آصف زرداری پھر دوسری باری


آصف علی زرداری پاکستان کے پہلے سویلین صدر ہیں جو دوسری بار بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے، وہ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے پہلے پاکستانی صدر بھی ہیں۔ 69 سالہ صدر آصف علی زرداری کا تحصیل سکرنڈ ضلع شہید بے نظیر آباد نواب شاہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں فتوحل زرداری سے ہے۔ ان کے دادا محمد حسین زرداری ایک تاجر اور چھوٹے زمیندار تھے اور وہ مقامی سطح پر مسلم لیگ کے رہنما بھی تھے۔

آصف علی زرداری 9 ستمبر 1955 کو زمیندار اور تاجر حاکم علی زرداری کے گھر پیدا ہوئے۔ 32 سال تک آصف علی زرداری اپنے والد کے اکلوتے بیٹے ہونے کے ناتے لاڈ اور پیار والی زندگی گزارتے رہے۔

1987 میں اپنے رشتہ داروں کی رضامندی سے انہوں نے بے نظیر بھٹو سے شادی کی جو کہ بیس سال تک جاری رہی جس کا خاتمہ 2007 میں بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت سے ہوا۔ ان بیس سالوں کے دوران آصف علی زرداری نے گیارہ سال جیل میں اور چار سال جلاوطنی دبئی میں گزارے، اور تقریباً پانچ سال وزیراعظم ہاؤس میں گزارے۔

سیاست کے ساتھ ان کے مشکلات اور خوشیوں کے سفر کا آغاز 32 سال کی عمر کے بعد بے نظیر بھٹو کے شادی سے ہوا، جوانی میں انہیں پولو، گھوڑے سواری کا شوق تھا اور انہیں شکار کا شوق نہیں تھا۔ ان کے والد حاکم علی زرداری کی پہلی شادی ایک پڑھے لکھے گھرانے کی خاتون بلقیس بیگم سے ہوئی، جو سندھ کے ممتاز سیاسی اور سماجی رہنما، سندھ مدرستہ السلام کراچی کے بانی حسن علی آفندی کی پوتی تھیں۔ حاکم علی زرداری اپنی بیوی کے اصرار پر اپنا گاؤں سکرنڈ چھوڑ کر کراچی آ گئے اور تعمیرات کے ساتھ ساتھ سینما گھر اور بڑی بڑی عمارتیں بنانے کا کاروبار شروع کیا۔

اس دوران آصف علی زرداری نے گیارہ سال کی عمر میں معروف اداکار وحید مراد کے ساتھ فلم ”سالگرہ“ میں چائلڈ ایکٹر کا کردار بھی نبھایا۔ ان کے والد حاکم علی زرداری نے کاروبار کے ساتھ سیاست کا آغاز بھی کیا یہی وجہ تھی کہ 1970 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے موجودہ ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی شاہ کے والد سید شبیر احمد شاہ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہرا کے پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

کیڈٹ کالج پٹارو سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے آصف علی زرداری پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن، سینیٹ آف پاکستان کے رکن اور دوسری بار پاکستان کے صدر بن چکے ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمی 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد شروع ہوئی۔

1990 کے انتخابات میں پہلی بار بینظیر بھٹو نے کراچی کے علاقے لیاری سے قومی اسمبلی کی نشست سے انہیں کامیاب کرایا۔ پھر وہاں سے ان کے اچھے اور برے دن شروع ہو گئے۔

پاکستان میں صدور یا تو طاقتور رہے ہیں یا فضل الہی چوہدری، رفیق تارڑ جیسے کمزور اور بے اختیار، جنہوں نے اپنے محسنوں کو فوجی آمروں کے ذریعے غیر قانونی طور پر ہٹاتے دیکھنا پسند کیا لیکن استعفیٰ دینے کی ہمت نہیں کی۔ فاروق لغاری جیسے بے وفا صدر نے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیا اور اپنی ہی محسن بے نظیر کا تختہ الٹ دیا۔ دوسری طرف فوجی صدر ایوب خان، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف تاریخ میں انتہائی طاقتور صدور رہے ہیں۔

ان جرنیلوں نے عزت اور وقار کے ساتھ اپنے عہدے نہیں چھوڑے، اس ملک میں غلام اسحاق خان جیسا سازشی بیوروکریٹ صدر رہا جس نے جمہوریت کو تین بار روند ڈالا۔ آصف علی زرداری جانتے تھے کہ اسلام آباد کا صدارتی محل ایک مشکل جگہ ہے۔ اس کی شہرت ایک سازشی محل رہی ہے۔

انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ایسے عہدے پر خود رہیں، جو سازشوں کا سامنا کر سکے۔ اس وقت آصف زرداری نے جیسے ہی صدر کے عہدے کے لیے فارم جمع کرایا، ان کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا، جب کے میڈیا کہ ایک معروف صحافی نے صدارتی انتخاب رکوانے کے لیے فوج کو مداخلت کرنے کو کہا۔

جب آصف زرداری پاکستان کے صدر بنے تو انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت سے غیر معمولی فیصلے کیے جن میں 2010 میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری دینا، ان کے صدارتی اختیارات ختم کر کے پارلیمنٹ کو دینا، آرمی چیف کا تقرر کا اختیار وزیراعظم کو دینا شامل ہیں۔ انہوں نے جنرل مشرف کی اس آئینی ترمیم کو ختم کر دیا جس کے ذریعے میاں نواز شریف دوسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ چھوٹے صوبوں کو حقوق دلوانا، سرحد صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھ کر اور تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کے ساتھ ملک میں ایک نیا کلچر متعارف کرایا۔

جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے پہلے سویلین صدر بن گئے جنہوں نے اپنے پانچ سال مکمل کیے، انہوں نے رسمی صدر بننے کو ترجیح دی۔ 22 مئی 2013 کو ایوان صدر مین چین کے وزیر اعظم کے ساتھ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور جیسے عظیم منصوبے پر معاہدہ کیا، صدر ہوتے ہوئے اسے صدارتی محل سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی گئی، انہوں نے اس دباؤ کا یہ کہہ کر جواب دیا کہ آپ مجھے پریزیڈنٹ ہاؤس سے ایمبولینس میں لے جا سکتے ہو۔

اپنے دور صدارت میں انہوں نے امریکہ کے اہم اخبار واشنگٹن پوسٹ میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں ایک مضمون لکھا جس میں کہا گیا کہ اسامہ بن لادن اس صدی کی سب سے بڑی برائی تھا۔ جس کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا، جس کے ساتھ ان مظلوموں کو انصاف فراہم کیا گیا، وہ بات قابل اطمینان ہے کہ اس کی موت میرے لیے ذاتی اور سیاسی حیثیت رکھتی ہے۔ بے شک انہی عناصر نے بے نظیر بھٹو کو قتل کیا۔

امریکی صدر بش نے عراق سے افغانستان جاتے ہوئے اپنے صدارتی طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ جب میں نے پاکستانی صدر زرداری کو ”ڈو مور“ کہا تو انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ دیکھا اور کہا کہ جنھوں نے میرے بچوں کی ماں، میری بیوی کو مارا ہے، کیا میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھ سکتا ہوں؟

آج جب آصف علی زرداری 16 سال بعد ایک بار پھر اسی صدارتی عہدے پر براجمان ہیں، اگرچہ آج کے معاشی، جغرافیائی سیاسی اور اندرونی مسائل مختلف ہیں، لیکن بڑے مینڈیٹ کے ساتھ منتخب ہونے والے آصف زرداری کے لیے پہلے سے زیادہ چیلنجز ہیں۔ ملک کی خوشحالی کے لیے اقتصادی معاہدہ کرنا، بلوچستان کے حالات میں بہتری، سرحدوں پر دہشت گردی، تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا جیسے معاملات ان کے لیے اہم ہیں۔

اس کے ساتھ 18 ویں ترمیم پر مکمل عمل درآمد، چھوٹی صوبوں کی شکایات کا خاتمہ، ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مسائل کا حل، سی پیک منصوبوں پر فوری عملدرآمد، صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کو یقینی بنانے کے لئے۔ آصف علی زرداری اپنا کردار ادا کریں گے۔ کیونکہ انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، میں سرخیوں میں رہنے کے بجائے تاریخ میں زندہ رہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments