ڈائیلاگ ”ڈگری ڈگری ہوتی ہے خواہ وہ جعلی ہو یا اصلی“ بہت مشہور ہو گیا تھا اور اس ڈائیلاگ سے ملتے جلتے کئی ڈائیلاگز لوگوں نے خود ساختہ بنا کر اس ٹرینڈ کو مزے لے لے کر آگے بڑھایا۔

پھر کرنل کی بیوی کا ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا اور اس ڈائیلاگ سے ملتے جلتے کئی ڈائیلاگز لوگوں نے سوشل میڈیا پر طنز و مزاح کا ٹرینڈ بنا بنا کر وائرل کرتے گئے۔ پھر چلتے چلتے یک دم ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے اور ایک معصوم سی لڑکی ایک مختصر سی ویڈیو میں وارد ہوتی ہے اور اپنے ڈائیلاگ کے لفظی ٹرائیکا کے ساتھ ”یہ میں ہوں یہ ہماری کار ہے اور یہ پارٹی ہو رہی ہے“ راتوں رات سوشل میڈیا پر چھا جاتی ہے۔

کیا چھوٹے کیا بڑے، کیا سنجیدہ کیا رنجیدہ، کیا سیاستداں کیا فلمی ایکٹر، کیا سنگر کیا شو بزنس کے افراد سب نے پھر اس پر طبع آزمائی کی اور اس ٹرینڈ کو تب چھوڑا جب اس معصوم سی لڑکی کو دنانیر کے نام سے دریافت کر کے شوبز کا حصہ نہیں بنایا۔

ساس بھی کبھی بہو تھی کا ڈائیلاگ بھی اس ڈرامے کے بعد کئی بار مخصوص مواقع پر لوگوں کے زبان سے ہم نے سنا۔ ایک دن بہو کا، کے نام کی فلم تو ٹی وی پر جب مہینے کے آخر میں فلم آتی تھی بڑے شوق اور انہماک سے دیکھی جاتی تھی اور جب جوہی چاولہ کی فلم ساس میری سہیلی ہٹ ہوئی تو اس فلم نے لوگوں کے دلوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔

ساس بہو کے موضوع پر متعدد ڈرامے اور افسانے لکھے اور پیش کیے جا چکے ہیں۔ ساس بہو کی مخاصمت ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی رہی ہے بلکہ محبت کی طرح فلموں ڈراموں اور افسانوں کا گرما گرم اور پسندیدہ موضوع رہا ہے۔

لیکن ساس اور داماد کا موضوع میڈیا یا سوشل میڈیا پر کبھی وائرل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اصل میں قانون کو انگریزی میں لاء کہا جاتا ہے اور سب کو پتہ ہے کہ ہمارا ملک بھی لاء پر چلتا ہے اگر بندہ کچھ کھانسنے والا ہو، فیس ویس لا سکتا ہو تو پھر یہ لاء ہر زاویے سے مثبت ہوتا ہے وگرنہ عربی کے لا میں کنورٹ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ در اصل ہم وکیل لاء کے اتنے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ اگر کلائنٹ جیب میں چھالیہ نکالنے کے لئے بھی ہاتھ ڈالتا ہے تو ہم آسرا لگا بیٹھتے ہیں کہ شاید کچھ لایا ہوا مال نکال رہا ہے۔

ہمارے ایک سینئر وکیل دوست ہے وہ کہتے ہیں کہ وکیل اور ملا لینا جانتے ہیں دینا نہیں وکیل ایک بار فیس قابو کرے پھر ان کو کوئی قابو نہیں کر سکتا۔

ملا گو کہ وعظ اور نصیحت میں اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر کا گردان کرتے نظر آتے ہیں لیکن صدقہ، خیرات اور زکوة کا بہترین مصرف مسجد اور مدرسے کو گردانتے ہوئے نہیں تھکتے بلکہ اپنی ساری طاقت ان ساری بلاؤں کو ان ہی صدقات کے طفیل بھگانے پر صرف کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایک بار کسی گاؤں میں کسی ندی میں باڑ آ گئی جس میں ایک ملا صاحب گر کر بہنے لگے جس کے پیچھے اس مسجد کے ایک مقتدی کو ملا صاحب کو بچانے کے لئے بھاگنا پڑا اور اس باڑ کے کنارے کنارے بھاگتے ہوئے ملا صاحب کو بچانے کے لئے مسلسل پکارتے رہے ملا صاحب ہاتھ دو! ملا صاحب ہاتھ دو! ملا صاحب ہے کہ باڑ میں بہے چلے جا رہے ہیں لیکن اس بچانے والے مقتدی کو اپنا ہاتھ دے نہیں پا رہے ہوتے ہیں۔ وہاں پر ایک اور صاحب اس سیچوویشن کو بھانپ لیتے ہیں اور ملا صاحب کو بچانے کے لئے اس مقتدی سے کہتے ہیں کہ ملا صاحب سے کہیں ہاتھ لو! ہاتھ لو! تب ہاتھ لیں گے ورنہ نہیں کیونکہ ملا صاحب کے ہاتھ لینے کے عادی ہیں دینے کے نہیں۔

دراصل سسرال کو ان لاءز کہا جاتا ہے اور ان سے جڑے ہوئے تمام رشتے لاء کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ فادر ان لاء کے مد مقابل مدر ان لاء پوری آب و تاب سے کھڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بردر ان لاء کے شانہ بشانہ سسٹر ان لاء اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کے لئے ہر گھڑی تیار اور کامران کھڑی رہتی ہے۔

سن ان لاء کے ساتھ ڈاٹر ان لاء غیر مترادف کے طور پر گرائمر کیں نوک پلک درست کرنے اور مزید تقویت دینے کے لئے ایک دوسرے کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کے دوبدو کھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

دراصل سن ان لاء جسے حرف عام میں داماد جی کہا جاتا ہے جبکہ ڈاٹر ان لاء کو سادی اردو میں بہو کہا جاتا ہے۔ گھر چونکہ ایک ریاست کی مانند ہوتا ہے جس میں مدر ان لاء یا تو وزارت داخلہ ہوتی ہیں یا پھر گھر کو اگر پشتو کے لفظ کور سے ترجمہ کر کے لکھا پڑھا اور سمجھا جائے اور اختیار کا منبع بھی جیسے کہ اکثر ہوتا بھی ہے اگر مدر ان لاء کے چشمہ فیض سے پھوٹتا ہو تو پھر مدر ان لاء کو ساری پاورز اور اختیارات کور کمانڈر کے حاصل ہوئے ہوتے ہیں۔

داماد کا فیصلہ اگر مدر ان لاء کے مشورے کے بغیر ہو تو اس میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور ہوتا ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے جو اسی بینچ کے سامنے لگتا ہے جس بینچ نے اس پر اپنا فیصلہ صادر کیا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ فیصلہ صادر فرمانے سے پہلے اگر مدر ان لاء سے باہم مشاورت ہو چکی ہوتیں ہے تو پھر اس میں کتنے بھی سقم ہو اس پر انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا اس پر نظر ثانی کرنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا کیونکہ وہ سرکردہ فیصلہ ہوتا اور جو فیصلہ سر کردہ ہو، مدر ان لاء کا ہو اور ان کو کور کمانڈر کے سپیشل پاور اور اختیارات بھی حاصل ہوں تو ایسے وقت میں ان کے فیصلوں کے نفاذ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے اور پھر جس کے خلاف نہ نظر ثانی، نہ ریویژن اور نہ اپیل قابل سماعت ہو تو پھر ڈر اور دیر کس بات کی ایسے فیصلے تو پھر ان اور آن کیمرا، اوپن اور کھلے ڈلے ہونے چاہیے تاکہ سب ان کو نہ صرف پڑھ اور سمجھ سکیں بلکہ برداشت بھی کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments