چین کے دیہی نوجوان اور شادیاں


پاکستان میں لڑکی والے جہیز کی بدولت پریشان رہتے ہیں لیکن چین کے دیہاتوں میں یہی پریشانی لڑکے والوں کو لاحق رہتی ہے۔ گو کہ چینی کسانوں کا معیار زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو گیا ہے اور ان میں کچھ ”دو لت مند لوگ“ بھی پیدا ہو گئے ہیں لیکن ابھی بھی چین کے دیہاتی نوجوانوں کو شادی کرنے کے لئے اپنے معیار زندگی سے کہیں زیادہ اور غیر ضروری اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ چین کے دیہاتوں میں بہت کم لڑکیاں ایسی ملیں گی جو شادی کے موقع پر تحائف کا مطالبہ نہ کرتی ہوں۔ لڑکیوں کی اکثریت مہنگے تحائف اور نقدی کا مطالبہ کرتی ہے۔ شادی ہونے تک مختلف مراحل کے دوران ایک نوجوان کو اپنے ہونے والے سسرال کو جو تحائف پیش کرنا پڑتے ہیں، ان کی تفصیل درج ذیل ہے :

پہلی ملاقات کے تحائف: ایک نوجوان جب پہلی مرتبہ اپنے ہونے والے سسرال سے ملتا ہے تو اسے ”ملاقات کی رقم“ کے طور پر ایک موٹی رقم پیش کرنی پڑتی ہے۔ سسرال والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس نوجوان کو اپنی ہونے والی بیوی کے لئے جوڑے اور کاسمیٹکس خریدنے کے ساتھ ان کے لئے دعوت کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے۔

تہوار کے تحائف: منگنی کے بعد چینی نوجوان کو ہر روایتی تہوار کے موقع پر لڑکی کے گھر والوں کو تحائف دینے پڑتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو ہو سکتا ہے لڑکی والے اسے اپنا داماد قبول کرنے سے انکار کر دیں.

بیوی کے لئے تحائف: مرد کو لڑکی کے مطالبات کے مطابق کپڑے، گھڑی، بائیسکل، سلائی کی مشین ٹی وی سیٹ اور گھریلو استعمال کی بجلی کی دوسری چیزیں خریدنی پڑتی ہیں یعنی چین میں لڑکا جہیز تیار کرتا ہے۔ اکثر لڑکیوں کو ان چیزوں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی لیکن ایسا وہ محض خود نمائی کے تحت یا اپنے والدین کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے کرتی ہیں۔ اکثر لڑکیاں سوچتی ہیں کہ انہیں جتنے زیادہ تحائف ملیں گے، اس سے ان کی قدرو قیمت میں اتنا ہی اضافہ ہو گا، اس لئے وہ اپنے مطالبات سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتیں حالانکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کا ہونے والا شوہر یہ چیزیں خریدنے کی خاطر قرضے کے بوجھ تلے دب جائے گا۔

دلہن کی آمد کے موقع پر دیے جانے والے تحائف:شادی سے ایک دن پہلے دلہا میاں کو سسرال والوں کے لئے تحائف خریدنے پڑتے ہیں۔

خوشی کے دن کے تحائف:دولہا کو شادی کی تقریب میں آنے والے سارے مہمانوں کے لئے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کرنا پڑتا ہے

بہت سی لڑکیاں تو صرف اسی صورت میں شادی کے لئے رضامند ہوتی ہیں جب ان کا منگیتر ان کے لئے نیا مکان بنوا لے۔ اکثر لڑکے والوں کو اپنے اچھے بھلے گھر کا آدھا حصہ توڑ کر دلہن بی بی کے لئے نیا مکان بنوانا پڑتا ہے۔ یوں نہ صرف پیسے کا زیاں ہوتا ہے بلکہ گھریلو جھگڑے بھی جنم لیتے ہیں۔ اکثر صورتوں میں شادی کے اخراجات پورے کرنے کے بعد دولہا کا خاندان اتنا غریب ہو جاتا ہے کہ فصلوں کے لئے کھاد خریدنا تو درکنار دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو جاتا ہے اور یوں بہو اور سسرال والوں کے درمیان عداوت پیدا ہو جاتی ہے۔

اکثر نوجوان اپنی رقم کی وصولی اس انداز میں کرتے ہیں کہ ہر وقت بیوی پر حکم چلاتے ہیں یا اسے برا بھلا کہتے ہیں۔ دلہن کی بڑھتی ہوئی قیمت ادلے بدلے کی شادیوں کو فروغ دیتی ہے۔ ایسی شادیوں کا انجام اکثر الم ناک ہوتا ہے کیونکہ ان کی بنیاد محبت کی بجائے پیسے پر رکھی جاتی ہے۔ تین عشرے قبل فوچیان صوبے کے کچھ کسان تو اپنی بیٹیوں کو خوشحال کسانوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے۔ کسانوں کے روزنامے ”فارمرز ڈیلی“ کے مطابق شادی کے لئے بچوں کو فروخت کرنا ملک کے عائلی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور شادی کے موقع پر قیمتی تحائف کا مطالبہ کرنے والی خواتین خود کو انسانیت کے مرتبے سے گرا کر اجناس کا مرتبہ دے کر خود اپنی تحقیر کرتی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ چین کے کسانوں پر جاگیرداری تصورات کا اثر باقی ہے۔ اگر اس روش کی روک تھام نہ کی گئی تو شادی کی آزادی محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کے رہ جائے گی اور عورت کا مرتبہ بڑھ کر مرد کے مساوی نہیں ہو سکے گا۔ یہ تو چین کے حالات تھے جب کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں یہ سارے مطالبات لڑکا یا اس کے گھر والے کرتے ہیں۔

اب آتے ہیں موجودہ چین کی طرف۔ اب دیہی اور شہری چین میں لوگوں کے معیار زندگی اور صنفی مساوات کی سطح میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ اس سے چین کی عائلی اور خاندانی زندگی کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ شہری معیشت اور ثقافت ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر آگے بڑھ رہی ہے۔ دیہی معیشت زرعی بنیاد کے ساتھ ساتھ صنعتی بنیاد پر بھی استوار ہو رہی ہے۔ اس بنا پر شادیوں اور خاندانوں میں بھی متنوع رحجانات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

نیوکلیر گھرانوں یا اکائی خاندانوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ تناسب ساٹھ فی صد ہے اور اضافہ متوقع ہے۔ زیادہ تر گھرانے تین یا چار افراد پر مشتمل ہیں۔ معیار زندگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ شادی کے حوالے سے توقعات میں تبدیلی آئی ہے۔ اب آمدنی، گھرداری اور بچے لوگوں کی اولین ترجیح نہیں رہے بلکہ محبت کرنے والا، وفادار اور سمجھدار ساتھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

اب لوگ دیر سے شادیاں کرتے اور بچے پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کنوارے رہنا یا بغیر بچوں کے زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ جیسا کہ مغرب میں لوگ شادی کیے بغیر ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں، چین کے شہری نوجوان بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ جنسی تعلیم عام ہے اور سائنسی انداز میں دی جاتی ہے۔ اس لئے اب نوجوان محض تجسس کے مارے جنس کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شادی سے پہلے کے جنسی تعلقات میں کمی آئی ہے۔ رسمی طور پر خود کو باندھنے سے پہلے لوگ آزمائشی طور پر بھی ساتھ رہنے لگے ہیں۔

اب زیادہ زور شادی کی کوالٹی پر دیا جاتا ہے اور جب لگے کہ ساتھ نبھانا مشکل ہے تو لوگ اپنی راہیں الگ کر لیتے ہیں۔ اب لوگوں کی ترجیح شادی کو خوشگوار رکھنا اور پر لطف بنانا ہے۔ لڑکیاں اتنی خودمختار ہو گئی ہیں کہ شادی سے پہلے تعلقات قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتیں۔ شوہر اور بیوی مساوی حیثیت رکھتے ہیں، گھریلو تشدد کے بارے میں سننے کو نہیں ملتا۔ شوہر حضرات گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اقتصادی استحکام اور بچوں کی بجائے اب پیار محبت اور جنسی تعلقات میں آسودگی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

دیہاتوں میں بھی اپنی مرضی سے شادی کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ طلاق کی شرح ابھی بھی کم ہے کیونکہ طلاق کی صورت میں اکثر لڑکیوں کو زمین سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ خاندان کو جوڑے رکھنے کی خاطر شوہر حضرات بیویوں سے اچھا سلوک کرنے لگے ہیں۔ دیہی اور شہری چین میں شادی اور خاندان کا ادارہ ارتقا پذیر ہے۔ صنفی مساوات کے نظرئے کو قبول کر لینے کی وجہ سے اب شادی اور خاندان کے اداروں میں زیادہ تنوع، سمجھداری اور ترقی پسندی نظر آتی ہے۔

دیہی علاقوں میں شادیوں کے موقع پر رسوم رواج کی وجہ سے ہونے والی فضول خرچی کی روک تھام کے لئے 2019 ء میں چینی حکومت نے کچھ گائیڈ لائنز متعارف کروائی ہیں۔ اکثر دیہاتی خود بھی اس اسراف کے خلاف ہیں لیکن بڑے بوڑھوں اور برادری کے دباؤ کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ گاؤں میں کام کرنے والی سماجی تنظیموں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ شادیوں میں ہونے والی فضول خرچی کی روک تھام کے لئے اقدامات کریں۔ ان اصلاحات پر عمل کرنے والے خاندانوں کو حکومت کی جانب سے ترغیبات اور انعامات بھی دیے جائیں گے۔

اس سیریز کے دیگر حصےچین کی اقتصادی اصلاحاتکرکٹ بیجنگ میں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).