پب جی والی سیما


کراچی سے نئی دہلی غیر قانونی طور پر پہنچنے والی خاتون سیما حیدر کے بہت چرچے ہیں۔ محترمہ کے 4 عدد بچے ہیں، پہلے شوہر کا نام حیدر ہے، جاکھرانی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ بھارتی شہری سچن کے ساتھ پب جی گیم کھیلتے ہوئے ان کی جان پہچان ہوئی، پھر یہ جان پہچان محبت میں بدل گئی اور سچن کی خاطر وہ چار بچے لے کر بھارت چلی گئی۔ کراچی میں جہاں کرائے کا مکان لینا مشکل ہے وہاں یہ خاتون سابقہ شوہر کا مکان بیچ کر پیسہ لے کر گئی ہیں۔ جب سے مودی کی حکومت آئی ہے تب سے جو خواتین قانونی طور پر پاکستان بیاہ کر آئیں ہیں یا بھارت بیاہ کر گئیں ہیں۔ دونوں ہی اپنے میکے والوں سے نہیں مل سکتی کیونکہ دونوں ممالک نے آمدورفت کے تمام راستے بند کیے ہوئے ہیں۔ اب ان میں سے جو امیر گھروں کی خواتین ہیں تو وہ تو دوسرے ملکوں میں اپنے گھر والوں سے مل لیتی ہیں۔ اگر گھر والوں کو کچھ بھیجنا بھی ہوتا ہے تو وہ دوسرے ممالک کے راستے سامان بھیج دیتے ہیں۔ ایک سادہ ٹی۔ سی۔ ایس نہ آ سکتا نہ جاسکتا ہے۔ اس لیے اکثر خواتین مودی حکومت کے جانے کا انتظار کر رہی ہے اور دعا کر رہی ہے کہ اب کی دفعہ اعتدال پسند حکومت آئے تاکہ وہ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں سے مل سکے۔ ان حالات میں سیما نام کی خاتون کراچی سے بھاگ کر بھارت پہنچ گئی اور دعویٰ کر رہی میں مسلمان تھی اور اب ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے اب مر کر بھی پاکستان نہیں جائے گی اور مدد کی آس مودی حکومت سے لگا لی ہے۔

پاکستان میں کچھ لوگ ان کی حمایت میں کھڑے ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ ایک خاتون باڑ لگی بارڈر کراس کر کے کیسے پہنچ گئی، جبکہ ان کا اٹھنا بیٹھنا، بات کرنے کا انداز پاکستانی خواتین سے مختلف ہے روانی سے ہندی میں بات کرتی ہے۔ کچھ لوگ اس کو مذہبی مسئلہ بھی بنا رہے ہے اور کہہ رہے ہیں کہ یہ خاتون مسلمان ہے اور ہندو آدمی کے لیے دوسرے ملک چلی گئی اس لیے پاکستان میں ہندو برادری کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور مردوں کے معاشرے میں ایک عورت کی خودمختاری کسی سے برداشت نہیں ہو رہی ہے، ایک عورت آزادی سے جینا چاہتی ہے لیکن وہ مردوں سے برداشت نہیں ہو رہا ہے لہٰذا بدلے میں ہندو برادری کو دھمکیاں دی جا رہی ہے۔

ہندو برادری کو ہراسانی اور دھمکیوں کا معاملہ بہت پرانا ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک اہم مسئلہ ہے جو کسی بھی طرح حل نہیں ہو رہا اور وہ مسئلہ ہے ہندو نوعمر لڑکیوں کی شادیاں اور ان کی مذہب کی تبدیلی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلام قبول کرنا صرف لڑکیوں میں دیکھا جا رہا ہے کوئی عاقل، بالغ مرد یا برداری کی سطح پر ہمیں اسلام قبول کرنے کی اب تک کوئی خبر نہیں ملی۔ ان لڑکیوں کے ماں باپ اپنی بیٹیوں کے دیے گئے بیانات پر مطمئن نہیں ہیں، اس لیے وہ ان کے متعلق شکایات درج کراتے ہیں لیکن تھانے سے لے کر عدالتوں تک میں ان لڑکیوں کے مقدمات بند ہو جاتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی ہمیں کوئی عملی کام ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے جس کی وجہ سے ہندو برادری میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

آئیے اب دیکھتے ہیں بھارت کی طرف کہ وہاں سرکاری اور عوامی سطح پر کیا ہو رہا ہے، سب سے پہلی خبر تو یہ ہے کہ سیما نے بھارت کی خاتون صدر کو بھارتی شہریت کی درخواست دی ہے۔ دوسری طرف عوامی سطح پر سیما حیدر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بھارتی ہندو تنظیم کرنی سینا نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ مخبر ہو اس لیے ہم انہیں پاکستان کی سرحد پر چھوڑ کر آئے گے۔ ہمارے لوگوں کو یہ بات شاید معلوم نہیں کہ بھارت میں مسلم لاء جس کو ہم اسلامی قوانین کہتے ہیں ان کا اطلاق ہوتا ہے ہندو ججوں کو بھی اسلامی قوانین بتائے جاتے ہیں اس لیے خاندانی مقدمات جس میں شادیوں کے ایسے مقدمات جس میں ایک فریق مسلمان اور دوسرا فریق غیر مسلم ہوں تو اسلامی قوانین کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بھارت میں سوشل میڈیا پر چند سالوں سے عدالتی کارروائیوں کی ویڈیوز دکھائی جا رہی ہے کیونکہ بھارت میں ان کیمرہ کارروائی دکھانے کی اجازت ہے ایک ایسی ہی عدالتی کارروائی ہم نے بھی دیکھی جس میں لڑکی مسلمان تھی اور لڑکا ہندو تھا لیکن لڑکے نے شادی ہندو دھرم کے مطابق مندر میں کی تھی اور لڑکی نے ہندو مذہب قبول کر لیا تھا لیکن لڑکی کے والدین کو لڑکی کے بیان یقین نہیں آیا اور انھوں نے لڑکے پر مقدمہ درج کرا دیا جبکہ لڑکی بالغ تھی۔ یہاں جو نکتہ جج صاحب نے نکالا وہ یہ تھا کہ اسلام میں مذہب کی تبدیلی ناممکن ہے جو ایک بار اسلام قبول کر لیتا ہے وہ پھر کسی دوسرے مذہب کو اختیار نہیں کر سکتا چونکہ اسلام میں مذہب کی تبدیلی کی سخت سزا ہے لہٰذا اس لڑکی کی مذہب تبدیلی کی درخواست رد کردی گئی، بلکہ اس بات کو کنفرم کرنے کے لیے قاضی کو بلانے کے جج نے آرڈر دیے اور کہا کہ قاضی کے بیان کے بعد سوچا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔ اس لڑکے کو جج صاحب نے جیل بھیج دیا انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو تو مسلمان ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے دھرم میں مذہب بدلنے کی گنجائش ہے لیکن مسلمان ہندو نہیں بن سکتا۔ نہ وکیل کو جھوٹ بولنے کی اجازت دی نہ محبت نامہ سنایا گیا جج نے لڑکی، قاضی، اس کے ماں باپ کو اگلی تاریخ پر بلا لیا۔ سوشل میڈیا پر ایک اور کہانی سامنے آئی وہ علی گڑھ کی لڑکی تھی۔ اس نے بھی ہندو لڑکے سے شادی کی اور ہندو مذہب اختیار کر لیا۔ پھر اس لڑکی نے تمام قانونی کاغذات متعلقہ تھانے میں جمع کرائے کیونکہ ایس۔ ایچ۔ او نے اس کے کاغذات ویریفائی کر کے اسے ہندو ڈکلیئر کرنا تھا لیکن ایس۔ ایچ۔ او نے اس کے کاغذات ویریفائی نہیں کیے جس پر اس لڑکی نے علیگڑھ یونیورسٹی کے پیچ پر آ کر بیان دیا کہ میں اپنی مرضی سے ہندو ہو رہی ہوں، عاقل و بالغ ہو تو ان صاحب کو کیا مسئلہ ہو رہا ہے یہاں سرکاری سطح پر جو موقف اختیار کیا گیا وہ یہ ہے کہ شادی تو ہو سکتی ہے لیکن مذہب کی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

ایک بی جے پی کی رہنما ہے انھیں بھی اس اسلامی قانون پر شدید اعتراض ہے کہ بھئی یہ کیا بات ہوئی کہ مسلمان ہندو نہیں بن سکتا اور اگر بن گیا تو مارا جائے گا ایسا تو کسی دھرم میں نہیں ہوتا سب میں مرضی ہوتی ہے لیکن وہ رہنما بھی بس اعتراض کر کے ہی رہ جاتی ہے۔ اس سے آگے وہ بھی نہیں بڑھتی کیونکہ بھارت نے سرکاری سطح پر دیگر مذاہب کو تسلیم کر لیا ہے اور ان کے قوانین کا احترام کر رہے ہیں جب کہ عوامی اور سیاسی سطح پر اقلیتوں کے احترام سے کوسوں دور ہے۔

پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم عوامی سطح پر تو اقلیتوں کا احترام کرتے ہیں ان سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں لیکن سرکاری اور سیاسی سطح پر ان کو عزت نہیں دیتے جو مسائل ان کو اپنے مذہب اور اپنی برادری کی حفاظت کے حوالے سے ہیں ان پر بھی ہم اپنے اسلامی قوانین کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک یہودی جوڑے کے رجم کا معاملہ آیا تو نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے یہودی عالم سے پوچھا کہ توریت کیا حکم دیتی ہے تو اس نے توریت کا حکم چھپانا چاہا تو صحابی رسول صل اللہ علیہ وسلم، عبداللہ بن سلام نے فرمایا یہ جھوٹ بولتا ہے توریت میں رجم کا حکم ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے توریت کے حکم پر ہی اس کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس تو پہلے سے ہی مثالیں موجود ہے تو اس لیے ہمیں تو فیصلوں میں دشواری ہونی ہی نہیں چاہیے، لیکن ہمارے پاس جو دو چار مقدمات کے فیصلے آ گئے ہیں، اسے ہی سامنے رکھ کر فیصلے سناتے ہیں۔ جب کہ ہر مقدمہ دوسرے مختلف ہوتا ہے جیسے ہر انسان اور ان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں عالمی سطح پر اپنی عزت بحال کرنی ہے تو ہمیں اپنا نظام انصاف کو آسان اور حقیقی حالات کے مطابق کرنا ہو گا۔ اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اکثریت کے لیے، انصاف تھانے کی سطح سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک آسان بنانا ہو گا تاکہ اگلی بار کوئی خاتون پب جی گیم کھیلتے کھلتے آسانی سے بارڈر کراس کر کے ہماری جگ ہنسائی نہ کرائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments