مبینہ آڈیوز وڈیوز اور لال و لال


ملک کے معروف بلڈر محترمی ملک ریاض کا ”دلی احترام“ ہر مکتبہ فکر، حلقے، ادارے اور جماعت میں پایا جاتا ہے، گو کہ ہمارے ملک میں ان کے علاوہ بھی بہت سے بڑے بلڈر ہیں، لیکن ان میں وہ بات کہاں ”مالوی مدن سی“ محترم ملک صاحب پاکستان کی سیاست اور نظام میں وہی حیثیت رکھتے ہیں، جو ہماری مشرقی اساطیری داستانوں میں ”پارس“ رکھتا ہے، یعنی اس سے چھو جانا ہی ایک حقیر بے قیمت پتھر کو سونے میں بدل دیتا ہے، موصوف کی اسی صلاحیت نے بہت سے سیاست دانوں، صحافیوں اور بیوروکریٹس کو مس کر کے کم از کم، دنیاوی طور پر ، قیام اور بود و باش کی فکر سے آزاد کر دیا ہے۔

ان کی ہمہ جہت قابلیت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کو ”مکتبہ ملک ریاض“ لکھنا زیادہ مناسب ہو گا، کیونکہ بعض شخصیات اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر ایک شخص کے بجائے ایک ”ادارے“ کی حیثیت رکھتے ہیں، اور خوش قسمتی سے ملک صاحب کا شمار ایسی ہی شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ حال میں ہی حکومتی ترجمان عطاء اللہ تارڑ صاحب اور محترمہ عظمیٰ بخاری نے ایک پریس کانفرنس میں ایک آڈیو کلپ کا ذکر خیر فرمایا، جس میں تین سے پانچ قیراط کے ہیروں وغیرہ کا ذکر موجود ہے جن کو انگوٹھی میں نصب کروانے کی قیمت بعد میں وصول کی جانی تھی، اس مبینہ آڈیو کی ترنت تردید متعلقہ، ملوث بتائے جانے والی ”پارٹیوں کی طرف سے جاری کرتے ہوئے، اس کلپ کو “ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیار شدہ جعلی آڈیو کلپ بتایا گیا، گویا اب ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا ذکر بھی ان ہی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے، کہ جس مقصد کے لیے یہ ٹیکنالوجی استعمال کی جا سکتی ہے، یعنی یہ اتنی حیرت انگیز اور مفید ایجاد ہے، کہ اسے الزام، تائید اور تردید کے مقاصد سے بیک وقت مخالف فریقین کی طرف سے اپنے اپنے موقف کے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کبھی کبھی تو اس کے عملی استعمال کے بجائے معجزانہ طور پر اس کا ذکر ہی وہی کام کرتا ہے جس کے لیے عام طور پر اس ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے، شاید اسی لیے ایسے آلات و سہولیات کو ”سافٹ وئیر“ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

لیکن ان الزامات اور جوابی الزامات کے قطع نظر محترم ملک ریاض اور سابق حکومت کے زعماء کے بارے میں اس ثابت شدہ اور حقیقی سکینڈل کا حیرت انگیز طور پر کوئی بھی فریق ذکر نہیں کرتا، جب برطانیہ میں ملک ریاض سے جرمانے کی بھاری رقم جو اربوں روپے میں تھی، وصول کر کے پاکستان کی حکومت کے حوالے کی گئی، جو رقم عمران نیازی صاحب نے اپنی کابینہ کے مشورے سے ”وسیع تر قومی مفاد“ میں، دوبارہ ان ہی ملک ریاض صاحب کے حوالے کر دی، جن سے برطانوی عدالت نے جرمانہ کر کے یہ رقم پاکستان حکومت کے حوالے کی تھی، معاملہ کے اس آسانی اور احسن طریقے سے نپٹ جانے سے اس ”وسیع تر قومی مفاد“ کی درست درست حدود کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ آخر ان حساس ترین ”حدود“ کے تحفظ کی ذمہ داری بھی تو کسی نہ کسی پر ہو گی، گویا ”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں“ ۔

اب لگتا ایسا ہے کہ پراسرار طور پر اس حالیہ آڈیو کلپ کا جاری کروایا جانا، عمران نیازی صاحب کی پارٹی اور ان کی طرف سے ایک مقتدر ادارے کے موجودہ سربراہ کے خلاف توہین آمیز سوشل میڈیا مہم کا جواب ہے، لہذا امکان غالب یہی ہے کہ ان کو شٹ اپ وارننگ دینے کے لیے یہ کلپ جاری کروایا گیا ہے۔ عوام کی دلچسپی کے لیے اس معاملے میں اتنا ہی کافی ہے، کہ اس طرح جوابی طور پر اس آڈیو کلپ کا منظر عام پر لایا جانا، اس بات کا ثبوت ہے، کہ یہ آڈیو کلپ فیک نہیں، بلکہ اصلی ہے، لیکن چونکہ یہ صرف ایک ”وارننگ“ کے طور پر جاری کروایا گیا ہے، تو یقین رکھیں اس پر عملی طور پر ہونا کچھ نہیں، جیسے اس سے قبل منظر عام پر لائے جانے والے مشہور زمانہ آڈیو و وڈیو کلپس کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ نہیں ہوا، نہ ہی کسی کے خلاف ان ثبوتوں کی بنیاد پر کبھی کوئی کارروائی کی گئی، یا کرنے دی گئی، ان میں ایک وڈیو آڈیو کلپ سابقہ چئیر مین نیب کا عمران نیازی صاحب کی حکومت نے اپنے مشیر اور ذاتی دوست کے ٹی وی چینل پر تب نشر کروایا تھا، جب اس وقت کے چئیر مین نیب جسٹس (ر ) جاوید اقبال نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں حکومتی ارکان کے خلاف بھی کارروائی کروں، تو یہ حکومت فوری طور پر ختم ہو جائے گی، لہذا اس لیے میں کارروائی نہیں کر رہا، جوابی طور پر حکمران پارٹی کی طرف سے یہ سر سے پیر تک کے ذکر پر مبنی آڈیو وڈیو منظر عام پر لائے جانے کے بعد سابق چئیر مین نیب کا جوش و خروش اور ولولہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، اور موصوف کسی بچے جمہورے یا معمول کی طرح اس وقت کی حکمران پارٹی قیادت کے احکام کی تعمیل کرتے دکھائی دیتے رہے۔

اسی طرح ایک وڈیو نواز شریف کو سزا سنانے والے مرحوم جج ارشد کی بھی سامنے آئی تھی، جس میں وہ کسی ”سچے لمحے اور کیفیت“ میں بتا رہے ہیں، کہ کس طرح ایک ساز کی طرح ان کی کچھ تاریں کس کر اور کچھ ڈھیلی کر کے نواز شریف کے خلاف اس بدنام عدالتی فیصلہ کی دھن ترتیب دی گئی تھی، اور اس سلسلے میں ان کو بلیک میل کرنے کے لیے ماضی میں کبھی ان کی ملتان تعیناتی کے زمانے کی ایک قابل اعتراض وڈیو کو استعمال کیا گیا تھا، اتنے بڑے اقرار اور انکشاف کے بعد مسلم لیگ (ن ) اس وڈیو کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئی، جہاں اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس کھوسہ نے کسی ایسی وڈیو کی تصدیق کے لیے ایسی لاتعداد شرائط عائد کر دیں، جن کا پورا ہونا عملی طور ناممکن تھا، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ یہ خفیہ وڈیو بنانے والا خود عدالت کے سامنے پیش ہو کر یہ اقرار اور تصدیق کرے کہ اس نے ہی خود یہ وڈیو بنائی ہے، گویا وڈیو کی تصدیق یا فیصلے کے مرحلے سے پہلے ہی اس وڈیو بنانے والا کا تیا پانچہ نما حساب کتاب کر دیا جائے، تاکہ آئندہ اور کوئی ”رازداری کے اسلامی احکامات کے خلاف“ ایسی قبیہہ حرکت کرنے کی جراٰت نہ کر سکے، پھر اسی کیس میں وڈیو بنانے والا ایک نامعلوم مجہول سا شخص بھی سامنے لایا گیا، جس پر نامعلوم تفتیشی اداروں کی طرف سے شدید تشدد کر کے اس سے توبہ کروائی گئی، اور اس کے بعد اس شخص کا کچھ نام و نشان نہیں ملا، گویا اس شخص کی یہ عبرت ناک حالت بنا کر ایسا سوچنے والوں کو بھی مناسب انداز میں تنبیہ کر دی گئی۔

اس کے بعد گلگت بلتستان کے چیف کورٹ جج مسٹر شمیم کی طرف سے سابقہ چیف جسٹس، ثاقب نثار کی گلگت کے دورے اور ان کے پاس قیام کے دوران بنائی گئی ایک فون کال کی ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آئی، جس میں موصوف سابق چیف جسٹس، کسی اور جج کو کسی عدالتی فیصلے کے بارے میں ہدایات دیتے ہوئے سنے جا سکتے تھے، یہ آڈیو سامنے لانے والے سابق چیف کورٹ جج صاحب نے اس مبینہ آڈیو کا باقاعدہ لندن اور امریکہ میں فورانزک ٹیسٹ بھی کروا کر رپورٹس ساتھ لف فرمائیں، لیکن سپریم کورٹ میں، الٹے ان سابق چیف کورٹ جج صاحب کے خلاف مختلف الزامات عائد اور کارروائی شروع کر دی گئی اور شدید دباؤ اور کھلی دھمکیوں کے ذریعے بالآخر موصوف کو خاموشی پر مجبور کر دیا گیا۔

ایک اور کسی دو منٹ اور اکتالیس سیکنڈ کی کسی وڈیو کا چرچا بھی کچھ عرصے سے مختلف صحافتی اور عوامی حلقوں میں سننے میں آتا رہا، اور اس کے رنگین ذکر کی وجہ سے اور اس میں ”معروف ترین“ اداکاروں کی موجودگی کی وجہ سے اس وڈیو کا عوامی حلقوں میں شدت سے انتظار کیا جانے لگا، اس ضمن میں اس وڈیو کا انکشاف کرنے والے صحافیوں نے یہ مضحکہ خیز ”عذر گناہ“ پیش کر کے اسے عام کرنے سے معذرت کر لی کہ بقول ان کے یہ وڈیو دیکھتے ہوئے ان کے کان سرخ ہو گئے، لہذا ان کی ”اخلاقیات“ اس وڈیو کو عوام میں عام کرنے کی ”اجازت“ نہیں دیتی یہاں ان صاحبان لوح و قلم کی اخلاقیات سے مراد نہ جانے کس شخصیت یا ادارے کی طرف تھی، اس بارے میں ابہام ہے۔

یعنی سوشل میڈیا پر ذکر، تشہیر اور اس کو دیکھنا تو اخلاقی لحاظ سے درست تھا، لیکن اس وڈیو کی اخلاقی اور سیاسی نوعیت کے پیش نظر ”اب“ اس کو عام کرنے پر ان کا ”ضمیر“ راضی نہیں، گویا ثابت یہ ہوا کہ تربوزوں اور دیگر جسمانی اعضاء کے ”لال لال“ ہونے کے علاوہ ”کان“ بھی لال و لال ہو جایا کرتے ہیں، جس کی تشخیص کے مطابق یہ کیفیت شرم کی زیادتی کے علاوہ ”گوشمالی“ کے ذریعے بھی ممکن ہے۔ لہذا شاید اس مبینہ لال و لال والی وڈیو کا ذکر ہی کافی ثابت ہوا اور لگتا ہے کہ یہ وڈیو اپنی حساس ترین نوعیت کے پیش نظر، جاری ہوئے بغیر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ”ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments