ناروے: ایک حقیقی فلاحی ریاست کیسی ہوتی ہے؟


ناروے ایک انتہائی خوبصورت ملک ہے۔ سمندر، دریا، نہریں، پہاڑ، جنگل۔ جھرنے، لگتا ہے اس سرزمین کو اللہ میاں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ سردیوں میں برف ہی برف اور گرمیوں میں لہلہاتا سبزہ اور ہزار رنگوں کے پھول۔ لیکن یہ صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ رہنے کے لیے ایک بہترین ملک ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈیوپلمنٹ رپورٹ کے مطابق ناروے کئی برسوں سے دنیا کے بہترین ملکوں میں ٹاپ پر رہا ہے۔ ہر سال اس ضمن میں رینکنگ کی جاتی ہے جس کی بنیاد تعلیم و صحت کی سہولت، آمدنی، معیار زندگی اور انسانی حقوق اور شخصی آزادی پر ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ناروے بلاشبہ دنیا کے بہترین ملکوں سے ایک ہے۔ ناروے ایک مہنگا ملک ہے لیکن یہاں تنخواہیں بھی اسی حساب سے ہیں۔ ٹیکس کا نظام بہت اعلی ہے۔ ہر شخص ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ٹیکس کی چوری ناقابل معافی جرم ہے۔

ناروے حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست ہے۔ فلاحی ریاست کا مطلب یہ ہے کہ ریاست عوام کو بنیادی ضروریات مہیا کرے۔ تعلیم، صحت، روزگار، بڑھاپے کی پیشن، اور بیماری یا کسی اور وجہ سے کام نہ کر سکنے کی صورت میں معاشی مدد، اسپتال میں علاج یا آپریشن وغیرہ شامل ہیں۔

بچوں کی دس سال کی اسکول تعلیم مفت ہے۔ کتابیں، کاغذ، پنسلیں اور کمپیوٹر اسکول فراہم کرتا ہے۔ اسکول جانا ہر بچہ کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ ہر سال نوے فیصد سے زیادہ بچے اسکول میں رجسٹر ہوتے ہیں۔ ہر بچے کو پیدائش کے وقت سے ایک وظیفہ ملتا ہے جو اٹھارہ سال کی عمر تک دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ کوئی بچہ کسی چیز کو نہ ترسے۔ ایسا نہ ہو کہ والدین اس کی ضروریات، کھیل یا دوسرے مشاغل میں کم آمدنی کی وجہ سے پوری نہ کرسکیں۔ یہ وظیفہ امیر اور غریب والدین سب کے لیے ہے اور یکساں ہے۔

اسکول کے بچوں کو ساتویں کلاس سے ہی سیکس کی بنیادی تعلیم دینا شروع ہو جاتا ہے۔ بلوغت کے آثار ہوتے ہیں تو بچوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ یہ قدرتی بات ہے اور وہ اپنے جسم میں آنے والی تبدیلیوں کو سمجھیں اور گھبرائیں مت۔ اگلی کلاسوں میں جانے کے بعد کنڈوم اور مانع حمل گولیوں سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ جنسی بیماریوں پر بات کی جانی ہے۔ لڑکیوں کو اپنے جسم کی حفاظت اور اس پر اپنے حق کی بات بتائی جاتی ہے۔

دسویں کے بعد کی تعلیم مفت نہیں ہے۔ زیادہ تر بچے دسویں کے بعد پڑھائی جاری رکھتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت سے آسان اقساط پر سے قرض لیا جا سکتا ہے جو اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو آدھا معاف بھی ہو سکتا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ افراد کی تعداد چونتیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

شادی اب زیادہ اہم مسئلہ نہیں ہے۔ محبت کرنے والے جوڑے شادی کے بغیر بھی ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے بچے بھی ہوتے ہیں لیکن کوئی ان بچوں کو عجیب نظروں سے نہیں دیکھتا۔ کوئی انہیں غلط ناموں سے نہیں پکارتا۔ یہ بات اب بالکل اہم نہیں کہ بچوں کے والدین آپس میں شادی شدہ نہیں۔

جس طرح باقاعدہ شادی شدہ جوڑے اپنی زندگی گزارتے ہیں بالکل اسی طرح یہ جوڑے بھی زندگی گزارتے ہیں۔ بس ان کے درمیان کوئی تحریری قانونی معاہدہ نہیں ہوتا۔

اپنی ہر چیز پر خود اپنی ہی ملکیت رہتی ہے۔ باہمی رضا سے ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کر سکتے ہیں۔ ورنہ میری چیز، تمہاری چیز اور ہماری چیز پر یہ معاہدہ چلتا ہے۔ کسی ایک فریق پر دوسرے کی کفالت فرض نہیں ہوتی۔ کسی ایک پر اگر کوئی قرض ہے تو وہ اسے ہی اتارنا ہے۔ پارٹنر اس کا ذمہ دار نہیں۔ اگر دونوں نے ساتھ مل کر کوئی قرض لیا ہے تو یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ چند برس ساتھ رہنے اور ایک دو بچے ہو جانے کے بعد کچھ جوڑے شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں کچھ یونہی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ معاشرے میں ان کی عزت و توقیر میں کوئی فرق یا کمی نہیں آتی۔

بچے کی ولادت پر والدین کو بارہ مہینوں کی چھٹی دی جاتی ہے جسے دونوں آپس میں بانٹ سکتے ہیں۔ ماں کو زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر پہلے چھے ہفتے۔ اس لیے عام طور پر وہ اس سے زیادہ استفادہ کرتی ہے لیکن اگر وہ چاہے تو کام پر چلی جائے اور اپنی چھٹیوں کو بچے کے باپ کو منتقل کر دے۔ یہ چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ ہیں۔ چونکہ اب ناروے میں مرد و زن کافی حد تک تقریباً مساوات ہے اس لیے بچے پالنا بھی اب دونوں کی ذمہ داری ہے۔ باپ کو بچے کا فیڈر بنانا اس دودھ پلانا اس کی نیپی بدلنا، نہلانا دھلانا قطعی عیب نہیں لگتا۔ اکثر باپ بچے کو پرام میں لیے گھومتے نظر آتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ناروے ایک مسیحی مذہبی ملک تھا۔ لوگ باقاعدگی سے چرچ بھی جاتے تھے لیکن جمہوریت کے استحکام اور انسانی اقدار پر مبنی قوانین بننے کے بعد سے ناروے میں مذہب کا اثر و رسوخ کم ہوتا گیا۔ جس طرح ریاست نے خود کو مذہب سے جدا کر لیا، اسی طرح عوام نے بھی مذہب سے دوری کر لی۔ مذہب کے بجائے اقدار اور معاشرتی رواداری کو اہمیت دی جانے لگی۔ مذہب زیادہ تر تہوار منانے اور چھٹیاں گزارنے سے وابستہ ہو کر رہ گیا۔ 20ویں صدی کے آخر میں ناروے میں مذہب کی ایک طرح سے واپسی ہوئی جب مسلم ممالک کے تارکین وطن نے ادھر کا رخ کیا۔ قدامت پسند کرسچینز اور مسلمانوں میں کچھ مشرکہ نظریات تھے۔ دونوں ہی عورت کو مساوی حق نہیں دیتے، معاشرے میں عورت کی حیثیت اور کردار پر دونوں کی سوچ ملتی ہے۔ دونوں الکوحل اور بغیر شادی کے جنسی عمل کے مخالف اور ہم جنسیت کو گناہ مانتے ہیں۔

ناروے کے چند بڑے تہوار ہیں جو پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان میں مذہبی تہوار بھی ہیں اور قومی بھی۔ مذہبی تہواروں میں سب سے بڑا تہوار کرسمس ہے۔ اس کی خریداری اکتوبر سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے۔ ہر ایک کے لیے تحائف خریدے جاتے ہیں۔ ہر سال ناروے خود اپنا ہی خریداری کا ریکارڈ توڑتا ہے اور نیا بناتا ہے۔ گھروں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ کرسمس ٹری خریدے جاتے ہیں اور ان کی سجاوٹ کی جاتی ہے۔ کرسمس سے ایک روز پہلے کی شام پر خاندان جمع ہوتا ہے اور سب مل کر ڈنر کے خاص کھانے کھاتے ہیں۔ پھر درخت کے نیچے رکھے اپنے تحفے کھولتے ہیں۔ کرسمس کو فیملی تہوار جانا اور مانا جاتا ہے۔ اس دن معمول سے زیادہ لوگ چرچ جاتے ہیں، نیا سال بھی خوشی سے منایا جاتا ہے۔ آتش بازی ہوتی ہے اور اس پر ہر سال کافی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے۔

دوسرا بڑا مذہبی تہوار ایسٹر ہے۔ ایسٹر کی تقریباً بیس دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ یہ ویسے تو ایک غمناک مذہبی واقعہ ہے۔ حضرت عیسی کو صلیب پر چڑھانے کا لیکن نارویجین اسے ذرا اور طرح مناتے ہیں۔ یوں تو نارویجین اسکینگ کے دلدادہ ہیں لیکن ایسٹر کی چھٹیاں اسکی کرنے میں گزارنا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ ناروے کے اکثر باسیوں کے پاس پہاڑوں یا جنگلوں میں کیبن ہیں۔ اکثریت اپنے کیبنز کا رخ کرتے ہیں دن میں اسکینگ کرتے ہیں اور شامیں اپنے کیبن مین آتش دان کے پاس بیٹھ کر ہاتھ سینکتے ہیں۔ دنیا کی گہما گہمی سے کٹ کر پرسکون اور خاموش ماحول میں یہ چند دن گزارنا نارویجین لوگوں کا پسندیدہ ترین وقت ہے۔ بچے بھی اسکی کرتے ہیں یا برف میں کھیلتے اور پھسلتے ہیں۔

سترہ مئی ناروے کا قومی دن ہے۔ 1814 میں ناروے نے اپنا آئین ترتیب دیا۔ یہ دن پورے جوش و جذبے اور خوش سے منایا جاتا ہے۔ صبح سویرے توپوں کی سلامی سے دن کی تقریبات کا آغاز ہوتا ہے۔ لوگ اپنے قومی لباس جسے بوناد کہتے ہیں پہن کر ملک کا پرچم اٹھائے باہر نکلتے ہیں۔ اسکول کے بچوں کی پریڈ ہوتی ہی۔ اوسلو میں یہ پریڈ شاہی محل کے سامنے سے گزرتی ہے جہاں شاہی خاندان اپنی بالکونی سے ہاتھ ہلاتے سلامی کا جواب دیتے ہیں۔ ہر گھر پر ناروے کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں بسنے والے نارویجین بھی یہ دن ضرور مناتے ہیں۔

یکم مئی مزدوروں کا دن ہے اور یہ دن بھی ناروے میں منایا جاتا ہے۔ اس دن عام چھٹی ہوتی ہے۔ مین سڑکوں پر پریڈز ہوتی ہیں۔ مزدور یونین اور کئی دوسرے امدادی ادارے اور این جی اوز اس میں حصہ لیتی ہیں۔ تقاریر بھی ہوتی ہیں۔ مطالبات بھی رکھے جاتے ہیں۔ کچھ ناانصافیوں پر احتجاج بھی ہوتا ہے۔

ایک اور دن جو یہاں بہت احترام سے منایا جاتا ہے وہ ہے 8 مارچ عورتوں کا دن۔ اس دن عام چھٹی تو نہیں ہوتی لیکن کئی سیمینار اور جلوس ضرور نکلتے ہیں۔ اس میں عورتوں پر تشدد، نا انصافی، برابری اور دنیا کے دوسرے ممالک میں عورتوں پر زیادتی پر آواز بلند کی جاتی ہے۔

کیونکہ ناروے ایک سرد ملک ہے اس لیے یہاں موسم سرما کی اسپورٹس زیادہ کھیلی جاتی ہیں۔ اسکی کے علاوہ اسکیٹس، آئس ہاکی اور سنو بورڈ شامل ہیں۔ اسکینگ کی کئی قسمیں ہیں۔ کراس کنٹری اسکینگ میں ناروے بہت آگے ہے اور کئی بار چمپیئن شپ انہیں حاصل رہی ہے۔ سردیوں کے کھیلوں کے علاوہ فٹ بال، ہینڈ بال اور باسکٹ بال بھی کھلی جاتی ہے۔ لڑکیاں بھی ہر قسم کے کھیلوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ لڑکیوں کی فٹ بال ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی تارکین وطن نے یہاں کرکٹ کو متعارف کرایا۔ کئی لوکل ٹیمیں بن چکی ہیں اور اب نیشنل ٹیم بھی ہے۔ ناروے کی کرکٹ ٹیم میں بیشتر پاکستانی ہیں۔ ان کے علاوہ انڈین بھی ہیں۔ ٹیم نے اپنا نام پیدا کر لیا ہے اور اب یورپ کی بہترین ٹیموں میں اس کا شمار ہو رہا ہے۔ کئی ملکوں کے مقابل میچ کھیلے اور جیتے ہیں۔ لڑکیوں کی کرکٹ ٹیمیں بھی بن چکی ہیں اور وہ بھی کامیاب ہیں۔ کسی کو ان کے کھیلنے پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ان کے لباس میں کسی کو کوئی بے حیائی دکھائی دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).