بے نظیر نے اپنے ذاتی دکھ کو کبھی سیاست پر حاوی نہ ہونے دیا


ابھی جبکہ میں قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی تب ہی میں نے دی نیوز جوائن کر لیا تھا۔ نیوز ڈمی فیز میں تھا اور ہم روزانہ آ کر اخبار بنایا کرتے تھے۔ ڈمی فیز بڑا دلچسپ مگر صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔

اسی دوران جنگ کی گولڈن جوبلی منائی گئی۔ شاید اسلام باد ہوٹل میں تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ میر خلیل الرحمن صاحب بھی کراچی سے آئے ہوئے تھے۔ کیک کٹنا ابھی باقی تھا، شُنید یہ تھی کہ میاں نواز شریف صاحب آ کر کیک کاٹیں گے۔ اچانک پتہ چلا کہ بینظیر بھٹو صاحبہ ایک دوسرے ہال میں تشریف لائی ہیں اور میڈیا سے ملاقات کر رہی ہیں۔ میر خلیل الرحمن، صاحب فراست شخص تھے انھوں نے موقع غنیمت جانا اور ہم سب کو کہا کہ بی بی کی میٹنگ میں چلے جائیں جب تک نواز شریف صاحب بھی آ جائیں گے۔

ایک تو بی بی سے ملنے اور ان کے دیدار کا شوق دوسرے باس کا حکم۔ ہم تمام خواتین جن میں اس وقت جنگ میں کام کرنے والی شاہانہ، ملیحہ لودھی صاحبہ کی پی اے عابدہ، دیگر دوسری خواتین، رپورٹرز اور کیمرہ میں وہاں پہنچ گئے۔ بی بی اپنے شاہانہ انداز میں بیٹھی اپنی پارٹی اور اپنے آئندہ پروگرام کے بارے میں بتا رہی تھیں، ساتھ ساتھ اپنے پروگرام کے دعوت نامے بھی لوگوں کو دے رہی تھیں۔ شاید بی بی کو نواز شریف صاحب کے وہاں آنے اور جنگ کی تقریب میں شرکت کا پتہ تھا اسی لیے انھوں نے اپنے آنے کا پروگرام بنایا کہ وہاں بہت سے وی آئی پیز کے آنے کی توقع تھی۔ یہ جنگ کی گولڈن جوبلی ہی نہیں تھی بلکہ پاکستان کے پہلے ہائی ٹیک انگلش نیوز پیپر کی غیر رسمی تعارفی تقریب بھی تھی۔ سب کو نیوز کی کامیابی کا یقین تھا۔

خیر ہم سب خواتین بی بی کے گرد جمع تھے اور وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ اور کانونٹ انگریزی اور اردو کے ساتھ ہم سے گھل مل گئیں اس بات پر بے حد خوش ہوئیں جب ہم نے انھیں بتایا کہ نئے آنے والے اخبار میں تمام سیکشن ہیڈ خواتین ہوں گی، اور اس کی ایڈیٹر تو خاتون ہیں ہی۔ نیا آنے والا اخبار اپنی طرز کا پہلا انگریزی روزنامہ ہو گا جو پورا کمپیوٹرائزڈ ہو گا۔
اسی دوران ہم نے جو سٹوڈنٹس بھی تھے ان کو یونیورسٹی آنے کی بھی دعوت دے ڈالی جسے انھوں نے ایک دھیمی سی مسکراہٹ سے قبول کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا دعوت نامہ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ ان کے جلسے میں ضرور آؤں۔ پروفیشن میں نئے آنے والوں کے لیے اس طرح کے دعوت نامے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتے۔ ان سے کارڈ لیتے ہوئے ہمارے فوٹو گرافر وقاص زیدی صاحب نے تصویر بھی لے ڈالی جو بعد میں انھوں نے ہمیں سلیم بخاری صاحب کی وساطت سے دی۔ حوادث زمانہ کے ساتھ اور اسلام آباد سے کرaچی شفٹ ہوتے ہوئے بہت سی یادگار تصاویر ادھر ادھر ہو گئیں مگر یہ تصویر نجانے کیسے بچ گئی۔

دی نیوز شروع ہونے کے بعد اور ان کی شادی کے بعد بی بی کئی بار دی نیوز کے آفس آئیں۔ ایک دفعہ بلاول بھٹو کے ساتھ اور ایک دفعہ بلاول بھٹو اور آصفہ کے ساتھ، مگر اس طرح کی ملاقات دوبارہ نہ ہو سکی۔ اس دوران بھی کمرے سے باہر بیٹھے ہوئے ہم سب دیکھ رہے تھے کہ بچوں کی تربیت انھوں نے کس طرح کی۔ ملیحہ لودھی صاحبہ سے بات کرتے ہوئے بھی ان کی نظر اپنے خاموشی سے کھیلتے ہوئے بچوں پر تھی۔ ایک چوکنی اور ذمہ دار ماں جس کی نظر ہر طرف تھی۔

کرچی آئے تو گولی اور بوری کا زمانہ تھا۔ میں بھی مصروفیات میں کھو گئی اور بی بی اپنی سیاسی مصروفیات میں۔ ایک دفعہ بلاول ہاؤس میں بلایا۔ وہاں بھی افراتفری میں ہی میٹنگ ختم ہو گئی مگر اس کے بعد سے ان کے پاس سے ہر سال آموں کا تحفہ بھیجا جاتا اور باقاعدگی کے ساتھ ان کے عید مبارک کے کارڈز ملتے۔ آخری باران کی اور زرداری صاحب کی بچوں کی تصویر والا کارڈ ملا۔ شاید وہ بھی کہیں سنبھال کے رکھا ہو گا۔

مگر اس پہلی ملاقات جیسی ملاقات ان سے پھر نہ ہو سکی۔ واقعی وہ قلندر طبیعت کی مالک تھیں۔ اتنی خوبصورت، سشیل اور نازک سی، خوبصورت گلابی چہرے اور خوبصورت خیالات کی مالک، سب سے بڑی بات ایک اچھی بیٹی، ایک اچھی ماں، ایک اچھی بیوی اور ایک بہادر سیاستدان۔ انہوں نے عورت ہو کر جس طرح اپنے مخالفیں کا مقابلہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک بھائی کی موت غریب
الوطنی میں ہوئی اور اپنی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں اپنے دوسرے بھائی کی موت کا دکھ سہا، مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔

بی بی کی شہادت کے بعد ان کی پہلی برسی پر سی نیوز کے لیے ایک سپیشل رپورٹ بناتے ہوئے ان کے نام ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے لکھے ہوئے خط اور ان کی کتاب دی ڈاٹر آف دی ایسٹ تک رسائی ملی۔ دل دکھ سے بھر گیا ایک ایک لفظ ان کی داستان کا عکاس تھا۔ خط کیا تھا ایک مدبر سیاستدان کی اپنی بیٹی کو آخری نصیحت تھی وصیت تھی۔ جس میں مختصر الفاظ میں سب کہ دیا تھا۔ مگر آفرین اس خاتون پر جس نے اپنے ذاتی دکھ کو کبھی سیاست پر حاوی نہ ہونے دیا۔

اور وہ آخری لمحہ جب روتی آنکھوں سے بی بی نے جہاز سے اترتے ہوئے دعا مانگی، پورے جوش و خروش سے تقریر کی۔ ہم سب دی نیوز کے چوتھے فلور پر ان کا ایک ایک لفظ محویت سے سن رہے تھے۔ وہی جذبہ، وہی عزم بھرا چہرہ، وہی کھنکتی آواز اور پر جوش انداز۔ پھر انہوں نے آخری دفعہ ہاتھ ہلایا، گاڑی میں بیٹھیں۔ ہم سب ٹی وی پر نظریں جمائے کھڑے تھے کہ۔ اچانک وہ ہو گیا۔ جس کی کسی کو بھی امید نہ تھی۔ ایک گولی۔ ایک دھماکے کی آواز اور سب ختم۔ دعا تھی کہ کاش یہ کوئی بھیانک خواب ہو۔ مگر خواب ہو تا تو ٹوٹتا۔ وہ تو حقیقت تھی جو خواب سے زیادہ بھیانک تھی۔ وہ خواب دیکھنے والی پیاری سی ہستی خاک میں ملا دی گئی۔ ان سے پہلی ملاقات کا عکس آنکھوں میں لہرایا۔ اور پھر۔ سب آنسوؤں میں دھندلا گیا۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
اللہ بی بی کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments