جلیل احمد: ایک جاگیر دار کی شخصیت کا تناظر


انسان اس دنیا میں آتا ہے، چلا جاتا ہے، بھولتے بھولتے بھول جاتا ہے۔ انسان کی اس آمد اور کوچ کا قصہ بھی عجیب ہے۔ پہلے انسان سے لے کر آج تک اور ابھی تک جانے کتنے انسان اس نظام حیات و ممات سے گزرے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ انھیں یہاں کیوں بھیجا گیا اور پھر ان کی خواہش کے بر عکس دفعتاً انھیں واپس بلا لیا گیا۔ انسان نے ان جانے والے انسانوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ جانے والا پتہ نہیں پیچھے چھوٹنے والے کے بارے میں کیا سوچتا ہے لیکن اتنا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چھوٹ جانے والا بچھڑ جانے والے کو ایک مدت تک یاد کرتا ہے اور یہ یاد بھی عجیب ہے یہ گھن کی طرح چاٹتی چاٹتی آخر وہیں لے جاتی ہے جہاں کا خمیر ہوتا ہے۔

حیات و ممات کا یہ نظام قدرت کاملہ کا بہترین اور مثالی نظام ہے جس پر انگلی اٹھائیے بلکہ پورا ہاتھ اٹھا لیجیے لیکن کچھ نہیں بدلنے والا۔ قدرت حق نے اگر حیات کے ساتھ ممات کا اتصال نہ کیا ہوتا تو آج جسم مضمحل ہونے کے بعد کی صورتحال کو انسان کیسے سنبھالتا۔ یہ بظاہر سمجھ میں نہ آنے والا معمہ ہے لیکن حقیقت اسی میں مضمر ہے اور یہی فلاح و نجات و بقا کا ضامن بھی ہے۔ انسان دنیا میں آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کی آمد اور برخاست کا درمیانی وقفہ دنیا کی زندگی کہلاتا ہے جس میں نشیب و فراز کا ایک وسیع سلسلہ آباد ہے جس سے متصل سیکڑوں واقعات و حادثات رونما ہوتے ہیں۔

خواہشوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ موج آوارہ کی مانند رواں رہتا ہے۔ اس ایک انسان کی زندگی کیسے کیسے ہنگاموں، آلام، مصائب اور گنجلک مسائل سے اٹی ہوتی ہے جس سے یہ نبرد آزما رہتا ہے۔ جہاں غم روزگار، غم جاناں اور غم دوراں سے اس کا سابقہ پڑتا ہے وہیں اس کی زندگی میں خوشی، امید، محبت، چاہت، انتظار، وصل و لذت کی گل وادی بھی پورے جوبن پر متشکل ہوتی محو رقص رہتی ہے۔ انسان اپنے ارد گرد جانے کیا کچھ دیکھتا، پرکھتا، سوچتا اور رائے قائم کرتا ہے۔

یہ سب کچھ جو اس کے دائیں بائیں، ارد گرد جمود و متحرک اور پس منظر و پیش منظر میں ہوتا ہے یہ سب خوبصورت ہے۔ زندگی کے تصور کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جا چکا۔ زندگی کل ملا کر خوبصورت اور دلا آویز ہے۔ زندگی دینے والے نے اس زندگی کی خوبصورتی، کشش اور دلا آویزی میں دلچسپی یوں بھر دی کہ یہاں جو ایک دفعہ آیا وہ پھر کبھی نہ آ سکے گا۔ یہ اٹل اور ناقابل تغیر اصول ہے جسے کروڑوں برس گزرنے کے باوجود تبدیل نہیں کیا گیا اور نہ یہ کبھی تبدیل ہو گا۔

زندگی کو زیست کرنے کا فن بھی یہی زندگی سکھاتی ہے۔ یہاں آنے کا مقصد بھی یہی سمجھاتی ہے، یہ رہنے کا سلیقہ بھی اسی کی صحبت سے آشکارا ہوتا ہے۔ یہاں سے جانے کا طور بھی اسی کی محفل میں آتا ہے۔ زندگی، انسان اور قدرت کاملہ کا یہ مثلثی نظام ہر طرح کے نقص سے پاک، مبرا اور معتبر ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان جو کچھ ہے اسے دریافت کرے۔ یہ بود اور نابود کے درمیان ہست کا جو سلسلہ موجود ہے، یہ بہت کام کی چیز ہے۔

جس نے اسے پا لیا ؛اس نے گویا وہ سب کچھ پا لیا جس کی خواہش میں کروڑوں انسانوں نے حیات و ممات کے درمیانی وقفے کو زیست تو کیا لیکن اس زیست کے مقصد سے کسی صورت آگاہ نہ ہو سکے۔ زندگی خوبصورت ہے اور اس کی خوبصورتی، خوبصورت انسانوں سے متصل ہے۔ انسان خوبصورت ہو گا تو زندگی خوبصورت ہو گی۔ انسان مکمل ہو گا تو زندگی مکمل ہو گی اور انسان بد صورت ہو گا تو زندگی بد صورت ہو گی۔ زندگی کو سمجھنے کے لیے کسی فلسفے، منطق، اساطیر اور دلائل و براہین کی ضرورت نہیں۔

زندگی کے ہزاروں شیڈ ہیں۔ اس کے لاکھوں چہرے ہیں۔ اس کے بیسیوں رویے ہیں۔ اس کے دسیوں طور ہیں۔ یہ اپنے اندر ایک وسیع نظام لیے ہوئے ہے جس سے ہر انسان کا سابقہ پڑتا ہے۔ زندگی گویا سفید کا ٹکڑا ہے جس پر کچھ بھی نہ لکھا ہو ؛تب بھی اس کی سفیدی اس کی خوبصورتی کے اظہار کے لیے کافی ہے۔ زندگی کے اس خوبصورت تصور کو سمجھنے کے لیے مجھے جلیل احمد جاگیر دار کی برقی صحبت میسر رہی۔ یہ صاحب کیا کمال کی شخصیت تھے۔ ان کی باتوں، قصوں، کہانیوں اور حسب موقع لطیفوں میں زندگی کی رقصاں اتنی پرتیں محو آرائش ہوتی تھیں کہ سننے والا دم بہ خود ہو کر رہ جاتا اور یہ صاحب باتیں کرتے چلے جاتے، ہنساتے، رلاتے، تڑپاتے اور محفل کی مجموعی فضا پر غالب رہتے۔

دختر جلیل احمد جاگیر دار ڈاکٹر رمیشا قمر سے اس خوبصورت انسان کے بارے میں سنا تو اشتیاق ہوا کہ انھیں پہلے تو دیکھا جائے پھر سنا جائے پھر ٹٹول پرکھ کر ان کی شخصیت میں پنہاں زندگی کے تعمیری پہلو کو آشکارا کیا جائے۔ یہ عجب قصہ ہے کہ یہ صاحب میرے تخیل سے ہمیشہ بلند پرواز رہے اور باوجود دسیوں مرتبہ کی گفتگو کے، انھوں نے خود کو مجھ پر کسی صورت متعارف نہ ہو نے دیا۔ ان کی شخصیت میں زندگی کی مذکورہ سبھی پرتیں اظہر الشمس تھیں۔

جلیل احمد جاگیر دار ایک عام سے ادنی سے اور معمولی سے انسان تھے جیسے انسان ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں انسانیت کا تصور ذات پات، رنگ نسل، علاقائی امتیاز اور بین الا اقوامی تشخص سے کہیں پرے تھا۔ جلیل احمد جاگیر دار نے زندگی کی جتنے شیڈ دیکھے، نبھائے اور زیست کیے ؛اتنے شاید ہی کسی اور کو میسر آئے ہوں گے۔ مال و دولت، عزت و وقار اور کردار و اخلاق کا سر تا پا مجسمہ تھے۔ نقائص سے مبرا نہ تھے لیکن نقص کی نشاندہی کرنے والا سامنے نہ آ سکا۔

تعلیم و تربیت میں کلاسیکی مشرقی روایت و تہذیب کا عنصر موجود تھا جس سے وضع داری نے عجب رنگ پکڑا تھا۔ کھانے پینے اٹھنے بیٹھے اور طرز تکلم میں دہلی و لکھنو کا نوابانہ انداز جھلکتا تھا۔ دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں میں سرنگوں رہتے اور کبھی پس پشت نہ ٹھہرائے گئے۔ ایک انسان کی شخصیت کے کتنے رنگ اکٹھا کیے جا سکتے ہیں۔ انسان خوبصورت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ انسان معمولی ہوتا ہے اور انسان غیر معمولی بن جاتا ہے۔

انسان مٹی ہوتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے۔ انسان کی کیا بات ہے، انسان کی کیا تعریف ہے۔ انسان کی کیا حیثیت ہے۔ انسان کی کیا بساط ہے۔ انسان کی کیا معراج ہے۔ انسان اپنے اندر ودیعت کی ہوئی خدائی صفات کو بھانپ لے اور اس کی نک سکھ درست کر لیے تو پھر یہ معراج انسانی کے اعلیٰ منصب پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں میں انگلیوں پر شمار کیے جانے والے انسانوں میں جلیل احمد جاگیردار آتے ہیں۔ جلیل احمد جا گیر دار اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔

یہ جملہ بظاہر مبنی بر حقیقت ہے لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ جو شخص ہمارے حواس، تعقل، وجدان اور تخیل میں موجود ہے وہ ہمارے درمیان ہم سے زیادہ موجود ہے اور دائم رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ بھولنے والے بھول جاتے ہیں۔ جسے بھلایا نہیں جا سکتا وہ بھلانے کے لیے ہوتا ہی نہیں۔ بات پلٹ کر وہی آجاتی ہے کہ زندگی، انسان اور حیات و ممات کے درمیانی خلا میں موجود نادیدہ جہان کو جس نے دریافت کر لیا اسے کوئی نابود نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments