پرُسکون اپوزیشن اور بے چین حکومت



سینیٹ الیکشن کا میدان بس سجنے کو ہے اور یہ میلہ کون جیتے گا یہ تو 3 مارچ کو ہی معلوم ہو گا۔ تمام سیٹوں کا مقابلہ اپنی جگہ مگر حقیقی مقابلہ تو سابق وزیراعظم اور منجھے ہوئے سیاستدان یوسف رضا گیلانی اور عبدالحفیظ شخ کے درمیان ہے۔ اس مقابلے کی اہمیت بالکل ایسی ہی ہے جیسے ورلڈ کپ میں پاکستان انڈیا کے میچ کی ہوتی ہے۔ یہ مقابلہ صرف پی پی کا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ یہ حکومت بمقابلہ اپوزیشن ہے۔ بلکہ حکومت بمقابلہ پی ڈی ایم ہے اور اس سیٹ کی جیت آنے والے دنوں کی جمہوری سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی۔

موجود پاکستانی سیاست میں سب سے زیرک اور ہوشیار سیاست دان آصف علی زرداری کو مانا جاتا ہے۔ سابق صدر کی چال سمجھنا ہر بندے کے لیے تو دور سیاسی کھلاڑیوں کے لیے بھی مشکل ہے۔ کوئی پارٹی اگر A، B، C پلان بناتی ہے تو زرداری کے پاس A ٹو Z تک پلان ہوتے ہیں۔ سابق صدر کی نظریں کہیں اور ہوتی ہے اور ان کا نشانہ کچھ اور، وہ ہار کربھی جیتنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ اب زرداری صاحب اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکے ہیں اور عمران خان صاحب بھی اس معاملے کو لے کر کافی محتاط نظر آتے ہیں اور وہ خود بھی اس الیکشن کو بہت اہم لے رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں پی ڈی ایم پی ٹی آئی کے مقابلے میں کافی پرسکون نظر آتی ہے۔

پاکستانی سیاست میں مضبوط اثر و رسوخ رکھنے والا گروہ آج کل نیوٹرل محسوس ہوتا ہے۔ مارچ میں پہلے سینیٹ الیکشن ہے اور پھر مارچ میں ایک اور مارچ ۔ یہ مارچ اگر بھرپور ہو گیا تو حکومت کہاں ہوں گی اور کس کی ہوں گی ، کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ بہرحال ڈسکہ الیکشن پر الیکشن کمیشن کا غیر جانب دار فیصلہ، تازہ تازہ سپریم کورٹ کا سینیٹ الیکشن سے متعلق فیصلہ، ضمنی الیکشن میں حکومت کو شکست فاش، حمزہ شہباز کی رہائی اور پھر گزشتہ دن بلاول بھٹو زرداری کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا کہ محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے۔

اگر ایسا ہے تو پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان کیا سوچ رہے ہوں گے۔ ان باتوں اور خیالوں کا جواب آئندہ دنوں میں عمران خان کے فیصلوں میں بھی نظر آ جائے گا۔ تھوڑا انتظار کیجیے اور بصارت سے نہیں بصیرت سے ہونے والے واقعات پر نظریں جما کر رکھیے۔

اس وقت رابطے جاری ہیں۔ رابطوں میں وعدے ہو رہے ہیں اور وعدوں میں یقین دہانیاں جاری ہیں۔ لیکن کون وعدہ خلافی کرتا ہے اور کون وفاداریاں توڑتا ہے یہ تو الیکشن کے نتائج پر ہی منحصر ہو گا۔ 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ الیکشن کی 48 نشستوں میں سے پنجاب سے سینیٹ کی 11 نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ بقیہ نتائج 3 مارچ کو ہی پتا چلیں گے۔ بڑی لڑائی تو اسلام آباد میں ہے۔ بقیہ سرپرائز کا سلسلہ کے پی کے اور بلوچستان سے ملنے کا مکمل امکان ہے۔

حرف آخر یہی ہے کہ پی ڈی ایم نے سلیکٹرز کی تکرار کم کر دی ہے یعنی مفاہمت کا سلسلہ بھی شاید وقوع پذیر ہو گیا۔ گزشتہ دو مہینوں میں ہونے والے بہت سے معاملات میں اپوزیشن حاوی دیکھی گئی ہے۔ ریفرنس پر سپریم کورٹ کا اور ڈسکہ الیکشن پر الیکن کمیشن کا فیصلہ بظاہر آئینی اور قانونی ہے مگر یہ کسی کی ہار بھی ہے۔ وہ الگ بات ہے ہار مانی نہیں جاتی اور نہ قبول کی جاتی ہے۔ فی الحال پرسکون چہرے اپوزیشن میں نظر آرہے ہیں اور گھبرائے اور بے چین چہرے حکومت میں، بقیہ حقیقت جاننے کے لئے 3 مارچ کی شام تک ٹھہرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments