افسانہ ”یک طرفہ محبت“


وہ بلا کی ذہین تھی اور اب کی بار حسن کی بجائے وہ ذہانت سے متاثر ہو گیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ خوبصورت نہیں تھی اس کی نظر سے کوئی دیکھتا تو کم از کم وہ کسی حور پری سے کم نہ تھی مگر پہلی دفعہ اس کی جس چیز نے اسے متاثر کیا وہ اس کی ذہانت تھی نہ کہ خوبصورتی۔ وہ آفس میں نیا تھا اور اتنی پرانی وہ بھی نئی تھی۔ مہینوں کی بے روزگاری کی بعد اس کی یہ نوکری اس کے دوست سفیر کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وہ اور سفیر یونیورسٹی سے ساتھ تھے۔ دونوں کی دوستی ایسی مثالی تھی کہ لوگ رشک کرتے تھے۔ وہ سفیر سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا تو دل کا حال کیسے چھپا سکتا تھا۔ ”یار عبیرہ مجھے بہت اچھی لگنے لگی ہے“ اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔

سفیر کو جھٹکا لگا۔ ”دیکھ احمد بڑی مشکل سے یہ نوکری ہوئی ہے اور تو اس لڑکی کے چکر میں پھر نوکری سے جائے گا“ ۔ سفیر اس کے لیے فکرمند تھا کیونکہ وہ جانتا تھا احمد محبت کے چکر میں پڑ کے کام پر توجہ نہیں دے سکے گا۔ احمد پر سفیر کی بات کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ روز تانے بانے جوڑنے لگا تھا۔ عبیرہ خوش مزاج لڑکی تھی اور پھر اسے احمد کے دل کا حال تو نہیں معلوم تھا۔ باس نے پراجیکٹ کے لیے ٹیم بنائی تو وہ اور عبیرہ ٹیم کا حصہ تھے۔

اسے لگا جیسے لاٹری کھل گئی ہو۔ اب وہ سارا دن مل کے کام کرتے تھے۔ وہ پہلے سے زیادہ توجہ سے کام کرنے لگا تھا۔ سفیر کو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ایک تو اس نے عبیرہ سے ایسے کوئی بات نہیں کی تھی پھر وہ کام بھی اچھے سے کر رہا تھا اور باس اس سے خوش تھے۔ پراجیکٹ مکمل ہونے کے قریب تھا جب عبیرہ کو کچھ دنوں کے لیے شہر سے باہر جانے کی مجبوری آن پڑی۔ باس نے بال احمد کے کورٹ میں پھینک دی کہ وہ اگر اکیلا سنبھال سکے تو عبیرہ جا سکتی ہے۔

احمد نے بخوشی سارا کام سنبھالنے کی ذمہ داری لے لی۔ پراجیکٹ اچھے سے مکمل ہوا اور ان دونوں کی خوب واہ واہ ہوئی۔ تب سے عبیرہ اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی۔ دفتر میں ہر کسی سے کہتی پھرتی کہ کولیگ ہو تو احمد جیسا۔ اب کبھی کبھار وہ اسے لنچ کے لیے بھی کہہ دیتا تو وہ ساتھ چلی جاتی تھی۔ دور تو نہیں جانا ہوتا تھا کیفے دفتر کے اندر ہی تھا مگر عبیرہ عمومی طور پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ لنچ کرتی تھی اور وہ سفیر کے ساتھ۔

راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا جب اس نے عبیرہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ”دیکھ بھائی میں کہتا ہوں رہنے دے“ اس نے سفیر سے بات کی تو ٹکا سا جواب ملا۔ ”لیکن یار تم دیکھ نہیں رہے وہ کتنی تعریفیں کرتی ہے میری، مجھے تو لگتا ہے وہ کپڑے بھی کئی دفعہ مجھ سے ملا کے پہنتی ہے“ اس نے دلیل دی۔ ”احمد تجھے رافعہ یاد ہے“ ۔ سفیر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ”یاد ہے یار یونیورسٹی میں، اس کی وجہ اچھی خاصی جگ ہنسائی ہوئی تھی میری“ ۔

احمد نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ ”میری جان تو نے اس کے لیے کمپیوٹر لیب میں کمپیوٹر چھوڑا تھا تو اس نے کتنی تعریفیں کی تھی ہماری، میری بہن کے سامنے اور پھر جب تو نے اس سے اظہار محبت کی کوشش کی تو اس نے بات ہی نہیں سنی تھی ’سفیر مسکرایا۔“ ہاں یار مگر وہ اور بات تھی، بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی مجھے کئی دفعہ لگا محبت ہو گئی ہے مگر کبھی کسی لڑکی نے مجھ سے محبت نہیں کی، اب کے بار میرا دل کہتا ہے وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے ”۔ اس نے تیقن کے ساتھ کہا۔

”یار ایسا کچھ نہیں ہے تو اس کے کام آیا تو اس نے تجھے اچھا سمجھا، کپڑے تو بہت دفعہ میرے اور اس کے بھی میچ کر جاتے ہوں گے مگر کون غور کرتا ہے بھلا ’سفیر اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔

”ایک دفعہ بات کرنے دے یار نہ ہی کرے گا نا خیر ہے ’۔ اس نے حتمی فیصلہ سنایا تو سفیر بھی چپ ہو گیا۔

چائے کی بریک تھی اس نے سوچا اچھا موقع ہے عبیرہ سے بات کی جائے۔ وہ اس کے کیبن کی طرف جا رہ تھا تو اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ عبیرہ اپنی دوست کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی جب وہ پہنچا۔ ”آئیں جناب بیٹھیں اس نے اسے دیکھتے ہی خوشگوار انداز میں کہا ’۔“ میں سوچ رہا تھا سموسہ کھاتے ہیں ”اس نے عبیرہ کی دوست کو سلام کرتے ہی آنے کا مدعا بیان کیا۔“ ہاں چلیں میرا بھی بہت من کر رہا تھا سموسہ کھانے کا ”۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا تو روکنے کے باوجود اس کی سہیلی کباب میں ہڈی بننے کی بجائے نکل لی۔ سموسے لے کر وہ ٹیبل پر بیٹھے ہی تھے جب احمد نے تیز دھڑکتے دل کو سنبھالتے ہوئے کہا“ دراصل میں ایک بات کرنا چاہ رہا تھا ”

”دو باتیں کریں“ عبیرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ وہ انجان تھی کہ سامنے والا اس کے لیے دل میں کیا چھپائیں بیٹھا تھا۔ ”آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ آپ آفس نہیں آتیں تو لگتا ہے جیسے زندگی سے رنگ ختم ہو گئے ہیں۔ آپ ذرا سی بات کر لیں تو میں اپنی ساری پریشانیاں بھول جاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے جیسے میری زندگی میں خوشی کا معیار آپ بن گئی ہیں“ وہ بے تکان بولے جا رہا تھا جبکہ عبیرہ کے لیے یہ سب چونکا دینے والا تھا۔ ’ایک منٹ ایک منٹ ”آخرکار عبیرہ نے اسے ٹوکا۔

وہ جیسے اپنی ہی کسی خیالی دنیا میں تھا جہاں سے عبیرہ کی آواز اسے واپس کھینچ لائی۔“ دیکھیں احمد آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں مگر میں نے آپ کو کبھی بھی ایک کولیگ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا۔ آپ اچھے انسان ہیں مگر میری آپ میں ایسی کوئی دلچسپی نہیں ہے، پلیز میرا خیال چھوڑ دیں ”۔ احمد کو لگا جیسے منوں وزن اس کے اوپر آن پڑا ہو۔ ‘ مگر عبیرہ میں تو ہمیشہ تانے بانے جوڑتا رہا کہ آپ بھی مجھ سے، بہرحال میں تو آپ سے محبت کرتا ہوں آپ جو بھی کہیں“ ۔

عبیرہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گئی ”آپ کو ایک بڑے کام کی بات بتاؤں؟ آپ نے سنا ہو گا تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی مگر ایک طریقے سے بج بھی سکتی ہے“ وہ حیران ہو رہا تھا یہ کیا فلسفہ سنا رہی ہے۔ ”جانتے ہیں کیسے؟ کسی کے منہ پر یا اپنے منہ پر۔ یک طرفہ محبت بھی ایک ہاتھ کی تالی ہوتی ہے جو یا تو آپ اس کے منہ پر مارتے ہیں جو آپ سے محبت نہیں کرتا یا اپنے منہ پر۔ اب سوچ لیں کہ آپ کیا کریں گے“ وہ اٹھ کے چلی گئی۔ کیفے میں اکیلے بت بنے بیٹھے احمد کو آج اپنے دوست سفیر کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ پچھلی ساری کہانیاں اس کے ذہن میں چل رہی تھیں۔ جانے کب سے وہ اپنے منہ پر تھپڑ مار رہا تھا مگر اب کی بار شاید اس کو ایسا تھپڑ پڑا تھا کہ ہوش دلانے کے لیے کافی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).