منٹگمری (2)


لوئر مال لاہور پر ضلع کچھری کے اندر و با ہر پولیس کا پہرہ تھا۔ اندر بھگت سنگھ کی پیشی پر کمرہ عدالت میں صرف خاص الخاص اجازت یافتہ لوگوں کو ہی جانے کی اجازت تھی۔ میر ثانی کی بے عیب انگریزی کام دکھا گئی اور موہن سنگھ اور وہ دونوں اندر جانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن تب تک مقدمے کی آج کی سماعت مکمل ہو چکی تھی اور بھگت سنگھ و دیگر کو باہر عدالت سے آتے ہوئے۔ موہن سنگھ نے دیکھا

اس بھگت سنگھ نام کے دیہاتی لڑکے کو جس نے راج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اس بھگت سنگھ کو جس نے دھرم زبان علاقے سے بڑھ کر کل ہند سطح پر نوجوانوں کو نیا پیغام دیا تھا اس بھگت سنگھ کو جو کہ پنجاب کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا ہیرو بن چکا تھا۔ موہن اور میر ثانی دونوں کے سامنے سے جتنی دیر بھگت سنگھ گزرا وہ دونوں ایک سکتے سی کیفیت میں اس کو دیکھتے رہے۔ بلکہ ایسے جیسے کہ یہ کوئی انمول منظر ہو جو کہ پھر نہ ملے گا لیکن اچانک بھگت سنگھ نے ان کو اور باقی لوگوں کو دیکھتے ہوئے با آواز بلند یہ اشعار پڑھے

ہن تے آ گئے آں
لانبھے کیکن رہیئے
یاری تیری ساڈی کوئی نہیں
(اینویں مینوں چھوٹھ پینے کیے )
تیرا ساڈا جٹ ویر دائے
ایہا راہ ملن دائے توڑے
سانوں خبرے اجے سار نہیں
کوئی جت پوری چت نہیں
ہار کوئی پوری ہار نہیں
ہن تے آ گئے آں
وجیوں مرنوں مرجیونوں کوئی باہر نہیں

بھگت سنگھ کوکچھری سے جیل لے کر جانے کے راستے پر خلقت بے شمار تھی۔ جو کہ بھگت سنگھ کے حق میں نارے لگا رہی تھی۔ موہن اور ثانی باہر آئے اور لوئر مال سے جیل کی جگہ مال روڈ کی طرف آ گئے اور وہاں پہ انگریزی کیفے میں چائے کے لئے بیٹھ گئے۔

………………………………
نکسن لنکاشائر کے ایک لیبر ٹھیکہ دار کا بیٹا تھا جو کہ یونیورسٹی آف لندن سے انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر کے کلکتہ آ کر یہاں پر کوئی کارخانہ لگائے اور برطانوی سامراج میں رائج رواج کے مطابق دنوں میں امیر ہو جائے۔ وہ کلکتہ اپنے جس حوالہ دار کی آس پر پہنچا تھا۔ اس نے اس کو یہ راہ دکھائی کہ وہ کینال کالونیز کا دورہ کرے اور اس میں اپنے نام کچھ زمین ڈلوا لے وہ پہلے تو شاہ پور گیا پھر اس کے بعد چناب لیکن آخر کار اس کو منٹگمری کینال کالونی میں 1 ہزار ایکڑ کی لاٹ ڈال دی گئی اور ساتھ میں ضلع درباری کا سرٹیفیکیٹ بھی۔ اس طرح نکسن تحصیل پاکپتن میں اپنی زمین میں آباد ہو گیا۔ واپس ولایت گیا اور بیگم کو بھی لے کر آیا

لیکن بیگم تو شہر کی عادی اور وہ عیش اور سماجی زندگی کی خواہش میں دیس بدر ہوئی۔ لیکن یہاں پر تو بقول اس کے ”جیم“ تک نہیں ملتا۔ غرض وہ سیزن کے بعد کبھی واپس نہ آنے کے لئے واپس ولایت چلی گئی۔ نکسن اس کے ساتھ طویل خط و کتابت کرتا رہا کہ کسی طور وہ واپسی کی راہ لے۔ لیکن وہ نہ آئی۔ آخر کار لاہور میں تعینات ایک انگریز سول سرونٹ کی بیٹی سے اس نے دوسری شادی کی۔ لیکن اس کو بھی گرمی میں موسم لگ گیا اور وہ مر گئی۔

غرض اس دو دفعہ کی بک بک بعد نکسن نے مقامی ذرائع سے ہی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کا فیصلہ لیا اور مزید گوری نہ لے کر آیا۔ عمر گزرتی گئی اور آخری عمر میں اس نے منٹگمری شہر کی آباد کاری کے وقت وہاں بھی ایک بڑا مکان ہائی سٹریٹ کے ملحقہ سڑک پر بنا لیا اور اپنا زیادہ وقت شہر کے مکان پر رہنے لگ پڑا۔ شہر میں بھی چونکہ وہ اکیلا رہنے کا شوقین تھا تو اس نے کچھ زیادہ سلسلہ جات نہ بنائے۔ بس کبھی کبھی اپنی بگھی پر سر شام شہر میں گھوم آنا اور گھر ہی رہنا۔ ۔

فلاور مین ڈپٹی کمشنر منٹگمری کی عمر چالیس برس تھی۔ وہ آئی سی ایس کر کے محض دو سال قبل ہی پنجاب آیا تھا۔ اس سے قبل وہ لنکا میں تھا۔

وہ اس طبقہ سے تعلق نہ رکھتا تھا کہ جس کو اب برطانیہ میں Blue Blood کہا جانے لگا تھا۔ اپنی زندگی کی شروعات میں وہ ایسٹ انڈیا میں جہاز رانی کے شعبہ میں ملازم تھا۔ پھر نا معلوم کیسے آئی سی ایسی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ سروس میں آنے سے قبل بھی وہ پنجاب میں ماضی میں رہ چکا تھا۔ وہ خاص طور پر باروں کی آبادکاری اور اس میں آباد لوگوں کی نفسیات کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے اس کو منٹگمری میں بطور ڈپٹی کمشنر بھیجا گیا۔

فلاور مین منٹگمری میں ناصرف دفتری بلکہ سماجی منظر میں بھی متحرک رہنے کا قائل تھا۔ اس کو علم تھا وہ راج کے بانی و بنیادی لوگوں کی اولاد نہ تھا بلکہ اس نے اپنی پیشہ ورانہ نیک نامی خود کمانی ہے۔ اس لئے وہ ضلع کے انتظام کو مستحکم رکھنے کے لئے اپنے افسری کے دائرہ سے باہر بھی نظر و رابطہ کر رکھنے کا قائل تھا۔ وہ سر شام کلب بھی صبح دفتر میں پہلے پہنچنے کی طرح کلب میں بھی سب سے پہلے آتا تھا۔

میر ثانی ابھی گہری نیند میں ہی تھا کہ اس کے کمرہ کا دروازہ زور زور سے بچا۔ باہر اس کی بیوی اس کو میر ذوق و باقی کی ناشتے کی میز پر انتظار کا بتا رہی تھی وہ جلدی جلدی سر پر ٹوپی کر کے باہر آیا اور اپنے خاندان کے ساتھ ناشتے کی میز پر آیا۔ ثانی ابھی دو روز قبل ہی لاہور سے بھگت سنگھ کی پیشی سے واپس آیا تھا۔ لیکن اس نے اپنے باپ کو بھگت سنگھ والی بات سانجھی نہ کی تھی۔ خیر جب وہ میز پر آیا تو اس کی ماں نے اس کی حمایت میں کہا کہ میرا بیٹا آج کل گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے کچھ دیر ہو جاتی ہے ورنہ صبح صبح جاگنے کا ہی عادی ہے۔

خیر میر ذوق علی خان اس سے قبل کسی سلسلے میں گفتگو کر رہا تھا۔ میر ذوق علی کہہ رہا تھا کہ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب ہمارے پر اتنے مہربان ہیں کہ ہمارے ذاتی مسائل پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ میں نے ثانی میاں کئی ماہ قبل تمہارا ذکر کیا تھا تو ان کو سب یاد رہا۔ مثلاً تمہاری تعلیم، تمہارا لکھنو کی تہذیب میں دلچسپی وغیرہ وغیرہ۔ خاص طور پر انہوں نے آج کل کے نوجوانوں کی انتہا پسندی کی طرف رجحان کے حوالے سے بات میں ثانی کی تعریف کی۔ وہ ان سب سے دور ہے۔ خیر وہ کہہ رہے تھے کہ کسی دن تم چکر لگانا۔

لیکن یہ سب سن کر ثانی کو پریشانی ہوئی۔ کیونکہ اس نے سن رکھ تھا کہ انگریزوں کا جاسوسی کا نظام کافی تیز ہے۔ بھگت سنگھ کا ذکر اور ساتھ ہی طلبی۔ میر ثانی نے دل میں سوچا کہ ہو نہ ہو۔ ڈی سی کو کوئی خبر ضرور ملی ہے۔ لیکن اس نے باپ کو ٹالنے کو کہہ دیا کہ وہ جلد ہی رابطہ کرے گا۔ صاحب کو ملنے جائے گا اور یہ کہہ کر فوراً ہی ناشتے کی میز سے اٹھ گیا۔ جس کو سب نے محسوس کیا (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments