کھیلن کومانگے چاند


بین الاقوامی طور پر امریکا، روس، چین کے تعلقات میں کچھ اس قسم کا توازن ہو گیا ہے کہ وہ پاکستان جیسے ملک میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہیں گے اور پاکستان اسی طرح سے رگڑ رگڑ کر اور آپس کے جھگڑوں میں پھنس کر ختم ہو جائے گا.

میرے مارکسی اور لیننسٹ نظریات کے مطابق ایسا ملک جو ختم ہو رہا ہے اس ملک کے ختم ہونے کے عمل میں تمہارے جیسے لوگوں کا اس قسم کا کام درحقیقت ایک طرح سے ان کی زندگی کو تھوڑا اور طویل کر دیتا ہے. میرے خیال میں یہ ایک قدرتی انجام کو روکنے کی کوشش ہے. غریبوں اور پرولتاریہ کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی اور اسے طول دینے کی ایک بے رحم خواہش ہے. اس سارے عمل میں تمہاری مدد کر کے میں بے وقوفی نہیں کر سکتا. مجھے معاف ہی رکھنا.

تمہارا. نجم فاروقی
٭٭٭ ٭٭٭
لاس اینجلز. 5، مئی
ڈیئر امجد!

تم نے تو مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ خط لکھو اور مجھے بھی اس تعلیمی مہم کی تفصیلات سے آگاہ کرو. جب شکیلہ نے مجھے وہ خط بھیجا تو بکھرے اور بچھڑے ہوئے دن فلم کی ریل کی طرح میری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے چلے گئے.

وہ دن اچھے تھے جب ہم سب کالج میں پڑھتے تھے اور اس انقلاب کے خواب دیکھتے تھے جو یونیورسٹی اور کالجوں سے نکل کر پورے ملک میں چھا جانے والا تھا. جب سب لوگوں کو ان کے حقوق ملنے والے تھے. جب ہر بچے کے لیے تعلیم اور ہر آدمی کے لیے کام کا انتظام ہونے والا تھا. کتنا رومانس تھا اس وقت.

مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم لوگ سرخ جھنڈے کو ہاتھ میں اٹھا کر اور امریکن جھنڈوں کو آگ لگا کر، امریکا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگا کر یہ سمجھتے تھے کہ انقلاب آنے ہی والا ہے. مجھے وہ بھی دن یاد ہے جب کراچی یونیورسٹی میں پروگریسیو فرنٹ کے جلسے میں ضیاء الحق کے خلاف نعروں کے ساتھ “کون بچائے گا پاکستان، طلبا مزدور اور کسان” کے نعرے بھی لگتے تھے اور “ایک ہی جنگ جاری ہے لوگو، سائگان سے منگھو پیر تلک” جیسی نظروں پر شاعر جلسے لوٹ لیتے تھے اور ایسے ہی جلسوں میں شرکت کر کے تمہاری دی ہوئی کتابیں پڑھ پڑھ کر میں تمہارے قریب آ گئی تھی. میرا یقین انقلاب پر تھا. تمہاری ذات پر تھا اور زندگی فیض اور ساحر کی شاعری کی طرح تھی. بے چین اور امیدوں سے بھری ہوئی.

جو لڑکیاں رضیہ بٹ اور اے آر خاتون کے ناول پڑھتی تھیں میں انہیں بے وقوف سمجھتی تھی. کھوئی کھوئی کسی شہزادے کے انتظار میں، جو کسی گھوڑے پر آنے والا ہے.

لیکن حقیقت کچھ اور ہی نکلی. تم جو مرے شہزادے تھے میرے ساتھ چلنے کو تیار تھے. جس نے کہا تھا کہ انقلاب کے بعد نظام بدل جائے گا. امیر و غریب کا فرق رشتوں کے درمیان نہیں آئے گا. مذہب اور ذات جو پرانے سماج کی باقیات ہیں، ختم ہوجائیں گی. تم نے تو اس کی کوشش تک نہیں کی تھی. میں شیعہ تھی تو کیا فرق پرتا تھا. تم سنی خاندان سے وابستہ تھے تو کیا بڑی بات تھی. مگر ہم دونوں ساتھ نہیں نباہ سکے. مجھے اس بات کا غم نہیں ہے کہ ہماری شادی نہیں ہوئی.

مجھے اس بات کی تکلیف نہیں ہے کہ ہماری زندگی ساتھ ساتھ نہیں گزری. مجھے اس بات کا بھی دکھ نہیں ہے کہ تم میرے نہیں ہو سکے. مجھے تو دکھ اس بات کا ہے کہ تم نے جنگ لڑی بھی نہیں اور ہار بھی گئے. تمہارے وہ نعرے بھی جھوٹے تھے اور ہر وہ عمل بھی جو نظام کو بدلنے کی بات کرتا تھا. ضیاء الحق کو ہمارے نعرے نہیں تباہ کرسکے. امریکی جھنڈا بلند سے بلند تر ہی ہوتا گیا. طلبا مزدور اور کسان کیا پاکستان بچاتے، انہیں تو اپنے وجود کا ہی پتا نہیں ہے.

تم نے تھوڑی سی بھی کوشش نہیں کی کہ اپنے خاندان سے مزاحمت کرو اور میرے خاندان کے شیعہ رسم و رواج کو توڑنے میں میری مدد کرو. وہ نعرے جھوٹے نعرے تھے. وہ جنگ بھی جھوٹی تھی، شاید سائیگان میں جو لڑائی تھی وہ سچی تھی مگر منگھو پیر کے مزدور لیڈروں نے مزدوروں کو بیچا تھا. جیسے اس ملک کے ہر سیاست دان نے ملک کے ذرے ذرے کو بیچا ہے.

شاید مجھے اپنے والدین کا ہی شکر ادا کرنا چاہیے جنہوں نے علی رضا سے میری شادی کرادی اور قسمت مجھے لاس اینجلس لے آئی بالکل انہی لڑکی کیوں کی طرح جو شہزادوں کے خواب دیکھ رہی تھیں.

یہاں کی دنیا اور ہے اور اس دوسری دنیا میں کراچی کا ہر انقلابی گھوم رہا ہے. ہر وہ شخص جس نے امریکی جھنڈے کو آگ لگائی تھی اور مذہب کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا تھا وہ امریکی پاسپورٹ کو سینے سے لگا رہا ہے اور امریکا کے ہر محلے میں مسجد بنانے کا ارمان لے کر گھوم رہا ہے. شیعہ ہو یا سنی، وہابی ہو کہ دیوبندی، مہاجر ہو کہ پنجابی اور سندھی ہو کہ پٹھان، امریکی پاسپورٹ پر ہر ایک کا ایمان شک سے بالاتر ہے.

میں سوچتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے. کیوں ہم لوگ اتنے کھوکھلے ہیں اندر سے، بالکل خالی، شاید تم ہی صحیح کہتے ہو کہ جب تک تعلیم نہیں پھیلے گی کچھ بھی نہیں ہو سکے گا مگر تم نے پہلے جو کہا تھا وہ کب صحیح نکلا تھا جو اب کہہ رہے ہو وہ بھی صحیح نہیں ہوگا. ہم لوگ سب یونیورسٹی کے ہی تو پڑھے ہوئے تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان سے امریکا تک کیا کر رہے ہیں. میں جب بھی سوچتی ہوں تو شرمسار ہوجاتی ہوں. تم بھی سوچتے ہو گے کہ جس کو خط بھی نہیں لکھا ہے وہ خط کا جواب دے رہی ہے اور جواب بھی ایسا کہ جس میں صرف تنقید ہے.

بات یہ ہے کہ بہت کچھ ہونے کے باوجود میں تمہیں بھولی نہیں ہوں. تم ابھی بھی ایک خوبصورت خیال کی طرح بہار کے پہلے پھول کی چٹکی ہوئی ایک خوشنما کلی کی صورت اندر بہت اندر دل کے نہاں گوشوں میں پنہاں ہو. تم نے جو بھی کیا شاید ٹھیک کیا ہوگا مگر میں تم کو اور تمہاری یاد کو بھولی نہیں ہوں. تمہارا وہ جذبہ جسے لیے ہوئے تم مجھے ملے تھے جھوٹا نہیں تھا. تمہاری مجبوریاں اپنی ہوں گی. آخر میں تو ہم سب مجبور ہی ہیں، شاید یہ نیا جذبہ بھی جھوٹا نہیں ہے، جو لے کر تم دوبارہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ہو.

میں اس خیال اور اس جذبے سے لاتعلق تو نہیں رہ سکتی ہوں. تم ابھی بھی یاد آتے ہو. کبھی کبھی بے چین بے کل کر جاتے ہو. چاندنی راتوں میں یہاں کے ساحلوں پر گھومتے ہوئے کبھی کلفٹن کا خیال آتا ہے. جب اچھے کراچی کے دنوں میں رات رات بھر ہم گھوما کرتے تھے بغیر کسی ڈر اور خوف کے، اور ساتھ ہی تم بھی یاد آ جاتے ہو. اس بے چینی اس بے قراری کو علی رضا نہیں سمجھتا ہے. بالکل ایسے ہی جب تم بھی بے کل ہو جاتے ہو گے تو اسما بھی نہیں سمجھتی ہوگی. تم خط نہ بھی لکھو، میرا ذکر نہ بھی کرو، مجھے پتا ہے کہ تم نے مجھے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہوگا، جیسے کہ تم میرے ساتھ ہوتے ہو. میں یہاں خوش ہوں. علی رضا اور بچوں کے ساتھ، تم بھی خوش رہو. ایک حقیر سا ڈرافٹ بھیج رہی ہوں. شاید تمہارا یہ خواب پورا ہو.

بچھڑے دنوں کی دوست
یاسمین رضا

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6