ہمیں رشتہ منظور ہے


میرا ماسٹرز کا آخری پیپر ہے۔ میں صرف خوش نہیں بلکہ بہت خوش ہوں۔ اس دن کا میں ڈیڑھ سال سے انتظار کر رہی تھی۔ میں نے اور جنید نے یہی طے کیا تھا کہ ہم اپنے گھر والوں سے شادی کی بات تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی کریں گے اور کیونکہ جنید کو نوکری کی کوئی ایمرجنسی نہیں تھی اس لیے وہ ماسٹرز کے فوراً بعد میرے گھر اپنے ماں باپ کو رشتے کے لیے بھیجنا چاہتا تھا۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔

مجھ سے بڑی دو بہنیں ہیں جنہوں نے مجھے ماں کے ساتھ بہت پیار اور توجہ دی ہے۔ اب ان دونوں کی میرے کزنز سے شادیاں ہو چکی ہیں تو وہ دوسرے شہروں میں رہتی ہیں۔ پھر بھی میری ہر ضرورت اور بات کا خیال رکھتی ہیں۔ بڑی باجی سے تو مجھے تھوڑی جھجک آ رہی ہے مگر پوری امید ہے کہ جب میں چھوٹی باجی سے امی ابو سے جنید کے متعلق بات کرنے کا کہوں گی تو وہ میری مدد ضرور کریں گی۔

میں باجی کو فون کرتی ہوں۔ میری بات سن کر وہ تشویش کا شکار ہو گئی ہیں۔ سادہ سی خاتون خانہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یونیورسٹی میں لڑکے محبت وحبت صرف ٹائم پاس کے لیے کرتے ہیں، شادی کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ میں ان کو سمجھاتی ہوں کہ ایسا نہیں ہے، اس لیے جنید فوراً رشتہ بھیجنا چاہتا ہے۔ وہ پوچھتی ہیں کہ لڑکا کرتا کیا ہے؟ میں انہیں بتاتی ہوں کہ ان کا گارمنٹس کا کاروبار ہے۔ اسے نوکری کی ضرورت نہیں۔ باجی مطمئن نہیں ہوتیں، وہ پوچھتی ہیں کہ کس مسلک کاہے؟ میں کہتی ہوں کہ مجھے نہیں معلوم۔ سن کر وہ چند لمحے خاموش ہو جاتی ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ، یہ تو انتہائی غیر ذمہ داری کی بات ہے۔ تمہیں جان پہچان بڑھانے سے پہلے معلوم کرنا چاہیے تھا۔ یہ سن کر میں بھی کچھ کے لیے پریشان ہو جاتی ہوں۔

لیکن آپ امی سے بات کریں گی نا؟ وہ کہتی ہیں کرلوں گی، مگر مجھ سے یہ امید نہیں رکھنا کہ میں ان پر کوئی زور ڈالوں گی۔ یہ بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔ کل کلاں کو کچھ ہو گیا تو۔ وہ ایک دم بدلی بدلی لگتی ہیں۔

باجی نے سارا معاملہ امی کے گوش گزار کر دیا ہے۔ میں امی کا دو دن سے منہ دیکھ رہی ہوں کہ وہ کچھ کہیں۔ مجھ سے یہ کہیں کہ میں نے تمہارے ابا سے بات کر لی ہے، جنید کو کہو کہ اپنے ماں باپ کو بھیج دے۔ لیکن وہ کچھ کہے ہی نہیں رہیں۔ میرے اندر جھنجھلاہٹ اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ میں دو دن اور صبر کرتی ہوں۔ جنید بھی مجھ سے اپ ڈیٹ پوچھ رہا ہے۔ اس لیے تنگ آ کر میں چوتھے دن امی سے نظریں جھکائے جھکائے بے شرموں کی طرح پوچھ لیتی ہوں کہ آپ نے کیا سوچا جنید کے بارے میں؟

امی چشمے کے پیچھے سے مجھے حقارت سے دیکھتی ہیں۔ جیسے وہ کبھی کبھی اچانک مٹر چھیلتے ہوئے نکل آئے موٹے سے کیڑے کو دیکھتی ہیں۔

”تمہیں ہم نے یونیورسٹی اس لیے بھیجا تھا کہ اپنے لیے خصم ڈھونڈتی پھرو۔ کبھی ایسا ہوا ہے ہمارے خاندان میں؟ بڑی بہنوں نے کبھی ایسی حرکت نہیں کی۔ تم میں اتنی بے شرمی کہاں سے آئی ہے۔“ ان کے تحقیر آمیز سرد لہجے کی ٹھنڈک سے میرا وجود منجمد ہو جاتا ہے ۔

ایک ہفتے بعد میں پھر امی کے آگے گڑگڑاتی ہوں کہ جنید کے ماں باپ کو گھر آنے کی اجازت دیں، اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو میں ضد نہیں کروں گی۔ آج ان کی کمیٹی کھلی ہے اس لیے ان کا موڈ بہت اچھا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”بلا لو اس کے ماں باپ کو۔ میں تمہارے ابو سے بات کر لوں گی۔“

میں نہال ہو جاتی ہوں۔ جنید کو اطلاع پہنچاتی ہوں۔ وہ اپنے امی ابو سے مشورہ کر کے اسی اتوار کا وقت دے دیتا ہے۔ میں دل و جان سے ان کے آنے کی تیاری شروع کر دیتی ہوں۔

وہ آتے ہیں۔ میں دیکھتی ہوں میرے ماں باپ کا رویے میں سرد مہری ہے، چبھنے والی۔ امی بس اپنی سنائی جا رہی ہیں جنید کی امی کو، گویا انہیں موقع نہیں دینا چاہتیں کہ وہ اپنا مدعا بیان کریں۔ ابو کچھ خاموش سے ہیں مگر جنید کے ابو گفتگو کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جنید کے امی ابو میزبان ہیں اور میرے امی ابو مہمان۔

مہمان چلے جاتے ہیں۔

امی ابو ان کو رشتے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ”وہ لوگ ذات کے جولاہے ہیں اور عقیدہ بھی ٹھیک نہیں۔ رشتے دار کیا کہیں گے؟“

وہ لوگ ایک بار پھر آ کر رشتہ مانگتے ہیں۔ انکار ملتا ہے۔
تیسری بار پھر آ کر رشتہ مانگتے ہیں۔ انکار ملتا ہے۔

شادی کیونکہ دو خاندانوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے ہم دونوں کی نہیں ہو سکتی۔ جنید کہتا ہے، چلو بھاگ چلتے ہیں۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میں خود کو صرف ماں باپ کے چنیدہ شخص کے سپرد کر سکتی ہوں۔ وہ ہی میرے مالک ہیں۔

جنید شادی کر لیتا ہے۔ میں نوکری کر لیتی ہوں۔

مجھے معلوم ہے میرے ماں باپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اس لیے وہ میرے لیے بہترین ”جیون ساتھی“ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ذات پات، تعلیم، شکل و صورت، امارت اور فرقہ و مسلک سب کا بہترین جوڑ بیٹھنا چاہیے۔ بڑی دو بیٹیوں کے لیے تو خاندان میں رشتے مل گئے تھے تو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا تھا۔ لیکن میرے لیے کچھ تو چھان پھٹک کر نی تھی۔

مگر ہر بار کسی رشتے سے انکار کرنا ایک جوا تھا، اگلی بار قسمت کام کرے گی اور ایک دن ہر لحاظ سے موزوں جوان ان کی لڑکی کا ہاتھ مانگنے پہنچ ہی جائے گا۔ وہ جوا ہارتے گئے، میری عمر کے ہندسے بڑھتے رہے۔ اس خاص دن کے لیے پر امید ابو مر گئے، امی کے گردے جواب دے گئے۔

اب بھی رشتے آتے ہیں مگر دوسری شادی والوں کے، رنڈوں کے۔ میری بھی اب زیادہ ڈیمانڈ نہیں، بس کسی کے بچے نہیں پالوں گی۔ ویسے مجھے کچھ کہنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ امی کو کوئی نہ کوئی خامی اتنا بڑا عیب لگتی ہے کہ وہ خود منع کر دیتی ہیں۔

رشتے والی آنٹی کہتی ہیں کہ تمہاری امی جان بوجھ کر رشتوں میں خامیاں اس لیے نکالتی ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ تمہاری شادی ہو گئی تو ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ ویسے ان کا ڈر بھی بجا ہے، بہووں سے تو کسی کو بھی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

اب میں مردوں کو حسرت سے دیکھنے لگی ہوں۔ کسی کے چوڑے سینے میں سمانا چاہتی ہوں۔ کسی کے مضبوط بازوں میں جکڑ جانا چاہتی ہوں۔ گزارا کر لیتی ہوں مگر جب طبیعت میں تلاطم بپا ہو تو کسی ساتھی کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ لیکن میں ایک شریف لڑکی ہوں اور مجھ جیسی لڑکیاں اپنی ضروریات کا اظہار نہیں کرتیں۔ لہذا میں امی سے یہ نہیں کہے سکتی کہ بس اب جو بھی مناسب رشتہ آئے ہاں کر دیں۔

مگر امی کو اب بھی پورا یقین ہے کہ کوئی ایسا لڑکا، (ہاہاہاہاہا، لڑکا لفظ پر مجھے ہنسی آ گئی ہے ) ضرور مل جائے گا، میرا بہترین جوڑ ہو گا۔ بہترین، کامل، مکمل، پرفیکٹ، کیا کوئی انسان ان سرابوں کے چنگل سے نکل پایا ہے؟

امی مر گئی ہیں۔ عین میری پینتالیسویں سالگرہ والے دن۔ نہ جانے کیوں مجھے ان کے جانے کا دکھ کم اور ہلکے پن کا احساس زیادہ ہے۔ اب مجھے صرف اپنی زندگی کا بوجھ ہی گھسیٹنا ہے۔

بھائی کی نگاہیں چبھن دار ہو گئی ہیں۔ وہ شریف آدمی ہے صاف صاف نہیں کہنا چاہتا۔ امی کے فوراً بعد ہی اسے اپنے پانچ بچوں کے لیے گھر چھوٹا پڑنے لگا ہے۔ بھابی نے بھی دو تین رشتے والیوں کو مزید پیسے دیے ہیں تاکہ جلد سے جلد کوئی رشتہ ڈھونڈ لائیں۔ باجیاں بہت مصروف ہیں۔ اب ان کے اپنے بچوں نے اتنی مصروفیت بڑھا دی ہیں کہ بس رسمی سی خیر خیریت کے لیے ہی بات ہو پاتی ہے۔ اب ان کی اپنی زندگیوں کے اپنے جھمیلے ہیں۔

میں بھی تھک گئی ہوں۔ کسی نا معلوم سکھ کے غیر مختتم انتظار نے میری ہڈیاں بھی پلپلی کر دی ہیں۔ لوگ بغیر کہے سمجھ جائیں تو ہم جیسے سہمے ہوئے لوگوں کی زندگی آسان ہو جائے۔ جن کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ الفاظ ہیں تو ہمت نہیں ہے۔ آخر زندگی کا دار و مدار ہمارے کہے الفاظ پر منحصر کیوں ہے؟ بغاوت اہم کیوں ہے؟ ضد ضروری کیوں ہے؟ کسی ایک فریق کو جیتنا اور دوسرے کو ہارنا کیوں پڑتا ہے؟

کاش میں نے امی ابو سے صاف صاف کہا ہوتا کہ، بس مجھے جنید سے شادی کرنی ہے تو میری زندگی مختلف ہوتی۔ کاش میں نے نسرین آنٹی کے کرائے دار کے رشتے پر اعتراض کرنے پر امی کو کھری کھری سنائی ہوتی کہ بس بہت ہو گیا، لڑکے کی تنخواہ کم ہے تو کیا ہوا، میری تو تگڑی ہے۔ میری خاموشیاں نے ہی میری مجرم ہیں۔ جو دیکھ نہیں سکتے، انہیں زبان سے ہی سمجھانا پڑتا ہے۔

آج میں کالج سے آئی ہوں تو بھابی نے مجھے بتایا ہے کہ ظہیر صاحب کا شادی کے لیے پیغام آیا ہے۔ تمہیں ہو سکتا ہے پسند نہ ہوں مگر ہم سب انہیں جانتے ہیں اس لیے سوچا تمہیں بتا دوں۔ تمہارے بھائی کو بھی پسند ہیں۔

مجھے ایک نڈھال سی خوشی محسوس ہوتی ہے۔

ظہیر صاحب، محلے کی بیکری کے مالک ہیں۔ مجھے وہ اس لیے پسند ہیں کہ تیل، چکنائی کے گندے کام سے وابستہ ہونے کے باوجود صاف ستھرے رہتے ہیں۔ میں ہمیشہ ہی ان کی بیکری سے سامان خریدتی ہوں اور گلے پر بیٹھے ہوئے ظہیر صاحب کو قیمت کی ادائیگی کرتی ہوں۔ ان کی بیوی کا دو سال پہلے جگر کے عارضے سے انتقال ہوا چکا ہے۔ دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ وہ بھی اکیلے ہیں، میری طرح۔

لیکن میرے اندر کچھ ٹوٹ بھی گیا ہے۔ شاید مجھے، اعتراض، سننے کی عادت ہو گئی ہے، اس بار نہیں ہوا تو میں بے چین ہو گئی ہوں۔ اس بے چینی اور کسک نے میری زبان گنگ کردی ہے۔ مجھ سے ہاں نہیں بولا جا رہا۔ میں خوفزدہ ہوں کہ اگر ابھی نہیں بولی تو کہیں گھر کی دیواریں مجھے بھینچ نہ ڈالیں۔

میں بھابی کی آنکھوں میں دیکھ کر اثبات میں سر ہلا دیتی ہوں۔ ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ میری زندگی کے سب سے بڑے فیصلے پر برسوں بعد اب کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہے۔ شکر ہے سب راضی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments