دوستی کا ٹائی – این


سال تو کچھ ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا، البتہ ایک دہائی قبل کی بات لگتی ہے کیونکہ تب تک صحرا نوردی شروع نہیں ہوئی تھی اور بن باس کے بھی دور دور تک آثار نہ تھے۔ پنجاب کی گرمیوں کا موسم تھا، لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی بجلی حسبِ روایت ناپید تھی تو جسم و دماغ کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے سب لوگ چھت پہ ہی براجمان تھے۔ بجلی تو اپنی درخشاں روایات کی پاسداری آج بھی کیے ہوئے ہے لیکن تیز رفتار زندگی کی اس دوڑ میں پانی کا ترونکا (چھڑکاوَ) لگا کے منجھیاں (چارپائیاں ) ڈاہنے (بچھانے ) والی ہماری معاشرتی روایت کہیں کھو گئی۔ نتیجتاً پانی کے چھڑکاوَ سے مٹی سے اٹھنے والی مہک سے بھی شناسائی نہ رہی۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آج پردیس جانے والے زیادہ تر اسی دیس کے ہو جاتے ہیں۔

موت اور آزمائش کبھی بتا کے نہیں آتے۔ لیکن اگر آزمائش ہی موت کی صورت اختیار کر لے تو پھر بچ نکلنے کے سب راستے مسدود ہونے لگتے ہیں۔ پھر جان بچانے کی خاطر امداد کی توقع ہر طرف بھٹکائے رکھتی ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کے سہارا کی مانند چھوٹی سے چھوٹی آس بھی اس وقت جوئے شیر سے کم نہیں لگتی۔

تھوڑا تھوڑا اندھیرا چھا گیا تھا، رات کا ابھی بانکپن ہی تھا کہ ناگہانی مصیبت آن ٹپکی۔ بہت ادھر ادھر کی ہانکیں، اپنے تئیں بتھیرے ہاتھ پاوَں چلائے لیکن سب بیکار۔ بات کا کوئی سرا ملے اور نہ ہی کوئی حل ذہن میں آئے۔ جب ہرطرف سے جھنڈی ہو گئی تو ایک دوست کا نام ذہن میں کوندا۔ فوراً رابطہ کیا اور اس نئی افتاد کے بارے بتایا۔ بڑے تحمل سے موصوف نے ساری بات سنی۔ اور آخر میں ایک بہترین اور کارآمد حل بھی تجویز کر دیا۔ ایسی تسلی ہوئی کہ مطمئن ہو کے آزمائش کو سامنے بٹھا لیا اور سارا حل اس کے گوش گزار کر دیا۔ چونکہ حل بہترین، پائیدار اور قابلِ عمل تھا، لہذا آزمائش کے پاس اب سوائے بھاگنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔

مخلص دوست کا مل جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ دوست کے تعاون، مدد اور حوصلہ افزائی سے کئی مشکل مراحل اور کئی کٹھن منزلیں بآسانی طے کی جا سکتیں ہیں۔ جیسے ایک دفعہ اشفاق صاحب اپنے پروگرام ’زاویہ‘ میں بتا رہے تھے کہ اگر آپ کے کسی دوست کا تھانے سے فون آ جائے کہ میں فلاں مشکل میں پھن٘س گیا ہوں تو فون پہ ہی اسے برا بھلا کہنے کی، لتاڑنے کی، طعنے دینے کی یا اس نا مساعد موقعے پہ اس سے کنی کترانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سوچیں کہ اس اللہ کے بندے نے تھانیدار کی منتیں کر کے بڑے مان سے آپ کا نمبر ملانے کی اجازت لی ہو گی۔ اس وقت اسے دلاسا دینے کے لئے بہترین جملہ یہ ہے کہ اس سے صرف یہ پوچھیں کہ کس تھانے میں ہو، میں ابھی آتا ہوں۔ باقی مدعا وہاں جا کے بھی سنا جا سکتا ہے اور معاملہ سلجھایا جا سکتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ بات اپنے ہی اندر ہوتی ہے، اور اس کے مطابق فیصلہ بھی کم و بیش ہم کر ہی چکے ہوتے ہیں، بس اس پہ تصدیقی مہر ثبت کرنے سے قبل اپنی تسلی و تشفی کے لئے کسی دوست کی رائے، اس کی تجویز لینا چاہتے ہیں۔ اس سے ناصرف مشورہ ہو جاتا ہے بلکہ اس کا ہماری بات سے متفق ہو جانا اور حامی بھر لینا ہی ہمارے اندر کے اعتماد کو دوچند کر دیتا ہے۔ جس سے آگے چل کے کامیابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

بسا اوقات اچانک پڑ جانے والی افتاد کی وجہ سے فوری کوئی حل نہیں سوجھتا، دماغ زیادہ تر آس پاس ہی گھومتا رہتا، اس منظر نامے سے باہر والا بندہ چونکہ وسیع نقطہ نظر میں ہوتا ہے تو وہ بہتر تجاویز دے سکتا ہے۔ لیکن اس سارے معاملے میں مجوزہ شخص کا مخلص ہونا اور سانجھی عزت کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔ نہ تو ہر کوئی دوست ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ ہی ہر کسی سے دوستی والا رشتہ گانٹھا جا سکتا ہے۔ بندہ وہی ہے جو ضرورت میں کام آ جائے اور مشکل وقت گزارنے میں مددگار ثابت ہو۔ پنجابی کی کہاوت ہے کہ: بندہ نہیں رہندہ، گل ریہہ جاندی اے (انسان تو نہیں رہتا لیکن اس کی بات (کام) یاد رکھے جاتے ہیں ) ۔

 

توصیف رحمت
Latest posts by توصیف رحمت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments