پدر سری نظام میں ٹرانس جینڈر صنف کی جدوجہد


سنہ 2018 پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں جس لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا تعلق انسان کے بنیادی حقوق کی راہ میں حائل صنفی تفاوت سے ہے۔ جسے اس سال سرکاری اور سماجی تنظیموں اور عوام کی جانب سے نہ صرف موثر انداز میں اجاگر کیا گیا بلکہ اس حوالے سے قانون سازی کا بھی ایک تاریخی واقعہ پیش آیا۔ اس سال دو ایسے واقعات رونما ہوئے جنھوں نے فکر کی مسدود راہوں کو نہ صرف جلا بخشی بلکہ تبادلہ خیال میں قدرے نئے اظہاریہ کو بھی پیش قدمی کا موقع فراہم کیا۔

ان واقعات میں سے ایک تھا عورت مارچ کا انعقاد اور دوسرا ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018۔ ایک طرف عورت مرد کے مساوی حقوق کا مطالبہ لیے گھر کی چار دیواری عبور کرتی ہوئی پدر سری فٹ پاتھ سے جکڑی سڑک تک جا پہنچی۔ تو دوسری طرف ہماری پدرسری پارلیمان میں بائنری یعنی ثنائی صنف کی سیاسی تفریق سے بالا تر افراد جنھیں ہم انگریزی میں ٹرانس جینڈر پکارتے ہیں کے حقوق کا بل ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018 نہ صرف پیش کیا گیا بلکہ کثرت رائے سے اسے منظور بھی کر لیا گیا۔

لیکن اس قابل تحسین موقع پر حیرت کا مقام تو یہ تھا کہ قدامت پسند مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) نے بھی اس بل کی حمایت کی۔ لیکن بعد ازاں جمعیت علماء اسلام (ف) نے نہ صرف اپنی حمایت واپس لے لی بلکہ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018 کی کئی دفعات کے خلاف جماعت اسلامی کی جانب سے شرعی عدالت میں داخل کی گئی نظر ثانی کی درخواست میں بھی فریق بننے کی استدعا کر دی۔ نہ صرف یہ بلکہ ٹھیک چار سال بعد اس تحسین نا شناسی کے ساتھ ہی خاموش حمایت بھی بیدار ہو گئی اور پاکستان تحریک انصاف کے موصوف سینٹر جناب محسن عزیز نے ٹرانس جینڈر ترمیمی بل 2022 کی سینٹ کارروائی کے دوران ٹرانس جینڈر بل کی 2018 میں مخالفت نہ کرنے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018 میں فوری ترمیم کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ خدا کا قہر ہم پر نازل ہو جائے۔ اور یوں قابل آفرین حیرت کا مقام جو 2018 میں تشکیل پایا تھا بالآخر چار سال بعد عبرت کا مقام قرار پایا۔

دراصل یہ ہی وہ سیاسی ابتذال ہے کہ جس پر پدر سری کا صدیوں پر محیط استحصالی نظام کھڑا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے پدر سری معاشروں میں پائی جانے والی صنفی امتیاز کے پس پردہ سیاسی اغراض و مقاصد کے پیش نظر ٹرانس جینڈر کا غیر روایتی اردو ترجمہ ”ثنائی صنف کی سیاسی تفریق سے بالا تر افراد“ کیا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اردو میں ٹرانس جینڈر جیسے کثیر جہتی لفظ کی مثل کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے جو کہ کافی تشویش کا باعث ہے۔

اردو میں ٹرانس جینڈر کے متبادل کے طور پہ جو لفظ استعمال کیا جا رہا ہے وہ مخنث کہلاتا ہے۔ یہ اگرچہ قریب تر ضرور ہے لیکن مخنث کے لغوی معنی رجولیت سے محرومی کے ہیں اور جس سے عمومی مراد مردانہ قوت سے محرومی ہے۔ مزید برآں یہ کہ تولیدی اعتبار سے بھی رجولیت سے محرومی کا مطلب بائنری ماڈل یعنی روایتی ثنائی تولیدی نظام حیاتیات سے مطابقت نہ رکھنا ہے۔ لہٰذا لفظ مخنث انتہائی پیچیدہ نظام حیاتیات کے جنسی پہلو کی طرف ایک سرسری اشارہ تو ہو سکتا ہے لیکن ٹرانس جینڈر میں پائے جانے والے صنفی تنوع کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

بندیا رانا: پاکستان میں ٹرانس جینڈر حقوق کی ایک علم بردار

یہ ہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جنس کے خود تعین کے خلاف اپنے مذمتی بیان میں مخنث کے ساتھ ٹرانس جینڈر بھی لکھتے ہیں۔ ”چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز اپنے اعلامیہ میں فرماتے ہیں کہ خنثی اور ٹرانس جینڈر کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ مزید کہتے ہیں کہ جنس کے خود تعین کا اختیار درست نہیں اور ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن رائیٹس رولز میں متعدد دفعات اور شقیں شریعت سے ہم آہنگ نہیں۔

روزنامہ جنگ 13 مارچ 2023 ”۔ اسلامی نظریاتی کونسل ٹرانس جینڈر میں پائے جانے والے صنفی تنوع سے با خوبی واقف ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر قبلہ ایاز خنثی کے ساتھ ٹرانس جینڈر کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف جنس کا خود تعین جو ٹرانس جینڈر کا بنیادی حق ہے کو درست نہیں سمجھتے اور شریعت سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ دراصل یہ ہی وہ تضاد ہے جس کا ذکر اس مضمون میں کرنا مقصود۔ جس کی ابتداء پدر سری نظام میں مرد کو بحیثیت برتر صنف کے فعل مختار قرار دینے سے شروع ہوتی ہے۔

رومی طبیب گیلن کے نظریہ کے مطابق انسانی معاشرے میں مرد کے علاوہ جتنی بھی اصناف پائی جاتی ہیں وہ مرد کی بگڑی ہوئی شکل ہیں۔ ذرا یہ حوالہ ملاحظہ کیجیے ”رومی طبیب گیلن کے نظریے کے مطابق عورت کے رحم میں مرد کی تشکیل کے لیے زیادہ گرمی اور توانائی درکار ہوتی ہے جو اسے طاقت ور اور متناسب اعضاء کا حامل بناتی ہے۔ اس کے برعکس عورت کی تشکیل میں گرمی اور توانائی کی کمی ہوتی ہے اس لیے وہ نرم و نازک ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے عورت مرد کی بگڑی ہوئی شکل ہوتی ہے۔ اس لیے وہ مردوں کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے اندر سے عورتوں کی صفات کو ختم کر دیں، کیوں کہ یہ صفات ان کے کردار میں نزاکت پیدا کریں گی اور اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ ان میں نسوانیت کے کچھ جراثیم باقی رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی، عورت اور تاریخ،“ ۔

مخنث کی طرح خواجہ سرا کو بھی کم و بیش انھیں معنوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018 کی مخالفت میں جو استدعا اختیار کی گئی اس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ 25 ستمبر 2012 میں پاکستان کی عدالت عظمی نے خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔ جبکہ خواجہ سرا ٹرانس جینڈر نہیں ہیں۔ لہٰذا عدالت عظمی کے 2012 کے ریمارکس کی بنیاد پہ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018 کی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مخنث یا خواجہ سرا کو ٹرانس جینڈر میں پائے جانے والے صنفی تنوع کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اسے محض ایک اچھوت کی بیماری سمجھا جاتا ہے۔ اور ان لوگوں کی سماجی حیثیت میں تحقیر کا جو عنصر غالب ہے اسے پروان چڑھانے میں یوں تو کئی عوامل کارفرما ہیں لیکن بڑی وجہ ہماری قدامت پسند زبان ہے جو بائنری ماڈل یعنی ثنائی عینک سے محض ان کے جنسی پہلوؤں کو بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پہ انھیں نا مرد پکارا جاتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھیں نا عورت نہیں پکارا جاتا۔

ڈاکٹر محراب معز اعوان – پاکستان میں ٹرانس جینڈر حقوق کی بہادر رہنما

اس کی وجہ یہ ہے کہ نا عورت پکارنے کا لازمی مطلب ہو گا مرد ہونا جو کہ بڑے فخر کی بات ہے۔ جبکہ نا مرد پکارنے کا لازمی نتیجہ نسوانیت کے جراثیم کا پایا جانا ہو گا جو عورت سے منسوب ہے اور جسے حقیر جانا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنے سماجی رویوں کو سامنے رکھیں تو رومی طبیب گیلن کا قول آج بھی اتنا ہی صادق آتا ہے کہ جتنا وہ قدیم عہد میں تھا۔ ہماری زبان میں ابھی تک کسی ایسی اصطلاح کو شامل نہیں کیا گیا جو ٹرانس جینڈر میں پائے جانے والے صنفی تنوع کو ظاہر کر سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک ٹرانس جینڈر کی سماجی حیثیت کا تعین نہیں کر سکے۔ اور وہ افراد جن میں نسوانیت کا عنصر پایا جاتا ہے یا وہ جو بائنری یعنی ثنائی نظام سے مطابقت نہیں رکھتے پدر سری نظام کے مردم شناس معاشرے میں تحقیر کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک صنف / جینڈر کا تصور ثنائی / بائنری ہے یعنی مرد اور عورت پر مشتمل ہے۔ حوالہ دیکھیے ”اللہ نے مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے اور تیسری کوئی جنس نہیں ہے۔

اگر کوئی تیسری جنس ہوتی تو اللہ اپنی آخری کتاب میں ضرور بیان فرماتے۔ اشفاق اللہ جان کے کالم سے، ایکسپریس 16 مارچ 2023۔ ”حالانکہ صنف / جینڈر کی یہ تفریق بھی سیاسی ہے اور پدر سری نظام میں استحصال کی طویل تاریخ اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ چوں کہ ہم صنفی تنوع پر یقین نہیں رکھتے لہٰذا اسے بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے۔ کسی قوم میں سماجی تنگ نظری اور وسیع القلبی کا اندازہ لگانا ہو تو رائج الوقت زبان میں الفاظ کے ذخیرہ پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

بہرحال ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ان دو واقعات یعنی عورت مارچ اور ٹرانس جینڈر بل کی بنیاد پر جو بحث زبان زد خاص و عام ہوئی وہ سماج میں تخصیصی کیفیت کے اعتبار سے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی در پیش مسئلے پر بحث فیصدی تناسب میں خواہ کتنی ہی منفی یا مخالفت پر مبنی کیوں نہ ہو فکری جمود توڑنے میں بہر کیف کامیاب ہو ہی جاتی ہے۔ اور یوں در پیش قضیہ کو سمجھنے کے لیے مروجہ دستور سے ذرا مختلف تاثر اپنا راستہ ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ دلیل اور قانون سے پہلے تاثر جنم لیتا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ انسان نے ارتقا کے مراحل محض جغرافیائی تبدیلیوں کی بنیاد پر پیدا ہونے والے نئے حالات سے حادثاتی مطابقت اور مناسبت کی بنا پر طے نہیں کیے ہیں۔ بلکہ فطرت کے اصول اور قوانین میں پائی جانے والی لازمی تغیر پذیری کے عنصر نے اسے مجبور کیا کہ وہ ہر عبوری دور میں پیدا ہونے والے نئے تاثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے نظریات اور خیالات کی تشکیل نو کرے اور پیش آئندہ حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے انھیں ترتیب دے۔ انسان اپنی اسی عادت کی بنا پر ارتقا کے ہر در پیش مرحلے کو گزشتہ کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور موثر انداز میں طے کرتا چلا گیا۔

صنف / جینڈر کے تعین کا معیار کیا ہونا چاہیے اس کی تلاش میں برسوں سے بحث جاری ہے۔ اس بحث کا ماخذ بادی النظر میں اگرچہ قدما کی وہ لا علمی پر مبنی روایات ہیں جو صنف / جینڈر کو بائنری یعنی ثنویت کے اعتبار سے مرد اور عورت کے محض دو سانچوں میں ڈھلتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اور جس کا تعین فرد کی خارجی ساخت کے مظہر یا اعضائے تناسل کی بنیاد پر اس کی پیدائش میں ہی کر دیا جاتا ہے۔ لیکن قدیم عہد میں صنف کی یہ تفریق محض لا علمی پر مبنی نہیں تھی۔

کیوں کہ قدیم تہذیبوں میں صنفی تنوع کے معتبر اشارے ملتے ہیں جن میں قدیم ہندوستان، یونان اور روم قابل ذکر ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ لا علمی سے زیادہ اس میں پدر سری نظام کا وہ تعصب کار فرما تھا جس کی رو سے صنف / جینڈر صرف مرد تھا جبکہ دیگر اصناف بشمول عورت اس کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ اسی بنیاد پر نسوانیت کو نہ صرف حقیر جانا جاتا ہے بلکہ اس کی طرف نفرت آمیز رویہ کی حوصلہ افزا بھی کی جاتی ہے۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو نسوانیت ہی وہ بنیادی اور غالب عنصر ہے جس کی وجہ سے ٹرانس جینڈر کو سماجی علیحدگی کا سامنا ہے۔

اور یہ ہی عنصر ان کی معاشی سرگرمیوں کو بھی محدود یا معدوم کرتا ہے۔ کیوں کہ پدر سری معاشروں میں تبادلے کا پورا نظام مرد سے مرد کے درمیان قائم ہے لہٰذا پدرانہ سماجی تسلیم و اقبال کی بنیاد پر ہی فرد کی معاشی سرگرمیاں متعین ہوتی ہیں۔ جہاں تک بات رہی عورت کی تو اسے اس حلقے میں مفعول کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ مفعول فہ زیادہ مخصوص نظر آتا ہے تا کہ فاعل کے فعل مختار پر دلیل حاصل کی جا سکے۔ اور یہ ہی وہ مقدمہ ہے جو ہم اس مضمون میں پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ یعنی ”پدر سری نظام میں صنف کی سیاسی تفریق“

صنف / جینڈر کی اس بحث میں اہم موڑ اس وقت آیا جب جدید طبی اور نفسیاتی سائنس نے گہرے مطالعہ اور تحقیق کی بنیاد پر نہ صرف جسمانی ساخت اور ہیئت کے طبیعی پہلووں کو بیان کیا بلکہ پیچیدہ نظام حیاتیات کے داخلی پہلوؤں میں مضمر شخصیت کے حسی نظام کو بھی اجاگر کیا۔ اس طبی اور نفسیاتی تحقیق و علاج کو بیان کرنے کے لیے یوں تو متعدد اصطلاحات نے جنم لیا جن کا بیان طویل تاریخی، سائنسی و تحقیقی پس منظر کا متقاضی ہے اور جس کا متحمل یہ مضمون نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا ہم یہاں مختصراً چند قابل ذکر پہ اکتفاء کریں گے۔ جن میں سے ایک ٹرانس ویسٹیٹ ہے جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ افراد جنس مخالف کے اطوار اختیار کرنا اور ان کا لباس زیب تن کرنا پسند کرتے ہیں (ہمارے ہاں عام طور پہ انھیں خواجہ سرا پکارا جاتا ہے ) اس اصطلاح کا پہلی دفعہ استعمال جرمن ماہر جنسیات میگنس ہرش فیلڈ نے 1910 میں کیا اور بعد ازاں انھوں نے برلن انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جہاں پہلی تبدیلیٔ جنس کی سرجری عمل میں آئی۔

Magnus-Hirschfeld-1928

اس کے بعد ٹرانسیکشول 1949 اور پھر ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کا استعمال ہوا۔ اس سلسلے میں ماہرین نفسیات نے خاص طور سے مرکزی کردار ادا کیا۔ نفسیات کا تعلق چوں کہ عقلی زندگی سے ہے لہٰذا وہ اس کے تمام پہلووں کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔ مثلاً قیاس، ادراک، جذبات و احساسات، رویہ، شخصیت اور بین الشخاصی روابط، جنسی رجحان اور صنفی اظہار۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نفسیات کو معاشرتی شعبہ جات میں کلیاتی علم کی حیثیت حاصل ہے۔ ماہر نفسیات جون ایف اولیون نے 1965 میں پہلی بار ٹرانس جینڈر کی اصطلاح ایک تاریخی جملہ کہہ کر استعمال کی ”اردو ترجمہ، ٹرانسویسٹ ازم یعنی خواجہ سراؤں یا مخنث میں محض جنسیت مرکزی عنصر نہیں ہے“ اور اس طرح نان بائنری یعنی غیر ثنائی یا نان کنفارمٹی کو بیان کرنے کے لیے ایک ایسی مربوط اصطلاح میسر آئی جس نے روایتی ثنائی نظام یعنی بائنری ماڈل کی درجہ بندی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے صنفی تنوع کی نشان دہی کی جس نے نہ صرف غیر ثنائی افراد یعنی نان بائنریز کی سماجی حیثیت جو صدیوں سے گم گشتہ راہ تھی کو نشان راہ فراہم کیا بلکہ جنس کے خود تعین کی طرف بھی پیش قدمی کو ممکن بنایا۔

ذرا سوچیے تو سہی ایک ایسا سماج جس کا جینڈر ایکسپریشن روایتی بائنری ماڈل پر تشکیل دیا گیا ہو وہاں نان بائنری یعنی غیر ثنائی افراد کس گھٹن اور علیحدگی کا شکار ہوں گے۔ مثال کے طور گرلز اسکول / بوائز اسکول، لیڈیز ٹوائلٹ / جینٹس ٹوائلٹ۔ یہاں تک کہ رنگ، لباس، کھلونے اور دیگر سرگرمیاں ہر قدم پر آویزاں یہ بائنری کوڈز اور نشانات جیسے ان کا منہ چڑا رہے ہوں۔ لہٰذا بات محض جنسی رجحان تک محدود نہیں ہے کہ جس پر سب سے زیادہ سر کھپایا جاتا ہے بلکہ روش میں تبدیلی کے لیے ضروری امر تو یہ ہے کہ جینڈر ایکسپریشن کو بھی دوبارہ وضع کیا جائے۔

اس وسیع تر معاشرتی بدلاؤ کے لیے سماجی تحریکوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ریاستی اداروں اور بیوروکریسی پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پدر سری نظام پر کاری ضرب ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پہ انیسویں صدی کے برطانوی پدرسری سماج کی حساسیت اور نقطۂ نظر کو اس کے ایک کرمنل لاء ایکٹ کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ”1885 برطانیہ میں کرمنل لاء ایکٹ کے ذریعے ہم جنس پرستی کے رویے اور نقل و حرکت کو قابل تعزیر قرار دیا گیا۔

اس قانون کے نتیجہ میں وہ لوگ جو جنس مخالف کا لباس یا رویہ اختیار کرتے بڑی آسانی سے گرفت میں آ جاتے کیوں کہ بائنری ماڈل یعنی ثنائی نظام میں لباس کو جینڈر ایکسپریشن کی بڑی علامت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔ اور غیر ثنائی یا نان بائنری ایکسپریشن کو معیوب اور قابل اعتراض سمجھا جاتا ہے۔ پروفیسر اسٹیفن وہیٹل اپنے مضمون ”بریف ہسٹری آف ٹرانس جینڈر ایشوز“ میں اس برطانوی ایکٹ کے تحت پہلے عوامی ٹرائل کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں۔

”جنس مخالف کے رویہ کو غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے اسے اپنانے کی پاداش میں ارنسٹ سٹیلا بولٹن اور فریڈ فینی پارک کو 1870 میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن حکام نے استغاثہ کی بنیاد بد کاری کے عمل کی بجائے ان کی نقل حرکت اور مرد بطور عورت کے پیش کیے جانے پر رکھی۔ جون 2010“

اس ٹرائل کی دلچسپ بات یہ ہے کہ استغاثہ نے صنفی تنوع کے تسلیم سے گریزاں پدر سری خیالات کے زیر نگیں تشکیل پانے والی ریاست کے بائنری ماڈل کے تحفظ کی بنیاد پر مقدمہ قائم کیا نہ کہ سماج میں بدکاری کی روک تھام کے لیے۔ چنانچہ پدر سری نظام کی اخلاقیات معاشرے میں بد کاری یا فحاشی کی سر کوبی کے بجائے اسے ایک آڑ کے طور پہ استعمال کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے تاکہ ہر صورت نسوانیت پر قید لگائی جا سکے۔

John – Joan case

لہٰذا قدامت پسند بائنری یعنی ثنائی سماج میں مدتوں سے صنفی اضطراب کا شکار ان غیر ثنائی افراد کے لیے جدید طبی اور نفسیاتی سائنس کی مدد سے جنس کی دوبارہ تفویض کے سلسلے میں کی جانے والی سرجری سے حاصل کی جانے والی صنفی تصدیق کسی نوید سحر سے کم نہ تھیں۔ جس نے نان بائنریز یعنی غیر ثنائی افراد میں پائی جانے والی اس بے چینی اور عدم اطمینان کا صد باب کیا جو صدیوں پر محیط تھا۔ جنس کی تبدیلی کے لیے خارجی عضو یا تولیدی اعضاء کی عضوی سرجری کا پہلا واقعہ ہرش فیلڈ کلینک 1926 میں پیش آیا جہاں عمل جراحی کے ذریعے ایک ٹرانس مرد کی ”ماسٹیکٹومی“ یعنی پستان براری کی گئی۔

اور 1930 میں ایک ٹرانس عورت کی ”پینکٹومی“ کی گئی یعنی عضو تناسل کے بوجھ سے اس ٹرانس عورت کو مکتی دے دی گئی۔ اب وہ بیٹھ کر پیشاب کر سکتی تھی۔ اور 1931 میں ”وجائینو پلاسٹی“ کی سرجری عمل میں آئی جس کے ذریعے ٹرانس مرد میں ”وجائینل کنال“ فرج بنائی گئی۔ اور آنے والے دنوں میں سائنسی تحقیق کی روشنی میں جدید طب کے اس شعبہ نے عمل جراحی کے کامیاب تجربات سے ٹرانس جینڈر کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ سیکس ری۔ اسائنمنٹ سرجری کے ذریعے صنفی تصدیق کا پہلا مثبت نتیجہ 1952 میں اس وقت سامنے آیا جب کرسٹین جورگنسن نے اپنے صنفی تفویض کے حق کو استعمال کرتے ہوئے تبدیلی جنس کی سرجری کروائی۔

اسٹیفن وہیٹل اپنے مضمون میں جورگنسن کے بارے میں بیسویں صدی کی مرثیہ نگار کنڈیس براؤن کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ”وہ بلا شبہ بے حد حسین اور باکمال ٹرانس جینڈر شخصیت کے طور پہ سامنے آئیں۔ ان کی مقبول عوامی زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو ان لیکچرز پہ مشتمل تھا جس میں وہ عوام کو یہ آگاہی دیتیں کہ ٹرانسیکشولز کو شیطانی یا بدکردار نہ سمجھا جائے۔ جورگنسن کی دلکشی اور عقل نے بیسویں صدی کے لاکھوں لوگوں کے دل جیت لیے۔

اور وہ آنے والی کئی دہائیوں تک دنیا بھر کے ٹرانس جینڈر کے لیے مثال بنی رہیں ”پروفیسر اسٹیفن وہیٹل مزید لکھتے ہیں کہ جورگنسن کے ماہر نفسیات ڈاکٹر ہمبرگر کو بڑی تعداد میں ایسے خطوط موصول ہوئے جن میں کم و بیش 465 مردوں اور عورتوں نے جنس کی تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان خطوط سے تحریک پاتے ہوئے انھوں نے ایک مقالہ“ جنس کی تبدیلی کی خواہش ”1953 میں شائع کیا۔“ اور یوں طبی ماہرین اور ہماری سخت گیر بائنری دنیا کو یہ احساس ہوا کہ نہ جانے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو خفتہ حال گھٹن زدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ”وہ خوش نہیں ہیں کیوں کہ ان کا صنفی کردار ان کے جسم سے میل نہیں کھاتا۔“

Christine Jorgensen

صنف کے اس روایتی بائنری / ثنائی نظام کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب جدید سائنسی تحقیق کی بنیاد پر ان جینز کی نشان دہی کی گئی جو غیر ثنائی تھیں۔ ”غیر سرکاری تنظیم جینڈر اسپیکٹرم کے سینئر ڈائریکٹرز جوئل بوم اور کم ویستھمر جو تقریباً 30 سال سے سماجی انصاف اور مساوات سے متعلق مسائل پر کام کر رہے ہیں کے مطابق۔ پچھلی چند دہائیوں میں 25 سے زائد ایسی جینز کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے بارے میں کبھی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ صرف مرد یا عورت کے نظام حیاتیات سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ثنائی نظام حیاتیات سے۔

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جینز زیادہ پیچیدہ اور غیر ثنائی تغیرات کو ظاہر کرتی ہیں۔ جدید سائنسی علوم اور تحقیق کی بنیاد پر اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حیاتیاتی جنس بائنری ماڈل یعنی ثنائی نظام سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لہٰذا انٹر سیکس کی پیچیدہ صورت حال کو انسانی فزیالوجی میں قدرتی طور پر ہونے والے تغیر کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے ”اسی بات کے پیش نظر ہندوستان کی عدالت عظمی کے چیف جسٹس جناب ڈی وائی چندر چوڑ نے حال ہی میں ہم جنس پرست شادی کی درخواست کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیے وہ قابل ذکر ہیں۔ فرماتے ہیں“ حیاتیاتی مرد اور عورت کا کوئی مطلق تصور موجود نہیں۔ یہ معاملات کسی کے جنسی اعضاء سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں ”اگر غور کیا جائے تو چیف جسٹس آف انڈیا کے یہ ریمارکس ان تمام شادیوں یا نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں جو اب تک حیاتیاتی مرد اور عورت کی بنیاد پر طے پائی ہیں۔

جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر اپنا حالیہ فیصلہ سناتے ہوئے لکھتی ہے کہ ”خواجہ سرا خود کو مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے اور نہ ہی احساسات کی بنیاد پر جنس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ چوں کہ کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے اور جنس ایک حیاتیاتی مظہر ہے۔ لہٰذا جنس کا تعین جسمانی اثرات کے غالب ہونے پر کیا جائے۔ یعنی جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت مقرر ہوئی تھی۔ مزید برآں یہ کہ جنس کے خود تعین کے ذریعے وراثت میں مرضی کا حصہ لیا جا سکتا ہے لہٰذا جنس کا خود تعین قانون وراثت سے بھی متصادم ہے“ اس مضمون کا مقصد ان حوالہ جات سے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا ہر گز نہیں ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ زمین اپنے مدار میں چکر کاٹ رہی ہے یہ ثابت ہو جانے کہ باوجود اس بات پہ اصرار کرنا کہ وہ ساکت ہے معقولیت پسندی نہیں۔ لہٰذا وفاقی شرعی عدالت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کو جنس کے خود تعین کا حق تفویض کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سنجیدہ ماہرین نفسیات سے مشاورت کی جا سکتی ہے اور جنس کے خود تعین کو ماہرین نفسیات کی تشخیص سے اس حد تک مشروط کیا جاسکتا ہے کہ فرد کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھا جا سکے۔ اور اس سلسلے میں ہمارے پاس پہلے سے ہی کئی مثالیں موجود ہیں۔

Christine Jorgensen

مثال کے طور پر عزیز اللہ جان بی بی سی پر لکھے گئے اپنے مضمون میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ”پشاور کے ایک نجی ادارے نارتھ ویسٹ جنرل ہسپتال میں 16 ماہر ڈاکٹروں کا ایک پینل مہینے میں ایک بار ایسے افراد کو دیکھتا ہے جن کی جنس غیر واضح ہوتی ہے۔ پلاسٹک سرجن ڈاکٹر عبیداللہ بھی اس پینل کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر عبیداللہ کہتے ہیں کہ ایران میں ماہر نفسیات لکھ کر دے دے تو بچہ کی جنس متعین کی جا سکتی۔ بی بی سی اردو 16 جولائی 2022۔

”انقلاب ایران 1979 سے پہلے ایران میں ٹرانس جینڈرز کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ لوگ آئے روز حکومت کے عتاب کا نشانہ بھی بنتے تھے۔ لیکن 1980 کے بعد ٹرانس جینڈر مریم کی کاوشوں اور انقلاب ایران کے روح رواں جناب آیت اللہ خامنہ ای کے فتوے کے بعد نہ صرف انھیں شناخت کیا گیا بلکہ عمل جراحی کے ذریعے جنس کی تبدیلی کی اجازت بھی دی گئی مزید برآں یہ کہ اس عمل کو محدود پیمانے پر مالی معاونت بھی کی گئی۔ اگرچہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس عمل کا درپردہ مقصد نان بائنریز کو سخت گیر بائنری ماڈل میں داخل کرنا ہے۔ لیکن باوجود اس کے اسے سراہا جانا چاہیے۔ تعجب ہے کہ انقلاب ایران کی اس خوبی کو کیوں کر اجاگر نہیں کیا جاتا۔

جنس کے خود تعین کے سلسلے میں طبی اور سماجی ماہرین کے اہم اور ذمہ دارانہ کردار کا اندازہ اس حوالے سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ”ڈاکٹر عبیداللہ بتاتے ہیں کہ ایک خاتون لیکچرر نے مرد بننے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس خاتون کو کہا گیا کہ وہ سرجری سے پہلے دو سال تک مرد بن کر رہے۔ کیوں کہ سرجری ہو جانے کے بعد واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکچرر نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور وہ ایک گاؤں میں مردانہ کپڑے پہن کر دو سال تک بحیثیت مرد کے ایک دکان چلاتی رہیں۔ جس کے بعد ان کا آپریشن کیا گیا اور انھیں مکمل مرد بنا دیا گیا۔ بی بی سی اردو، عزیزاللہ جان 2022۔ ”

اس کی توثیق امریکی ماہرین نفسیات کی ایسوسی ایشن سے بھی ہوتی ہے۔ “ ثانوی یا پیدائشی جنس سے چھٹکارا حاصل کرنے اور دوسری جنس کی خصوصیات حاصل کرنے سے پہلے کم از کم دو سال تک اس کردار میں رہ کر اپنی آزمائش کرنا چاہیے ”کیوں کہ سرجری ہو جانے کی صورت میں واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ جنس کے خود تعین کے حوالے سے اگر ٹرانس جینڈر کے مطالبے کو مد نظر رکھا جائے تو یہ مؤخرالذکر تادیبی اصول اگرچہ بحث طلب ہے۔ لیکن کم از کم ایک ایسا اصول موجود ہے جہاں سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔

صنفی تنوع کو اجاگر کرنے اور تسلیم کرنے کی سنجیدہ کوششوں میں طبی، سماجی اور نفسیاتی ماہرین کا پرمغز اور فکر انگیز تحقیق پر مبنی مطالعہ اور علاج دستیاب ہے۔ جس سے ان ماہرین کے ذمہ دارانہ کردار کا پتا چلتا ہے۔ جنس کے خود تعین میں مشاورت سے لے کر ایس۔ ار۔ ایس سرجری اور اس کے بعد کا پورا عمل جدید طبی، نفسیاتی اور سب سے اہم سماجی تعاون کے ساتھ ترتیب دیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ جنس کے خود تعین کا اختیار انتشار کا باعث ہو گا اور یہ ایک مغربی سازش ہے جس کا مقصد ہمارے معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دینا اور ہماری سماجی قدروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ درست دکھائی نہیں دیتا۔

اگر مقصد سازش ہی تلاش کرنا ہے تو وہ اس مندرجہ ذیل بیان میں با آسانی مل جاتی ہے ذرا ملاحظہ کیجیے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ 2018 پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف خلاف شریعت ہے بلکہ اسلام کے قانون وراثت سے بھی متصادم ہے اور خواتین کی عفت و پاکدامنی اور ہماری روایات کے بھی خلاف ہے۔ مشتاق احمد خان کا دعویٰ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 40 ہزار لوگوں نے نادرا کے سرکاری کاغذات میں جنس تبدیل کروائی ہے۔ ان میں بڑی تعداد مردوں کی ہے جنھوں نے اپنی شناختی دستاویز میں جنس تبدیل کروائی۔ اس سے معاشرے میں بہت بڑا انتشار پھیل رہا ہے اور ہمیں اپنے معاشرے کو اس انتشار سے بچانا ہے۔ محمد زبیر بی بی سی اردو 21 ستمبر 2022“

Maryam Khatoon – Iran

پدر سری نظام کی اساس دراصل یہ ہی قانون وراثت ہے جس کا واضح اظہار سینٹر مشتاق احمد اپنے بیان میں کرتے دکھائی دیتے ہیں اور جنس کے خود تعین میں مانع بھی ہے۔ لہٰذا قانون وراثت اور اس سے مشتق عورت کی پاک دامنی کو پدرسری نقطۂ نظر سے سمجھنے کی ضرورت ہے جو مرد کو نہ صرف دولت پر اختیار تفویض کرتا ہے بلکہ عزت و ناموس کا بھی حق دار قرار دیتا ہے۔ لہٰذا خاندان اور قبیلہ کی سماجی حیثیت یا نام و نمود مرد کے ملکیتی دائرے اختیار سے مشروط ہے۔

اور چوں کہ ملکیت کا انتقال وراثت کی بنیاد پر طے پاتا ہے لہٰذا عورت کی پاک دامنی اس حوالے سے لازمی قرار دی جاتی ہے۔ اور اس پاک دامنی کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی درجے کے تکلیف دہ اور انسانیت سوز اقدامات اٹھائے جانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جس کا اندازہ وسعت اللہ خان کے مضمون ”خواتین کے تولیدی اعضاء مسخ کرنے کا چلن“ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ وسعت اللہ خان لکھتے ہیں ”اندازہ یہ ہے کہ ہر سال پندرہ سے پچاس برس کی بیس لاکھ خواتین کے نازک اعضاء کو مسخ کرنے یا غیر صحت مند تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اکثر یہ کام نیم اتائی ہاتھوں سے انجام پاتا ہے۔

موجودہ آبادی میں اب تک پانچ کروڑ 20 لاکھ خواتین ختنہ کے تجربے سے گزری ہیں اور یہ عمل خواتین کی جسمانی و نفسیاتی صحت اور انفرادی توقیر کو بھی بٹہ لگاتا ہے۔ فروری 2023 ایکسپریس، ”خواتین کے کنوارپن کو برقرار رکھنے کے لیے یا یوں کہہ لیجیے کے پاک دامنی کو یقینی بنانے کے لیے افریقہ کے کئی ممالک میں Vagina کی ترپائی کرنے کا رواج ہے اور صرف پیشاب کے لیے ذرا سی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے۔ بسا اوقات تو ان خواتین کو اپنی زندگی میں کئی بار پیوند کاری کے اس انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

لہٰذا بات صرف کنوارپن تک محدود نہیں ہے چوں کہ مرد عورت پر بھروسا نہیں کرتا اسی لیے پاک دامنی کو یقینی بنانے کے لیے یہ طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ چادر اور چار دیواری کا پدر سری تصور دراصل اسی ملکیتی اختیار اور انتقال اختیار کو یقینی بنانے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ عورت پر عدت کی مخصوص میعاد بھی اس سلسلے میں دلیل کے طور پہ پیش کی جا سکتی ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مرد کا سارا اقتدار عورت کی باریک سی پاکدامنی پر ٹکا ہوا ہے۔

اسی کے تناظر میں چادر اور چار دیواری کی سیاسی قید نے پدر سری نظام کے وسیع تر مفاد میں زر اور زمین کے ساتھ ساتھ زن کو بھی اپنے حصار میں لے لیا۔ اور یوں عورت اس سانچے کے ساتھ ساتھ کہ جس میں مرد کے وارث ڈھلتے اور پروان چڑھتے ہیں زر اور زمین کی طرح مرد کی نجی ملکیتی میں شمار ہونے لگی۔ جیسا کہ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب تاریخ اور عورت میں رقم طراز ہیں ”بیشتر معاشروں میں مادر سری نظام کا خاتمہ جسمانی طاقت کی اہمیت بڑھنے کے بعد نجی ملکیت کا تصور مضبوط ہونے سے ہوا۔ عورت کی آزادی کو سب سے زیادہ نجی ملکیت کے تصور نے سلب کیا۔“ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ جنس کے خود تعین کا مطالبہ قانون وراثت کی سخت گیر پدر سری حدود پھلانگتا ہوا عورتوں کے لیے بھی آزادی کی راہ ہموار کرتا ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔

Maryam Khatoon Molkara – Iran

اسی طرح سینیٹر مشتاق احمد صاحب کا دوسرا خدشہ مردوں کا بڑی تعداد میں جنس کا تبدیل کرانا ہے۔ یہ خدشہ دراصل پدر سری نظام کی منافقت کا پردہ چاک کرتا ہے۔ جسے قمر نسیم جو ایک غیر سرکاری تنظیم بلیو وینز کے پروگرام مینجر ہیں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ”قمر نسیم کے مطابق اگر ایک لڑکی جنس کی تبدیلی کے بعد لڑکا بن جائے تو اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ لیکن قدرت کے اسی نظام کے تحت اگر کوئی لڑکا جنسی تبدیلی کے عمل میں لڑکی بن جائے تو اسے روسیاہ قرار دے کر رسوائی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ عزیز اللہ جان، بی بی سی اردو 2022، ”۔
اس سماجی رویے کی بنیاد پر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نسوانیت ہی وہ غالب عنصر ہے جسے پدر سری نظام میں باقاعدہ منظم طریقے سے تحقیر کا نشانہ بناتے ہوئے کم تر درجہ پہ رکھا گیا ہے۔ تا کہ عورت جس سے نسوانیت منسوب ہے کبھی بھی مرد کے مساوی صنفی درجہ حاصل نہ کر سکے اور چوں کہ ٹرانس جینڈر میں دیگر عناصر کے مقابلے میں نسوانیت غالب عنصر ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ پدرسری نظام ان کے مطالبے جنس کے خود تعین پر معترض ہے۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ صنفی تنوع کے حامل ٹرانس جینڈر پر بحث تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر کی جانی چاہیے۔ اور اس بحث میں صرف جنسی ہی نہیں بلکہ سماجی، نفسیاتی اور سیاسی پہلو بھی زیر غور آنے چاہیے۔ سب سے اہم تو وہ داخلی حسی نظام ہے جسے ہم خاطر میں ہی نہی لاتے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ٹرانس جینڈر پر جو بحث ہو رہی ہے وہ نہ صرف یک رخی ہے۔ بلکہ اس بحث کا غالب عنصر اس گمراہ کن اور سخت گیر نقطہ نظر کے تسلسل پر مبنی ہے جس کی نظریاتی وجوہ انتہائی مبہم ہونے کے باوجود نہ صرف غیر منقولہ قرار پاتی ہیں۔

بلکہ ان کی صراحت کے ساتھ مسلسل ترویج و اشاعت نے ایک ایسے سماجی ذہن کی آبیاری کی جو مرد کو بحیثیت صنف اور عورت کو بحیثیت جنس/شے کے برتتا چلا آ رہا ہے۔ لہٰذا ایسے پدرسری نظام میں جہاں صنف کی روایتی ثنائی تقسیم میں عورت بحیثیت صنف نہیں بلکہ جنس کے سیاسی استحصال کا شکار ہو وہاں ٹرانس جینڈر کو مساوی صنف کے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments